تحریر: کریم اللہ
سور ڑاسپور تحصیل مستوچ ضلع اپر چترال کا ایک دور افتادہ مگر فطری حسن سے مالا مال گاؤں ہے جو کہ وادی ڑاسپور کے آخر میں شندور سے متصل ہے۔
یہ گاؤں ڑاسپور کے دیگر دیہات کی طرح موسم گرما میں جنت کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں یہاں سے شندور پولو گراونڈ کا فاصلہ کم و بیش دو سے تین گھنٹے پیدل کا ہے۔
سور ڑاسپور سے غزر گلگت بلتستان کا فاصلہ بھی اتنا زیادہ نہیں ۔
سور ڑاسپور سمیت پورے وادی ڑاسپور کے لوگ بڑے ہی مہمان نواز ہے اس کے علاوہ ڑاسپور کے لوگوں کے بہادری کے قصے بھی پورے چترال و گلگت بلتستان میں مشہور ہیں۔
تبھی تو ڑاسپور ہی کی عظیم شاعرہ یوں گویا ہوئی ہے
ڑاسپریکو سم بول نوغے تان ننو ژان نن غیروم
لوٹ موشیا نام نیسیر تان ننو خوش نن غیروم
ڑاسپور کے لوگوں کے ساتھ جنگ میں شامل ہو جائے اسی طرح آپ نام پیدا کر سکتے ہیں۔
ڑاسپور بنیادی طور پر سات دیہات پر مشتمل وادی ہے جسے مقامی کھوار زبان میں ڑاسپورو سوت عولات یعنی ڑاسپور کے سات دیہات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ڑاسپور کے لوگوں کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ننگ و ناموس اور اتحاد و اتفاق میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔
سیاسی لحاظ سے بھی یہ وادی بے حد جمہوریت پسند واقع ہوئے ہیں کسی بھی امیدوار کو یہاں کے لوگ دوبار نہیں جتواتے اور کسی بھی طاقت ور کے سامنے ڈٹ کے کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
وادی ڑاسپور جہاں اپنی فطری حسن کی وجہ سے انتہائی دل فریب ہے وہیں اسی وادی کے دو خواتین شعراء سے منسوب مرثیہ طرز کے گیت کھوار ادب کا سرمایہ کہلاتی ہے۔ ان میں سے ایک دوشی نن دوشی کی کہانی اور اس سے منسوب شاعری ہے جس کے الفاظ پڑھ کر سنگ دل انسان بھی اپنے آنسو نہیں روک پائیں گے۔ کہانی کا لب لباب یہ ہے کہ کسی زمانے میں یہاں کے ایک مقامی شخص کی دو بیٹیاں تھی ان میں سے بڑی بیٹی نن دوشی اور چھوٹی بیٹی کا نام دوشی تھی۔ نن دوشی کی منگنی غزر کے کسی علاقے میں ہوئی تھی موسم سرما میں جب برف پڑتی ہے تو نن دوشی کی شادی اور روانگی کا اہتمام ہوتا ہے عین روانگی کی رات نن دوشی رحلت کرتے ہیں تو والدہ اس کا جنازہ گھر کے اندر رکھ کے چھوٹی بیٹی دوشی کو دلہن بنا کے روانہ کرتے ہیں۔ جب بارات روانہ ہو گئی تو ماں نہ دوشی نن دوشی گاتے ہوئے آنکھوں سے آنسو رواں ہے اور ان کے دل سے دوشی نن دوشی جیسی لازوال مرثیہ نکلتی ہے جو کھوار ادب کا ایک بہت بڑا سرمایہ ہے۔ اس کے کچھ بند یوں ہے
ہروݰ نو وائے اے نان!
دوشیئو دیتی کیہ نن دوشیو کرنیس نو وائے نن دوشئیوتے لا ژورئے۔
یورئے دیتی کیہ لشٹ گزو، ہروݰ نو وائے نن دوشیئوتے لا ژور رئے۔ یورئے دیتی کیہ تا گٹہ، توریست نو وائے نن دوشیئوتے لا ژوئے
دوشی نن دوشی کے علاوہ نن غیروم جیسی لازوال مرثیہ بھی اسی وادی کی عظیم شاعرہ کی تخلیق ہے جو کھوار ادب، شاعری اور ہنگ و ساز کے لحاظ سے لازوال گیت ہے۔
مصنف کے بارے میں :
کریم اللہ عرصہ پندرہ سالوں سے صحافت سے شعبے سے منسلک ہے اس کے علاوہ وہ کالم نویس، وی لاگر اور وڈیو جرنلزم کر رہے ہیں۔
چترال اور گلگت بلتستان کے سیاسی، سماجی و معاشی مسائل و مشکلات اور روزمرہ کے واقعات پر لکھتے ہیں۔ جبکہ وہ بام دنیا کے ایڈیٹر ہے ۔