Baam-e-Jahan

چترال ۔ حکومت اور دہشت گردوں کے دعوے

حیدر جاوید سید 

کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان کے اندر وسیع تائید نہ مل سکنے پر اس فرقہ وارانہ کشیدگی کا فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی اپنا لی ہے (اس کشیدگی کو عمومی طور پر شیعہ سنی تنازع کا نام دیا جاتا ہے) یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی چترال  کے راستے بلتستان میں داخل ہونا چاہتی ہے جہاں پچھلے ڈیڑھ ہفتے سے کالعدم سپاہ صحابہ کے ہم خیال اور شیعہ مسلمان ایک دوسرے کے خلاف میدان لگائے ہوئے ہیں۔

تحریر: حیدر جاوید سید


چترال سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پاک افغان سرحدی علاقے میں جدید ترین  ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں کے ایک بڑے گروپ نے پاک فوج کی 2 چوکیوں پر حملہ کیا۔ سکیورٹی فورسز کی مزاحمت اور دفاعی کارروائی میں 4 جوان شہید ہوئے جبکہ 12دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔

 آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کو پسپا کر دیا گیا ہے۔ بڑی تعداد میں حملہ  آور زخمی بھی ہوئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق افغان صوبوں کنٹر اور نورستان کے علاقوں گووار دیش، پتیگال برگ، متل اور بتاش کے  علاقوں میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور ان کے ارتکاز کی سرگرمیوں کے بارے میں افغان حکومت کو پیشگی آگاہ کر دیا گیا تھا۔

یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے ہمیں ایک آدھ بلکہ چند دن پیچھے جانا ہوگا تاکہ صورت حال وضاحت کے ساتھ سمجھ سکیں۔

افغان صوبے کنٹر سے متصل لوئر چترال کے سرحدی علاقوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے اکٹھے ہونے کی مصدقہ اطلاعات کی تصدیق ضلعی پولیس آفیسر دیر بالا کی جانب سے ماتحت عملے کو لکھے گئے اس مراسلے سے بھی ہوتی ہے جس میں ملحقہ افغان علاقوں میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت  کے باعث چوکنا رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

ڈپٹی کمشنر لوئر چترال نے ارسون  گدی بارڈر کے قریبی علاقوں میں مشکوک افراد دیکھے جانے کی اطلاع پر فوراً اضافی نفری کی تعیناتی کے احکامات جاری کئے اور ان پر بڑی تیزی کے ساتھ عمل بھی ہوا۔

 خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس اختر حیات گنڈاپور نے ایک نیوز ویب  سائٹ کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ’’افغان صوبے نورستان  کی طرف سے بارڈر سے ملحقہ علاقوں میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت کی اطلاع پر ایلیٹ فورس، پولیس اور سی ٹی ڈی کے اہلکار ملحقہ علاقوں میں تعینات کر دیئے گئے ہیں  ان کے مطابق کوئیک رسپانس فورس کا دستہ بھی چترال کے سرحدی علاقوں میں بھیجا گیا ہے۔

 ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں گزشتہ روز یا گزشتہ سے پیوستہ روز سے قبل کی ہیں۔ ان کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ یہ معاملات لگ بھگ بارہ پندرہ دنوں سے ’’علم‘‘ میں تھے اور جوابی انتظامات کئے جا رہے تھے۔

ہم اس حوالے سے کالعدم ٹی ٹی پی کے دعوےاور بعض ذرائع سے ان کے اصل مقصد و حقیقی منزل پر بات کرتے ہیں مگر اس سے پہلے یہ جان لیجئے کہ اپر دیر میں سکیورٹی کے حالات کے پیش نظر دیربالا پولیس نے بھی پاک افغان سرحد اور سوات سے متصل پہاڑی علاقوں میں سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کیا تھا (یہ ہفتہ بھر قبل کی بات ہے) لوئر چترال پولیس کے ترجمان نے چند دن قبل تحصیل دروش کے سرحدی  علاقوں سوئر اوسون اور اروند میں  سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کی تصدیق کی اس آپریشن میں سی ٹی ڈی، چترال سکاؤٹس، پولیس، سپیشل برانچ اور ایلیٹ فورس کے جوانوں نے حصہ لیا۔

یہ بھی ہفتہ دس دن قبل کی بات ہے۔ آئی ایس پی آر کے حکام نے دو باتیں کیں اولاً گزشتہ روز کی جھڑپ اس کے پس منظر طرفین کے جانی نقصان ثانیاً یہ کہ اس صورت حال سے پیشگی افغان حکام کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔

گزشتہ روز ہوئے  دہشت گردوں کے حملے میں جدید ترین اسلحہ استعمال ہوا۔

ان سطور میں افغانستان سے امریکہ و نیٹو کے انخلا کے وقت مسلسل اور بعد ازاں کئی بار عرض کرچکا  کہ امریکہ اور نیٹو کا چھوڑا ہوا  اسلحہ دہشت  گرد گروپ استعمال کر رہے ہیں۔ امریکی اس کی گول مول تردید کرتے رہے ہم نے اس جدید اسلحہ کی تین بڑی افغان منڈیوں ہرات، قندھار اور کابل کے حوالے سے عرض  کیا تھا کہ ان منڈیوں سے مختلف الخیال دہشت گرد گروپ اسلحہ خرید رہے ہیں۔

پچھلے ہفتے اقوام متحدہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کا چھوڑا ہوا اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا ہے اور وہ اسے اپنی  مذموم کارروائیوں میں استعمال کر رہے ہیں۔

"افغانستان سے امریکہ و نیٹو کے انخلا کے وقت مسلسل اور بعد ازاں کئی بار عرض کرچکا  کہ امریکہ اور نیٹو کا چھوڑا ہوا  اسلحہ دہشت  گرد گروپ استعمال کر رہے ہیں۔ امریکی اس کی گول مول تردید کرتے رہے ہم نے اس جدید اسلحہ کی تین بڑی افغان منڈیوں ہرات، قندھار اور کابل کے حوالے سے عرض  کیا تھا کہ ان منڈیوں سے مختلف الخیال دہشت گرد گروپ اسلحہ خرید رہے ہیں۔”

بارِ دیگر عرض  کردوں کہ اسلحہ میدان اور سڑک پر پڑا دہشت گردوں کے ہاتھ نہیں لگ گیا ہے بلکہ اسلحہ منڈیوں سے خریدا گیا ہے ان ناجائز اسلحہ منڈیوں میں افغان طالبان کی عبوری حکومت کی نگرانی میں کاروبار جاری ہے۔

بدھ کو امریکی حکام نے پہلی بار اس معاملے پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ

 ’’ہم انخلا کے وقت اسلحہ فورسز کے  حوالے کرکے آئے تھے‘‘

کون سی فورسز کے۔ سابق افغان حکومت کی فوج یا طالبان؟  حقیقت یہ ہے کہ ناجائز اسلحہ کا کاروبار افغان عبوری  حکومت کا کاروبار ہے۔

ہم واپس اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی دعویٰ کر رہی ہے کہ اس کے 16 سو ارکان چترال کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں ٹی ٹی پی کلاش کے علاقے میں  دور دراز کی  چند بستیوں پر قبضے کا دعویٰ بھی کر رہی ہے۔

ایک اطلاع یہ ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے دارالفتاوہ نے حال ہی میں دو مسلمان مسلکوں  کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا ہے۔ ٹی ٹی پی کے ذرائع فتوے کی تو تصدیق نہیں کرتے لیکن  جس انداز سے وہ چترال میں اپنی کارروائیوں اور موجودگی کا اظہار کر رہے ہیں ان سے لگتا ہے کہ معاملات اتنے سیدھے سادھے ہر گز نہیں جیسے دیکھائی  دے رہے ہیں ۔

کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان کے اندر وسیع تائید نہ مل سکنے پر اس فرقہ وارانہ کشیدگی کا فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی اپنا لی ہے (اس کشیدگی کو عمومی طور پر شیعہ سنی تنازع کا نام دیا جاتا ہے) یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی چترال  کے راستے بلتستان میں داخل ہونا چاہتی ہے جہاں پچھلے ڈیڑھ ہفتے سے کالعدم سپاہ صحابہ کے ہم خیال اور شیعہ مسلمان ایک دوسرے کے خلاف میدان لگائے ہوئے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے اس دعوے پر کہ اس کے 16سو جنگجو چترال میں داخل ہوئے اور کلاش کی متعدد بستیوں پر ہمارا قبضہ ہے کو بطور خاص دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چترال شیعہ اسماعیلی مسلک کے مسلمانوں کی  اکثریت کا علاقہ ہے۔ کیا شیعہ جعفری و شیعہ اسماعیلیوں کی اکثریتی آبادی والے وہ علاقے جو سی پیک روٹ کے ساتھ پاک چین تعلقات میں خصوصی اہمیت رکھتے ہیں سی پیک منصوبے پر دوبارہ سے سرگرمیاں شروع ہونے کے بعد فرقہ وارانہ اختلافات کو بھڑکا کر  ’’میدان لگوانے‘‘ اور اب ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کا چترال میں داخل ہونے کا دعویٰ کسی عالمی سازش کا حصہ ہے؟

 ایسا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ امریکی کیمپ کی طرف سے کوشش  ہوسکتی ہے۔

 افغان عبوری حکومت والے طالبان اس وقت خود کو سیاسی و سفارتی طور پر چینی کیمپ کا حصہ بتا جتلا رہے ہیں۔ اگر یہ تاثر حقیقت ہے تو پھر اس طویل پٹی میں جو پاک چین تعلقات میں خصوصی اہمیت رکھتی ہے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو داخل ہونے کے لئے معاونت فراہم کرکے افغان عبوری حکومت کی بارڈر مینجمنٹ کس کا کھیل کھیل رہی ہے۔

یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیا واقعی ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی منزل گلگت بلتستان  ہے اور  وہ افغان سرحد سے براستہ چترال بلتستان  تک اپنے جنگجوؤں کے لئے نقل و حمل کا مربوط نظام بنا رہے ہیں؟

کالعدم ٹی ٹی پی دعویٰ کر رہی ہے کہ اس کے 16 سو ارکان چترال کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں ٹی ٹی پی کلاش کے علاقے میں  دور دراز کی  چند بستیوں پر قبضے کا دعویٰ بھی کر رہی ہے۔

یہ وہ سوالات ہیں جن پر نہ صرف بات ہونی چاہیے بلکہ حکومت بھی عوام کو درست صورت حال کے حوالے سے اعتماد میں لے۔ اڑھائی ہزار مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے والے چترال کے دوردراز کے علاقوں میں بالخصوص افغان حدود سے ملحقہ علاقوں میں کم آبادی والی بستیاں اگر دہشت گردوں کی مہم جوئی سے متاثر ہوئیں تو انہیں ان علاقوں میں محفوظ ٹھکانے قائم کرنے کا موقع ملے گا۔

کہا جا رہا ہے کہ حالیہ سرگرمیوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کالعدم لشکر جھنگوی اور کالعدم جند اللہ کے دہشت گرد مشترکہ حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔

 یہ اگر درست اطلاع ہے تو پھر اسے گلگت بلتسان سے ملحقہ چیلاس و کوہستان کے علاقوں میں ایک کالعدم تنظیم کے حالیہ اجتماعات اور سرگرمیوں سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔

 گو آئی ایس پی آر نے صورت حال  کنٹرول میں ہے کی بات کی ہے لیکن دوسری طرف کالعدم تنظیموں کے دعوے بھی ہیں انہیں بھی یکسر نظرانداز کرنا ازبس مشکل ہے۔

ٹی ٹی پی کا 16 سو دہشت گرد چترال میں داخل ہونے کا دعویٰ صورت حال کی نزاکت اور آنے والے  دنوں میں پیدا ہوتی سنگینی  ہر دو کی نشاندہی کرتا ہے۔

ان حالات میں دہشت گردوں کے خلاف جہاں سخت گیر جوابی کارروائی کی ضرورت ہے وہیں ایسے سماجی اتحاد کی بھی جو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے عزائم کو ناکام بنانے میں مدد دے۔

مصنف کے بارے میں:

حیدر جاوید سید پاکستان کے سینئر ترین صحافی، کالم نویس اور تجزیہ نگار ہے۔ وہ گزشتہ پانچ دھائیوں سے صحافت و اخبار نویسی کے شعبے سے منسلک ہے۔ اور پاکستان کے موقر اخبارات و جرائد کے لئے کام کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چوتنیس کے قریب کتابین لکھی ہے جن میں  سچ اور یہ عشق نہیں آساں تصوف کے موضوع پر ہیں باقی کچھ سیاسی ادبی کتب ہیں اور ایک سفر نامہ ہے جبکہ خلیل جبران کے کلیات کو مرتب  کر چکے ہیں۔ آج کل وہ اپنی سوانح عمری لکھنے میں مصروف ہے جبکہ روزنامہ مشرق پشاور اور بدلتا زمانہ کے لئے کالم اور ایڈیٹوریل لکھتے ہیں۔ آپ پاکستان کا واحد صحافی ہے جسے جنرل ضیا کے دور میں بغاوت کے مقدمے میں سپیشل ملٹری کورٹ نے تین سال قید کی سزا دی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں