Baam-e-Jahan

اپر چترال میں قوت گویائی اور سماعت سے محروم خاتون کا ریپ


دس ماہ بعد پولیس نے اس ریپ کے مرکزی ملزم کو کس طرح گرفتار کیا؟

عزیز اللہ خان

خیبرپختونخوا کے ضلع اپر چترال میں پولیس کا امتحان اس وقت شروع ہوا جب انھیں شکایت موصول ہوئی کہ ایک خاتون کا ریپ کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں خاتون نے ایک بچی کو جنم دیا ہے۔

خیبرپختونخوا پولیس کے لیے یہ کیس مشکل اس لیے تھا کیونکہ متاثرہ خاتون قوتِ گویائی اور سماعت سے محروم تھیں اور ضلع چترال کے پولیس افسر اجمل خان کے مطابق وہ اشاروں کے ذریعے بھی یہ بتانے سے قاصر تھیں کہ ان کا ریپ کس نے کیا ہے۔

خاتون کے ساتھ ریپ کا واقعہ گزشتہ برس پیش آیا تھا لیکن اس وقت خاتون کے اہلِ خانہ نے اس حوالے سے پولیس کو آگاہ نہیں کیا تھا۔ پولیس کے پاس اس جرم کی اطلاع اس وقت پہنچی جب خاتون نے 22 اپریل کو ایک بچی کو جنم دیا۔

ایک مقامی پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ اہل خانہ یا متاثرہ خاتون کی بہن کو معلوم ہو کہ وہ حمل سے ہیں لیکن انھوں نے پولیس کو نہ بتایا ہو۔

پولیس ملزم تک کیسے پہنچی؟

متاثرہ خاتون کی عمر 38 سے 40 سال بتائی جاتی ہے اور پولیس کے پاس ان کے ساتھ ہونے والے ریپ کی اطلاع ان کی بہن کے ذریعے پہنچی۔

خاتون کی بہن نے پولیس کو بتایا کہ کسی نے ان کی بہن کا ریپ کیا ہے جس کے نتیجے میں ان کے ہاں ایک بچی کی پیدائش ہوئی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق خاتون نے بچی کو جنم ایک مقامی ہسپتال میں دیا ہے۔

سپرنٹڈنٹ آف پولیس انویسٹیگیشن اجمل خان نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ متاثرہ خاتون سے ان کے ساتھ ہونے والے جُرم کے حوالے سے معلومات لینے کی کوشش کی گئی لیکن وہ کسی بھی قسم کی معلومات دینے سے قاصر نظر آئیں۔

اجمل خان کا کہنا تھا کہ خاتون کی بہن سے ابتدائی معلومات حاصل کیں اور ان سے پوچھا گیا کہ ان کے گھر کن افراد کا آنا جانا تھا۔

متاثرہ خاتون کی بہن نے پولیس کو دو افراد کے بارے میں بتایا، جس کے بعد اس واقعے کی تحقیقات پڑوس سے ہی شروع کی گئی۔

اپر چترال کے سینیئر پولیس اہلکار کے مطابق ابتدائی طور پر خاتون کی نومولود بچی کے ڈی این اے کا نمونہ لیا گیا اور جن دو افراد پر ابتدائی طور پر شک ظاہر کیا گیا تھا ان کے ڈی این  اے سے میچ کیا گیا لیکن ان دونوں افراد اور بچی کا ڈی این اے میچ نہ ہوسکا۔

پولیس نے تفتیش کے دائرے کو بڑھایا اور محلے کے مزید افراد کو ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے طلب کیا۔

اجمل خان کہتے ہیں کہ ان افراد میں سے ایک 21 سے 22 سال کے نوجوان کا ڈی این اے اس بچی کے ساتھ میچ کر گیا، جسے پولیس نے گرفتار کر لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزم سے پوچھ گچھ کی گئی اور گزشتہ روز عدالت میں پیش کیا گیا۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ اپر چترال میں تھانہ اویر کے حدود میں پیش آیا تھا۔

ملزم کی گرفتاری کتنی مشکل تھی؟

چترال پولیس کے جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تفتیش کے دوران کئی مشتبہ افراد کو یکے بعد دیگرے ڈی این اے ٹیسٹ کے مراحل سے گزارا گیا۔

اپر چترال کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عتیق شاہ کے مطابق یہ کوئی آسان کیس نہیں تھا کیونکہ جرم ایک سال پہلے ہوا تھا اور ملزم کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے، کون ہے اور اس کا متاثرہ خاتون سے کیا تعلق ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پولیس نے ابتدائی طور پر پوچھ گچھ کے دوران مشکوک افراد کی فہرست تیار کی اور پھر ان کے ڈی این اے کے نمونے حاصل کیے۔

مقامی لوگ کہتے ہیں کہ 20 اپریل کو متاثرہ خاتون بچی کو جنم دینے کے بعد زور زور سے رونے لگ گئی تھیں اور شاید ان کا دُکھ دیکھ کر ہی اہل خانہ میں پولیس کے پاس جانے کی ہمت آئی۔

متاثرہ خاتون کے والدین انتقال کر چکے ہیں اور وہ اپنی ایک بہن اور بھائی کے ساتھ رہتی ہیں۔

اس گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک سابق ناظم فخر الدین نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’یہ گھرانہ انتہائی غریب ہے، بھائی محنت مزدوری کرتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مقامی عمائدین کی کوشش ہے کہ اس معاملے کا حل نکالا جائے۔

پولیس کے مطابق ملزم کو گزشتہ روز عدالت میں پیش کر کے ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے۔

ڈی این اے کیا ہوتا ہے؟

ڈی این اے میں موجود جینیٹک کوڈ کے تقابلی جائزے سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ دو مختلف انسانوں یا جسموں کے درمیان کس قسم کا تعلق یا خونی رشتہ ہے۔

ڈی این اے چونکہ کیمیائی مرکبات پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے لیبارٹری میں اس کے نمونوں کو کیمیائی طریقوں سے ٹیسٹ کر کے کسی ملزم کو شناخت کیا جا سکتا ہے۔

اس عمل کو ڈی این اے فنگر پرنٹنگ کہا جاتا ہے۔

اس کا پہلا مرحلہ تو یہ ہوتا ہے کہ ملزم کے جسم کے کسی بھی حصے سے ڈی این اے کا نمونہ لیا جائے۔ یہ نمونہ اس کے بالوں، تھوک، جنسی رطوبت، خون یا جلد کے کسی ٹکڑے سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

یہ عمل انتہائی احتیاط سے کیا جاتا ہے تاکہ ڈی این اے کا نمونہ آلودہ نہ ہو سکے۔ اگر نمونہ حاصل کرنے والے اہلکار کو چھینک بھی آ جائے تو اس کا ڈی این اے ملزم کے ڈی این اے کے نمونے میں شامل ہو سکتا ہے۔

ماضی میں بھی ڈی این اے کی مدد سے پاکستان میں پولیس متعدد ریپ کے مقدمات کو حل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں جنوری 2017 میں زینب نامی ایک کمسن بچی کو زیادتی کرنے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔

اس کیس میں بھی پولیس نے محلے میں ہی مقیم عمران نامی ملزم کو ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ہی شناخت اور گرفتار کیا تھا۔

اسی طرح سال 2020 میں لاہور موٹر وے پر گـجر پورہ کے قریب ایک خاتون کے ریپ کا واقعہ پیش آیا تھا اور اس کیس میں بھی ملزمان کی گرفتاری ڈی این اے پروفائل میچ کرنے کے بعد ہی عمل میں آئی تھی۔

بشکریہ: بی بی سی اردو

اپنا تبصرہ بھیجیں