مقامی آبادی نے کم از کم ڈھائی سو سکولوں، پچاس سے زائد صحت کے مراکز کے لیے زمینیں، کئی پولو گراؤنڈز کی زمینیں، چار قلعے اور سینکڑوں جماعت خانے تحفے میں دی ہیں۔ نورٹوق کی تجارتی استعمال کا فیصلہ کرنے میں بظاہر مقامی آبادی بالخصوص نوجوانوں اور ممکنہ متاثرین کا کردار نظر نہیں آتا۔
تحریر: صفی اللہ بیگ
دو سو کنال پر مفت فطری آثاثہ، ہنزہ نگر کی وادی اور مشہور پہاڑی چوٹیوں کا نظارہ فراہم کرنے والا ” نورٹوق” پر سینکڑوں سمینٹ کے کھڑے ستونوں کے ساتھ تصویر نے سوشل میڈیا پر زبردست ہنگامہ برپا کیا۔ اور فطرت کی اس اہم ماحولیاتی اثاثے کی ممکنہ خرابی اور اس کا متبادل ماحول دوست استعمال کی تجویز پرلوگ گالیاں اور الزامات دینے پر اتر آئے ۔ یہاں تک کہ اس کمرشل پروجیکٹ اور التت کے عوام کے طرف سے 35 سال پہلے ہزہائی نس پرنس کریم آغاخان کوپیش کئے ہوئے تحفے کو مذہبی معنی دے کرنوجوانوں کے جذبات کو جگانے کی کوشش کی گئی۔
مگر نور ٹوق پر سولر پاور پروجیکٹ بنانے کا فیصلہ کس نے کیسا کیا، کیا اس کے فائدے اورممکنہ نقصانات کا مروجہ قوانین کے تحت جائزہ لیا گیا ہے یا نہیں اہم سوالات ہیں۔ مگر ان سوالوں سے بڑھ کر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایسے تحفے جو ایک خاص وجہ یا مقصد یا گہری عقیدے اور اس تعلق کے اظہارکے طور پر اجتماعی طور پر پیش کی گئی ہو کیا ان کا تجارتی استعمال اخلاقی طور پر درست ہے اور خصوصا جب مجوزہ تجارتی استعمال سے تحفہ پیش کرنے والی موجودہ آبادی اور ان کی آنے والی نسلوں کو یکساں فائدہ نہ ملنے کا خدشہ ہو۔ اور ممکنہ نقصان کا امکان بھی موجود ہو۔
مگر نور ٹوق پر سولر پاور پروجیکٹ بنانے کا فیصلہ کس نے کیسا کیا، کیا اس کے فائدے اورممکنہ نقصانات کا مروجہ قوانین کے تحت جائزہ لیا گیا ہے یا نہیں اہم سوالات ہیں۔ مگر ان سوالوں سے بڑھ کر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایسے تحفے جو ایک خاص وجہ یا مقصد یا گہری عقیدے اور اس تعلق کے اظہارکے طور پر اجتماعی طور پر پیش کی گئی ہو کیا ان کا تجارتی استعمال اخلاقی طور پر درست ہے اور خصوصا جب مجوزہ تجارتی استعمال سے تحفہ پیش کرنے والی موجودہ آبادی اور ان کی آنے والی نسلوں کو یکساں فائدہ نہ ملنے کا خدشہ ہو۔ اور ممکنہ نقصان کا امکان بھی موجود ہو۔
دوسرا پہلو مخصوص تحفوں کے استعمال صرف تحفہ وصول کرنے والے نہیں بلکہ ان تحفوں کا انتطام کرنے والے اداروں کے پاس کلی اوریک طرفہ اختیار ہونے کی دلیل (جیسا کہ سابق صدر ہنزہ کاونسل اور چند اور لوگوں کا موقف ہے) قبول کریں اور تحفہ دینے والوں کی رائے اور ان کے اجتماعی مفاد کو یکسر خارج کریں۔ تو اس کا گلگت بلتستان کے مقامی آبادی پر مستقبل میں نہایت منفی معاشی و سماجی اور خوف ناک ماحولیاتی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ مقامی آبادی نے کم از کم ڈھائی سو سکولوں، پچاس سے زائد صحت کے مراکزکے لیے زمینیں، کئی پولو گراؤنڈز کی زمینیں، چار قلعے اور سینکڑوں جماعت خانے تحفے میں دی ہیں۔ نورٹوق کی تجارتی استعمال کا فیصلہ کرنے میں بظاہر مقامی آبادی بالخصوص نوجوانوں اور ممکنہ متاثرین کا کردار نظر نہیں آتا۔
چند حضرات نے اعلانیہ کہا کہ "اس پروجیکٹ سے پہلے دویکر کو بجلی ملے گا۔ اس کے بعد اگر اضافی بجلی موجود ہو تودوسروں کو فراہم کی جائے گی۔” اس بجلی کی ٹیریف پر بات بعد میں کرتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب باخبر لوگوں کو علم ہے کہ اس سے التت کی پوری آبادی کو بجلی میسر نہیں ہوسکتی ہے۔ جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پروجیکٹ کا ڈیزائن اور مقصد عوام کو بجلی کی سہولت میسر کرنا شاید نہ ہو۔ کیونکہ دویکر میں بجلی کا زیادہ استعمال کرنے والے تو ہوٹلز ہیں۔ اور اگر عوام کو سولر بجلی دینا مقصود ہوتا تواس کی صورت تو ہر گھر کو سولر پینل دینا سب سے آسان اور آزمودہ طریقہ تھا۔ جیسا کہ پاکستان کے کافی دیہی علاقوں میں اس پرعمل کیا گیا ہے۔ جبکہ یہاں یہ صورت حال نہیں ہے۔
اس پروجیکٹ کے مقاصد اور نتائج کے بارے میں مختلف لوگ مختلف رائے رکھتے ہیں چنانچہ اب عوامی سطح پر پائی جانے والی کنفیوژن کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوی شک کی گنجائش نہیں کہ سولر بجلی صاف اور ماحول دوست توانائی کا اہم ذریعہ ہے مگر اس کو بنانے کا مقصد عوامی ضرورت پورا کرنا ہے یا بجلی کا کاروباری طلب۔ یہ کہانی ابھی صغیہ راز میں ہے۔
مصنف کے بارے میں:
صفی اللہ بیگ ایک سیاسی و سماجی کارکن اور ماحولیات و تقافت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ بام جہاں کے لئے ریگولر بنیادوں پر کالم لکھتے اور تجزے کرتے ہیں۔