Baam-e-Jahan

سرکاری سکول : عروج سے زوال کا سفر


ملکی آبادی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی سرکاری سکولوں کے ہمرا ہ ملک کو درپیش ناخواندگی کے چیلنج کاسامنا کریں لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب حکومتوں نے نہ صرف سرکاری سکولوں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا بلکہ اپنے طرزِ عمل سے یہ تاثر دیا  کہ معیاری تعلیم صرف پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں کئی ایسی سکیموں کا اعلان کیا گیا جن کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر اور مختلف این جی اوز کو سرکاری سکولوں کو گود لینے (adopt) کا کہا گیا۔

تحریر: شاہد صدیقی


ابتدائی تعلیم کی فراہمی کسی بھی ریاست کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ پاکستان میں آرٹیکل -A-25  آئین کاحصہ بنا دیا گیا ہے‘ جس میں بچوں کی تعلیم کو مفت اور لازمی قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان کے حوالے سے بچوں اور نوجوانوں کوتعلیم کی فراہمی اس لیے بھی اہم ہے کہ یہاں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ نوجوان جو کسی بھی قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں‘ وہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا  کر سکتے ہیں لیکن اس کی اہم شرط یہ ہے کہ وہ زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوں۔

 اس سلسلے میں ملک کے سرکاری سکول بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ سکول کاروبار کے ماڈل کوسامنے رکھ کر نہیں بنائے گئے ہیں  بلکہ ان کا اہم مقصد نوجوانوں کو تعلیم کی فراہمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سرکاری سکولوں میں کوئی فیس نہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں تقریبا سارے سکول سرکارکے تھے۔ ان سکولوں کی وسیع و عریض عمارات تھیں جہاں کشادہ میدان ہوتے تھے اور کھیلوں پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ اسی طرح ہم نصابی سرگرمیوں کا خاص طور پر اہتمام کیا جاتا تھا  جن میں تقاریر‘مباحثے‘ بیت بازی‘ مشاعرے‘ مضمون نویسی کے مقابلے ہوتے تھے۔ سکولوں میں معائنے (Inspection) کا ایک مؤثر نظام موجود تھا۔ سکولوں کی فیس معمولی ہوتی۔ ان سکولوں کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں امیروں اور غریبوں کے بچے ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ سکولوں میں اکیڈیمک ڈسپلن ہوتا تھا۔ اُس زمانے کے ہیڈماسٹر دورو نزدیک سے جانے جاتے تھے۔ اس زمانے میں اِکا دُکا پرائیویٹ ادارے تھے جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی۔

پیپلزپارٹی کے دور میں جب تمام اداروں کو نیشنلائز کیا گیا تو اس میں دوطرح کی قباحتیں سامنے آئیں‘ ایک طرف تومعروف پرائیویٹ ادارے اپنی درخشندہ روایات سے محروم کر دئیے گئے ‘دوسری طرف غیر معیاری تعلیمی اداروں کوقانونی تحفظ مل گیا۔ اس سے اگلے دور میں جنرل ضیا الحق نے تمام انگلش میڈیم اداروں کو اردو میڈیم میں بدلنے کااعلان کیا‘ لیکن یہ اقدام بغیر کسی تیاری کے کیا گیا تھا اس لیے جلد ہی اس کے غیر حقیقی ہونے کا احساس ہو گیا۔

2011ء میں ہزاروں سرکاری سکولوں کو انتظامی تنظیم کے تحت ملک کے مختلف صوبوں میں بند کر دیا گیا۔ادھر تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جبکہ 42 فیصد آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ تعداد ہمارے لیے غیر متوقع اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان میں تعلیم کبھی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔ عالمی دنیا کی معاشی اور معاشرتی ترقی میں تعلیم کے بنیادی کردار اور اس کی اہمیت کوسمجھنے کے باوجود ہم پاکستان میں تعلیم کی بہتری کے لیے انتظامی حوالے سے کوئی قابلِ قدر سنجیدہ کوششیں نہیں کرسکے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ضیا الحق جو پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں کے خلاف تھے‘ انہی کے دور میں پرائیویٹ سکولوں کاقیام تیزی سے عمل میں آنا شروع ہوا اور مشرف کے دور میں پرائیویٹ سکولوں کو واضح طور پر حکومتی آشیرباد حاصل ہوگئی۔

میں یہاں اس امر کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ملکی آبادی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی سرکاری سکولوں کے ہمرا ہ ملک کو درپیش ناخواندگی کے چیلنج کاسامنا کریں لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب حکومتوں نے نہ صرف سرکاری سکولوں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا بلکہ اپنے طرزِ عمل سے یہ تاثر دیا  کہ معیاری تعلیم صرف پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں کئی ایسی سکیموں کا اعلان کیا گیا جن کے مطابق پرائیویٹ سیکٹر اور مختلف این جی اوز کو سرکاری سکولوں کو گود لینے (adopt) کا کہا گیا۔

2011ء میں ہزاروں سرکاری سکولوں کو انتظامی تنظیم کے تحت ملک کے مختلف صوبوں میں بند کر دیا گیا۔ادھر تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں جبکہ 42 فیصد آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ تعداد ہمارے لیے غیر متوقع اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان میں تعلیم کبھی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔ عالمی دنیا کی معاشی اور معاشرتی ترقی میں تعلیم کے بنیادی کردار اور اس کی اہمیت کوسمجھنے کے باوجود ہم پاکستان میں تعلیم کی بہتری کے لیے انتظامی حوالے سے کوئی قابلِ قدر سنجیدہ کوششیں نہیں کرسکے۔

 معاشی‘ تعلیمی ترقی کے عہد میں پاکستان میں تعلیم کے لیے مختص بجٹ 1.7 فیصد ہے جو تشویش نا ک حد تک کم ہے۔ حکومت کے سرکاری سکولوں کے خلاف اس انتہائی اقدام کی بنیادی وجوہات بہت سی تھیں تاہم گھوسٹ سکول بنائے گئے‘ جو سیاسی دباؤ کا نتیجہ تھے۔ یہ وہ سکول تھے جن میں طلبا کی تعداد بہت کم تھی اور اس کے اردگرد متعدد سکول موجود تھے۔

 یہ وجوہات اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں تاہم بعض اہم وجوہات جن کی بدولت صورت حال یہاں تک پہنچی‘کے متعلق ابھی تک بات نہیں کی گئی۔ اس کی ایک وجہ پرائیویٹ سکولوں کی استعداد کار ہے جس نے سرکاری سکولوں کی تعداد کو کم کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔  جس کے نتیجے میں متعدد سرکاری سکولوں میں طلبا کی تعداد کم ہوئی ہے اور وہ اس انتظامی تنظیم نو کا شکار ہوئے ہیں۔

 سرکاری سکول جو اپنے تعلیمی معیار کی وجہ سے جانے جاتے تھے‘ اب ویرانوں کاروپ دھار چکے ہیں۔ اس کے برعکس پرائیویٹ سکولوں میں طالب علموں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

 ایک رپورٹ کے مطابق 35.2 فیصد طلبا پرائیویٹ سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ تعلیمی پالیسی بنانے والوں اور محققین کے لیے یہ بات اہم ہے کہ وہ سرکاری سکولوں کی تنزلی سے متعلق اصل وجوہات کوسمجھیں۔ ان میں سے ایک اہم وجہ تعلیم میں نیو لبرل ازم فلسفے کا نفوذ ہے‘ جوگزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کے نظام تعلیم میں دیکھا جا سکتا ہے۔

 نیو لبرل ازم کی اہم خصوصیت آزادانہ مقابلہ‘ ریاست کی عدم مداخلت‘ زیادہ سے زیادہ منافع کاحصول اور محنت کش کا استحصال ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پرائیویٹ سکول ریاست کی مداخلت سے مبرا‘ آزاد مقابلے کی فضا میں سانس لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس طرح کی آزادی سرکاری سکولوں کے حوالے سے ناقابلِ تصور ہے۔

عالمی دنیا کے پھیلاؤ کے نتیجے میں متعدد ملٹی نیشنل اور دیگر تجارتی کمپنیوں نے پاکستان میں تجارتی مراکز کھولے ہیں۔ اس صورت حال نے انگریزی زبان کے کردار کو اچھی ملازمت کے حصول کے لیے فوقیت دی ہے۔ اس سے انگلش میڈیم سکولوں نے اتنی مقبولیت حاصل کی ہے کہ یہ پاکستان کے شہری علاقوں کے کونوں کھدروں میں پھیل گئے ہیں اور اب ان کادائرہ پاکستان کے دیہات تک پھیلتا جا رہا ہے۔

 
سرکاری سکولوں کی صورت حال‘ اساتذہ کی عدم دستیابی‘ کمرہ جماعت سے غیر حاضری اور احتساب (accountability) نہ ہونے کی وجہ سے روز بروز خراب ہوئی ہے جبکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے کاروباری مہارتوں کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر پیشکش (presentation) میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی طرح انہو ں نے انگریزی زبان کی ضرورت اور اس کی ڈیمانڈ سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ والدین انگلش میڈیم سکولوں میں ایک خاص طرح کی کشش محسوس کرتے ہیں۔ انگریزی زبان کی روانی کی مہارت کے علاوہ یہ سکول ایک طرح کا معاشرتی وقار اور رتبہ حاصل کرنے کے مواقع بھی مہیا  کرتے ہیں۔

سرکاری سکولوں کی صورت حال‘ اساتذہ کی عدم دستیابی‘ کمرہ جماعت سے غیر حاضری اور احتساب (accountability) نہ ہونے کی وجہ سے روز بروز خراب ہوئی ہے جبکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے کاروباری مہارتوں کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر پیشکش (presentation) میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی طرح انہو ں نے انگریزی زبان کی ضرورت اور اس کی ڈیمانڈ سے بھی فائدہ اٹھایا ہے۔ والدین انگلش میڈیم سکولوں میں ایک خاص طرح کی کشش محسوس کرتے ہیں۔ انگریزی زبان کی روانی کی مہارت کے علاوہ یہ سکول ایک طرح کا معاشرتی وقار اور رتبہ حاصل کرنے کے مواقع بھی مہیا  کرتے ہیں۔

اس حوالے سے ریاست کا کردار اہم ہے لیکن حکومت بجائے اس کے کہ سرکاری سکولوں کو مضبوط بنائے‘ نہ صرف ہتھیار ڈال چکی ہے بلکہ غیر سرکاری تنظیموں(NGOs) کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ وہ ان سکولوں کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھوں میں لے لیں۔ ریاست کے اس سرد رویے نے سرکاری سکولوں پر آخری وار کیا ہے۔ انتہائی قلیل فنڈنگ‘ بے توجہی اور فرسودہ انتظامی قواعد و ضوابط سرکاری سکولوں کے مسلسل زوال کاباعث بن رہی ہیں۔

 پاکستان کی تعلیمی ضروریات کوپورا کرنے کے لیے ہمارے پاس صرف پرائیویٹ سیکٹرہی واحد ذریعہ نہیں ہو سکتا کہ جو سرکاری سکولوں کا نعم البدل ہو اور وہ تعلیم دینے کے وسیع پیمانے اور اس کے اعلیٰ معیار کے چیلنجوں کوپورا  کر سکے؛  اگر ہم تعلیم کے میدان میں بہتری کے خواہاں ہیں تو حکومتی سطح پر سرکاری سکولوں کی سر پرستی کرنا ہو گی۔ ان کا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنا ہو گا اور انہیں ایسی فضا مہیا کرنی ہو گی جہاں ان کی اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں بیدار ہوسکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں