دریائے پنجکوڑہ کا پانچ ندیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے یہاں آباد پانچ مشہور دشوا گاوری قبائل کے وجہ سے پنجکور کہا جاتا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پشتونائز ہوا یوں پنجکور سے پنجکوڑہ بن گیا۔
تحریر: گمنام کوہستانی
کوہستان دیر کے مشہور سیاحتی مقام کمراٹ ویلی میں دریائے پنجکوڑہ کے کنارے ہزاروں سال پہلے لکھی گئی کتاب رگوید کے گمنام مصنفین کے ساتھ گپ شپ۔
یاد رہے بعض محققین کے بقول رگوید کا ایک حصہ اسی دریائے پنجکوڑہ کے کنارے لکھا گیا تھا۔ نہیں معلوم یہ بات کتنی درست ہے البتہ رگوید سمیت قدیم ہند کے دوسرے تمام کتابوں میں دریائے پنجکوڑہ کو گوری اور یہاں آباد اس خطے کے سب سے قدیم داردی قبائل کو گورائے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ دریائے پنجکوڑہ کو گورائے قبائل کے وجہ سے گوری کہا گیا ہے یا ان داردی قبائل کو دریائے گوری کے وجہ سے گورائے کہا گیا ہے البتہ یہ بات صد فیصد درست ہے کہ گورائے اس دریا کے کنارے آباد سب سے قدیمی داردی لوگ ہیں جنہوں نے بعد میں بھی اس دریا اور علاقے کو اپنا نام پنجکور یعنی پانچ داداؤں کا مسکن کا نام دیا جو آج تک مستعمل ہے ۔
پنجکوڑ یعنی رام، راج، امان، مامت اور جے دادا کا مسکن۔ کور، یور اور ور وغیرہ ہمارے ہاں قبائلی ناموں کے آخر میں آتا ہے جیسے ایازور، جونور، کھیدیور، جنگی رور، میرور، پھلیکور وغیرہ۔
ان پانچ گاؤری بزرگوں کی نسل اس وقت کے تمام گاؤری قبائل میں سب سے طاقت ور اور اثر و رسوخ والے لوگ تھے جنہیں دش خیل تالاش زیریں دیر سے یہاں آنے کے نسبت سے دشوا بھی کہا جاتا تھا جو پہلے پہل گاؤری زبان کا ایک لہجہ دشوا بولتے تھے لیکن بعد میں گاؤری اور پشتو کے وجہ سے دشوا لہجہ مٹ گئی۔
دریائے پنجکوڑہ کا پانچ ندیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے یہاں آباد پانچ مشہور دشوا گاوری قبائل کے وجہ سے پنجکور کہا جاتا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پشتونائز ہوا یوں پنجکور سے پنجکوڑہ بن گیا۔
دریائے پنجکوڑہ کی طرح بعد میں ان علاقوں اور قبائل کے نام بھی مسلمان کئے گئے یوں آج راجکوٹ کو پاتراک، راجنور کو راجکوڑ، رامنور کو رامکوڑ، امانکور کو امانکوڑ، مامتکور کو مامتکوڑ اور جے کور کو جیکوڑ کہا جاتا ہے۔
آج بھی ان پانچ بزرگوں کی نسل اسی دریا کے اطراف کے علاقوں پاتراک یا راجکوٹ سے دیر خاص کے قریبی علاقے آیاگے ( حیاگے) تک پھیلی ہوئی ہیں۔ کالام میں آباد اکھار خیل انہیں پانچ بزرگوں کی نسل سے ہیں جو بہت بعد میں پنجکوڑہ سے اٹھ کر کھیس دادا کی طرح سوات میں آباد ہوگئے۔
راجنور قبائل کے کچھ لوگ بعد میں یہاں سے اٹھ کر دمیڑ چترال میں بھی آباد ہوئے جہاں انہیں آج راذنور کہا جاتا ہے اور آج بھی وہاں آباد ہے۔
ہمارے دامیا باشا بولنے والے دوست چاہے کتنا ہی انکار کیوں نہ کرے لیکن ان سمیت بالائی سوات و دیر میں آباد گاؤری، کونڑ کے گوار بیتی، اباسین وادیوں کے گوار، گور اور گبری وغیرہ سب قدیم گورائے قبائل کے بچے کچھے لوگ ہیں جنہیں مختلف حملہ آوروں نے گیارہویں صدی عیسوی سے سترویں، اٹھارویں صدی عیسوی کے دوران زیریں دیر و سوات سمیت باجوڑ کے میدانوں سے شمالی پہاڑی دروں کے طرف دھکیلا۔
اگرچہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان قبائل کی زبان ایک دوسرے سے مختلف ہوئی لیکن اوپر مذکور ان تمام داردی قبائل کے نام، مقامی تاریخ اور لوک کہانیاں اس بات کی گواہ ہے کہ یہ سب قدیم گورائے قبائل کے لوگ اور زیریں دیر، سوات و باجوڑ ان کا قدیم جنم بھومی ہیں۔