Baam-e-Jahan

سانحہ جڑانوالہ۔ پس منظر اور ذمہ داری

حیدر جاوید سید

مبینہ توہین مذہب کے الزام کی زد میں آنے والے دونوں مسیحی برادران اگر  ان پڑھ ہیں تو تحریر کس نے لکھی؟ چوتھی رائے وہی ہے کہ جڑانوالہ میں مسیحی برادری کی قیمتی نجی، کمرشل جائیدادوں اور زرعی اراضی کو ہتھیانے کے لئے توہین مذہب کا الزام اچھالا گیا کسی ابتدائی تحقیق کے بغیر مساجد سے اعلانات کرائے گئے۔

تحریر: حیدر جاوید سید


پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے بغیر ہمیں کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا کہ توہین مذہب کا قانون اس ملک میں بطور ہتھیار، انتقام اور قبضہ گیری کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ دروغ گو شخص پر جواباً توہین مذہب کا مقدمہ درج نہ ہونے کی وجہ نے لوگوں کے حوصلے بڑھائے۔ میں نرم سے نرم الفاظ میں ’’بندر کے ہاتھ میں ماچس یا پھر اُسترے ‘‘ والی بات ہی کہہ سکتا ہوں۔

 تلخ حقیقت یہی ہے کہ اپنی صحافتی ذمہ داریوں کے دوران میں نے پچھلے تیس  برسوں میں کم و بیش پانچوں مسلم مکاتب فکر کے ذمہ داران  سے سوال کیا، آپ توہین مذہب کا جھوٹا الزام ثابت ہو جانے پر دروغ گو شخص کے خلاف اسی قانون کے تحت کارروائی کے لئے آواز بلند کیوں نہیں کرتے؟

 95 فیصد نے گہری خاموشی اوڑھ لی صرف دو شخصیات جسٹس (ر) جاوید اقبال (فرزند علامہ اقبال) اور حضرت علامہ محمد خان قادری مرحوم نے دوٹوک انداز میں جواب عنایت کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ” اگر غلط بیانی کے مرتکب شخص کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت کارروائی کئے جانے میں کوئی قانونی مشکل ہو تو کسی تاخیر کے بغیر ’’قذف‘‘ کے قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے” ۔ علامہ سید ساجد علی نقوی، پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری اس بات پر متفق تھے کہ  "الزام لگانے والے اور الزام کی زد میں آنے والے  دونوں اشحاص کے نجی و سماجی معاملات کو دیکھنا ازبس ضروری ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ کہیں کسی ذاتی عناد و اختلاف کی بنیاد پر الزام تو نہیں لگا دیا گیا ” ۔

میرے لئے  سب سے خوبصورت جواب مرحوم قاضی حسین احمد کا تھا ان کا کہنا تھا کہ "مناسب ہوگا کہ اس طرح کے معاملات سے نمٹنے کے لئے ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سربراہی میں اہل دانش کی کمیٹی قائم ہو یہ کمیٹی فیصلہ کرے کہ الزام درست ہے یا پس پردہ مقاصد کچھ اور تو نہیں” ۔

آگے بڑھنے سے قبل ایک بار پھر ماضی کے ماہ و سال میں چلتے ہیں۔ یہ 2014ء کا سال تھا جب مینارٹیز  حقوق کمیشن والے فادر یونس عالم نے حیدر آباد کے ایک ہوٹل میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی پر سیمینار کا اہتمام کیا تھا ۔

 اس سیمینار میں مجھے بھی گفتگو کے لئے بلایا گیا تھا۔ تب میں نے عرض کیا کہ ’’سرائیکی وسیب اور سندھ کے سماج  معلوم ہزاریوں سے امن و اخوت بھائی چارے اور صوفی ازم کے پیروکار ہیں مگر جس طرح دونوں وسیبوں میں چند عشروں کے دوران کھمبیوں کی طرح قلعہ نما مدرسے اگ آئے ہیں اس سے انتہا  پسندی بڑھ رہی ہے۔ مزید ستم یہ ہے کہ فرقہ پرست تنظیموں کو افرادی قوت ان دونوں وسیبوں  سے مل رہی ہے اور بے بہا چندے بھی‘‘۔

سیمینار کے ایک آدھ مقرر کے علاوہ دیگر نے موضوع سے ہٹ کر مجھے آڑے ہاتھوں لیا ان کا موقف تھا کہ مجھے سندھ کے سماجی پس منظر اور تاریخ کا علم ہی نہیں۔ کچھ عرصہ بعد جے یو آئی (ف) کے ایک مولانا (ڈاکٹر خالد محمود سومرو) قتل کر دیئے گئے۔ مذہبی عناصر نے جس طرح سندھ کا شٹرڈاؤن کرایا  اور جو کچھ ہوا اس کے بعد چند سندھی دوستوں نے اعتراف کیا کہ مینارٹیز  رائٹس کمیشن کے سیمینار میں جن خطرات کی نشاندہی کی گئی تھی وہ درست ثابت ہوئی۔

 تمہید طویل ہوگئی۔ ان سطور میں برسوں سے یہ عرض کرتا چلا آرہا  ہوں کہ مذہبی انتہا پسندی جس طرح بڑھ رہی ہے مجھے خطرہ ہے کہ ایک دن گلی گلی انصاف کی عدالتیں لگیں گی اور مخالفین کو توہین مذہب و مقدسات کے الزام میں سزائیں سنائی جائیں گی۔

آپ مدعی، آپ  وکیل اور آپ ہی جج بننے کے شوق سے ایسی دیوانگی پھوٹے گی کہ لوگ خوف کے مارے سچ نہیں بولیں گے۔ مذہبی شخصیات کا ایک حصہ اس سٹریٹ جسٹس کا حامی ہوگا اور ایک حصہ محفوظ مقامات پر  دبک کر بیٹھ جائے گا۔

 بدقسمتی کہہ لیجئے یہ سب برسوں سے ہمارے آپ کے چار سو ہو رہا ہے۔ عملی طور پر ثابت کر دیا گیا ہے کہ اسلام امن کا دین نہیں ہم اس صورت حال کے ذمہ داران کی تلاش میں نکلیں تو بات بہت دور تلک جائے گی۔ مناسب ہے کہ جو سامنے ہے اسی پر بات کرلیتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ نفرت پر ہوئے بٹوارے کے کھیتوں میں کبھی گلاب کاشت نہیں ہوتے۔ نفرتوں کی پنیری سے اگی فصل ایک سماج کو کن حالات سے دوچار کرسکتی ہے اس کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں۔

مجھے عرض کرنے دیجئے قانون انصاف کے لئے ہوتا ہے۔ جب قوانین کو دو دھاری تلوار بنا کر اکثریت یا مشتعل گروہ  اشتعال کے بل بوتے پر مخالفین کو سبق پڑھانے پر تل جائے یا یہ  مقصد قرار پا جائے تو یہی کچھ ہوتا ہے جو ہر دوچار دس دن بعد ہمارے چار اور کہیں نہ کہیں  ہوجاتا ہے۔

مثلاً بدھ کو جو کچھ جڑانوالہ میں ہوا اس کی وجوہات اور پس منظر جاننے کی شعوری کوشش ضروری ہے۔

 سانحہ جڑانوالہ کی بنیاد  میں چار باتیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں پہلی یہ کہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے اسسٹنٹ کمشنر کو ایک مقامی مذہبی شخصیت کی سفارش رد کرنا مہنگی پڑگئی اس سفارش کے حوالے سے جو حقائق سامنے آئے اس پر حیرانی ہوئی ۔

دوسرا یہ کہ ایک مسیحی مذہبی رہنما کے بیٹے پر موبائل میسج سے توہین مذہب کا الزام لگا جو تحقیقات پر غلط ثابت ہوا۔

 تیسرا دو بھائیوں پر توہین مذہب پر مبنی ایک  تحریر لکھنے کا الزام بتایا جا رہا ہے 

جبکہ یہ  دونوں مسیحی بھائی ان پڑھ ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ مبینہ توہین مذہب کے الزام کی زد میں آنے والے دونوں مسیحی برادران اگر  ان پڑھ ہیں تو تحریر کس نے لکھی؟ چوتھی رائے وہی ہے کہ جڑانوالہ میں مسیحی برادری کی قیمتی نجی، کمرشل جائیدادوں اور زرعی اراضی کو ہتھیانے کے لئے توہین مذہب کا الزام اچھالا گیا کسی ابتدائی تحقیق کے بغیر مساجد سے اعلانات کرائے گئے۔

 (ان اعلانات کو ویڈیوز کی صورت میں سوشل میڈیا پر بھی پھیلایا گیا) جس سے شہر اور مضافات میں اشتعال پھیلا نتیجتاً 10سے زائد مسیحی عبادت گاہوں کو جلا دیا گیا ( سپیشل برانچ کی رپورٹ کے مطابق 16 مسیحی عبادت گاہیں جلائی گئیں )  ان کی مقدس کتب اور دیگر مقدسات جلائے گئے۔

درجنوں نجی عمارتیں اور گاڑیاں جلا دی گئیں 10سے زائد گھنٹے تک شہر اور گردونواح میں بلوائیوں کا راج رہا۔

یہاں تک کہ بلوائیوں نے موٹروے انٹر چینج پر قبضہ کرکے ٹریفک روک دی۔

چلئے اگر لمحہ بھر کے لئے توہین مذہب کے ابتدائی الزام کو درست مان لیا جائے تو توہین مذہب سے مشتعل ہونے والوں نے جو توہین مذہب و مقدسات کیں  اس کا ذمہ دار کون ہے؟

 اس واقعہ کے پس منظر کے حوالے سے جو چار باتیں سامنے آئیں (بالائی سطور میں درج کی ہیں) وہ اس امر کی متقاضی ہیں کہ آزادانہ تحقیقات ہوں۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ جڑانوالہ کے سانحہ پر امریکہ اور یورپی یونین  کے ردعمل کو حلوہ نہ سمجھا جائے۔ یہ ردعمل گلے پڑسکتا ہے۔

طرم خان بننے کی بجائے حقیقت پسندی کے مظاہرے کی ضرورت ہے۔ دستیاب معلومات سے چار میں سے دو باتوں (وجوہات) کو تقویت ملتی ہے اولاً مسیحی اسسٹنٹ کمشنر اور ایک مذہبی رہنما میں سفارش کے حوالے سے پیدا ہوئی تلخی اور ثانیاً مسیحی برادری کی قیمتی جائیدادوں پر قبضہ گیروں کی ’’نظر‘‘۔

 عین ممکن ہے اس کے علاوہ کوئی تیسری اور چوتھی وجہ بھی ہو۔ ہماری رائے میں  یہ محض احمقانہ بات ہے  کہ اس پورے واقعہ میں کوئی شخص زخمی یا جاں بحق نہیں ہوا۔

 تلخ حقیقت یہ ہے  کہ اقوام کی برادری میں پاکستان کی بچی کھچی ساکھ کا جنازہ نکل گیا۔

 باردیگر یہ عرض کردوں خدا  کے  لئے بندروں کے ہاتھ میں ماچس اور استرا تھما کر تالیاں پیٹنے  اور کسی سانحہ کی صورت میں یہ پھکی فروخت کرنے کی کوشش نہ کیا کریں کہ یہ کام تو کوئی مسلمان کر ہی نہیں سکتا۔

یہاں تین چار عشروں میں 80 ہزار سے زائد پاکستانی مسلمان مسلمانوں کے ہاتھوں ہی قتل ہوئے ہیں۔

گزشتہ روز کے سانحہ جڑانوالہ میں بھی  پیش پیش مقامی مسلمان ہی تھے۔

 عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ توہین مذہب کے اولین الزام کی تحقیقات ہونی چاہئیں الزام درست ہے تو ملزم یا 2 ملزمان کے خلاف کارروائی ہو غلط ہے تو الزام لگانے والوں کے خلاف توہین مذہب کے قانون کے تحت کارروائی لازم ہے۔

 اسی طرح بلوائیوں اور انہیں اکسانے والے افراد کے خلاف بھی توہین مذہب و مقدسات کے قانون کے تحت کارروائی ضروری ہے جن کے پھیلائے اشتعال سے 16 سے زائد مسیحی عبادت گاہیں، درجنوں گھر اور گاڑیاں جلا دی گئیں۔ یہ بات لکھ کر رکھ لیجئے کہ لیپاپوتی سے کام چلے گا نہ بنے گا۔

 دنیا اور مقامی مسیحی برادری  کو اطمینان دلانا ہوگا اور یہ صرف قانون کی حاکمیت سے ہی ممکن ہے

’’ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں‘‘۔

مصنف کے بارے میں:

حیدر جاوید سید پاکستان کے سینئر ترین صحافی، کالم نویس اور تجزیہ نگار ہے۔ وہ گزشتہ پانچ دھائیوں سے صحافت و اخبار نویسی کے شعبے سے منسلک ہے۔ اور پاکستان کے موقر اخبارات و جرائد کے لئے کام کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چوتنیس کے قریب کتابین لکھی ہے جن میں  سچ اور یہ عشق نہیں آساں تصوف کے موضوع پر ہیں باقی کچھ سیاسی ادبی کتب ہیں اور ایک سفر نامہ ہے جبکہ خلیل جبران کے کلیات کو مرتب  کر چکے ہیں۔ آج کل وہ اپنی سوانح عمری لکھنے میں مصروف ہے جبکہ روزنامہ مشرق پشاور اور بدلتا زمانہ کے لئے کالم اور ایڈیٹوریل لکھتے ہیں۔ آپ پاکستان کا واحد صحافی ہے جسے جنرل ضیا کے دور میں بغاوت کے مقدمے میں سپیشل ملٹری کورٹ نے تین سال قید کی سزا دی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں