Baam-e-Jahan

عوامی ورکرز پارٹی ہنزہ کا بجلی گھروں کی نجکاری کی مخالفت

ہنزہ میں بجلی کا بحران




رپورٹ: حکیمہ خوشحال


ہنزہ میں ترقی کے نام پر بے ہنگم سیاحت ،غیر منضبط تجارتی سرگرمیوں اور غیر منصوبہ بند تعمیرات کی وجہ سے فطری وساٗیل  پر دباؤ، ماحولیاتی  و سماجی مسائل  اور توانایی کے بحران میں  تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لیے ہر آنے والی حکومت اور ہنزہ سے منتخب نماءیندوں نے بلند بانگ دعوے اور وعدے کیےٗ لیکن ان پر خاطر خواء  ٹھوس اقدامات نہیں اٹھا ےٗ گٗیے بلکہ اپنی ذمے داریوں سے جان چھڑانے کے  لیےٗ عوام کے صحت، تعلیم، اور تواناییٗ  جیسے  بنیادی حقوق  کو نہ صرف پس پشت ڈال دیا بلکہ اسے  نجی شعبے کے منافع کور افراد اور اداروں کے رحم و کرم پر چھو ڑ دیا بلکہ عوام کے فطری وسایل اور زمینوں کو بھی ان کے حوالے کیا  جا رہا ہے  ۔

ذرایعٗ کے مطابق پانچ سال قبل  گلگت بلتستان کی  عبوری حکومت نے  ایک خفیہ معاہدے کے تحت ہنزہ میں موجود پبلک سیکٹر میں بناےٗ گیے چار بجلی گھروں  اور دیگر پوٹینشل بجلی کے سایٹس کو ایک پراییٗویٹ کمپنی کے حوالے کیا جا رہا ہے جس سے  سیاسی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گیٗ ہے۔

 ان  مسایل  سے عوام  میں آگاہی پھیلانے اور  حکومتی اداروں   کو آگاہ کرنے کے لیےٗ عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان  ہنزہ  کے رہنماوں نے گزشتہ دنوں ہنزہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس  منعقد کی، جس میں انہوں نے علاقے کی قدرتی وسائل  اور عوامی حقوق کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔

پریس کانفرنس سے عوامی ورکرز پارٹی کے مرکزی صدر بابا جان، سینءر رہنماء اخون باےٗ، کوآردینیٹر اکرام جمال، اور ترجمان ظہور الہی نے خطاب کیا۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوےٗ اخون باےٗ نے کہا کہ’ عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان ہنزہ کی قیادت  ضلع میں چار  بجلی  گھروں اور مستقبل میں بجلی کے منصوبوں اور تمام اآبی وسایل کو ایک نجی کمپنی کے حوالے کرنے کے فیصلے پر شدید تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس اقدام سے ہنزہ کے لوگوں کو اپنے قدرتی آبی وسائل، روزگار اور زمینوں سے محروم ہونے کا خطرہ ہے، جو انہیں   منافع خور کارپوریٹ سرمایہ داری کے غلام بنا سکتا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ مبینہ طور پر  ایک متنازعہ اور خفیہ معاہدے کے تحت 14 اگست کو ہنزہ میں چار سرکاری شعبے کے پاور پلانٹس (مایون، حسن آباد، خیبر اور مسگر) کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام پر انڈسٹریل پروموشن سروسز کےحوالے کیا جا رہا ہے ۔

 اس معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوےٗ انہوں نے کہا کہ   ۲۰۱۹ میں اُس وقت کے نگران وزیر اعلیٰ میر افضل اور چند بیوروکریٹس  نے پرا ییویٹ کمپنی ‘انڈسٹریل پروموشن سروسز ‘کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت  ہنزہ دریا اور اس کے کنارے  20 کلومیٹر سے زیادہ رقبے، مشترکہ  زمینوں اور آبی وسائل پر تعمیر کیے گئے منصوبوں اور مشینری کو بغیر کسی معاوضے کے   اس کمپنی کے حوالے کرنے اور   دریا ےہنزہ پر   مکمل کنٹرول دینے کا معاملہ انتہائی تشویش کا باعث ہے۔

انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان حکومت کا ہنزہ میں محکمہ برقیات کو ایک ملٹی نیشنل اجارہ داری کے حوالے کرنا، خطے میں اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہونا، 300 ملازمین کو بے روزگار اور ان سے وابستہ  ہزاروں خاندانوں کی معاشی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا ایک مجرمانہ  اقدام ہے جسے فوری طور پر منسوخ کیا جانا چاہیے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، کیونکہ ہنزہ ایک متنازعہ غیر بندوبستی  ضلع ہے ۔  مقامی آبادی، جو بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق زمین اور آبی وسائل کے  مالک ہیں،  سے نہ تو مشورہ کیا گیا اور نہ ہی ان کی رضا مندی حاصل کی گئی۔  مزید برآں ، علاقے کے منتخب نمائندوں  اور سیاسی قیادت کو بھی اس عمل سے باہر رکھا گیا۔

 انہوں نے خبردار کیا کہ ترقی اور بنیادی خدمات کی فراہمی کے نام  پر اس طرح کے غیر شفاف سودے بازی ، چند سالوں میں ہنزہ کے وسائل کو ملٹی نیشنل اجارہ دار کمپنیوں  کے  ہاتھوں میں دینے سے  ہنزہ کا مستقبل ان کے رحم و کرم پر ہو جائے گا۔

بحران کے بنیادی اسباب

تواناییٗ کے موجودہ بحران  کی وجوہات بیان کرتے ہوےٗ انہوں نے محکمہ برقیات کے بدعنوان افسران کی غفلت، اقرباء پروری  ،نا اہلی ،  اور سیاحت سے منسلک غیر منصوبہ بند تعمیرات اور  ماحولیات کی حساسیت سے عاری لاکھوں  سیاحوں کی بلا روک ٹوک اس وادی میں آمد  کو ٹہرایا     جن کی وجہ سے یہاں کے بجلی و پانی    کے وسایل اور  روڈ انفراسٹرکچر پر  شدید دباؤ ہے ۔عوام کو اس وقت صرف۲ گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ ان مسایل پر قابو پانے اور منضبط کیےٗ  بغیر ، ہنزہ کی بجلی کی ضروریات کبھی پوری نہیں ہو سکیں گی۔

بجلی کے بحران اور ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے اقدامات

اپنے پارٹی کی جانب سے متبادل حل بیان کرتے ہوےٗ اخون باےٗ نے کہا کہ ہنزہ میں بجلی کے بحران پر قابو پانے اور بجلی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے   لیے قابل عمل متبادل موجود ہیں  جن پر عمل کرنے سے  اس بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔  انہوں نے مرکزی ہنزہ میں موجود بڑے ہوٹلوں کو پانی اور سرکاری بجلی کی فراہمی کی بندش، توانائی کے متوازن استعمال، اور مقامی کاروبار کے فروغ کے لیے  اقدامات تجویز کیے ۔

  انہوں نے  حکومت گلگت بلتستان سے مطالبہ کیا کہ وہ توانائی کے  استعمال  کے لیے قوانین اور ضابطے  اور  لوڈ مینجمنٹ پلان نافذ کرے۔اس  منصوبہ کے تحت  گھریلو صارفین کو روزانہ کم از کم 8 گھنٹے بجلی فراہم کی جانی چاہیے؛

          سینٹرل ہنزہ کے تمام ہوٹلوں، جن میں ۱۰   کمروں سے زیادہ  ہوٹل یا گیسٹ ہاوس شامل  ہیں، کو تین ماہ کے اندر سولر پینل نصب کرنے چاہیے تاکہ وہ اپنی بجلی پیدا کر سکیں۔

          انہوں نے حکومت گلگت بلتستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ہوٹلوں میں ایئر کنڈیشننگ کا نظام اور غیر ضروری آؤٹ ڈورلایٗٹنگ پر فوری پابندی عائد کرے تاکہ ہنزہ کے ماحول کے لیے اہم مقامی پرندے اور حشرات کی بقا کو یقینی بنایا جا سکے؛ سیاسی جماعتوں، عوامی نمائندوں، انتظامیہ اور ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دے جو ہنزہ میں بجلی پیدا کرنے اور طلب کے انتظام کے لیے ہنگامی، درمیانی اور طویل مدتی منصوبے تیار کرے۔

عوامی ورکرز پارٹی کے رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ حکومت ہمسایہ ملک چین سے بجلی کی ترسیل کا بندوبست کرے، اور ان سے اپیل  کریں کہ  وہ  ہنگامی بنیادوں پر ہر گاوں میں دریا پر چھوٹے چھوٹے پن بجلی گھر تعمیر کرنے میں مدد دیں۔

انہوں نے حسن آباد، خیبر، مسگر اور مایوں کے عوام سے  اپیل کیں کہ وہ اپنے آبی وسایل، زمینوں اور بجلی کے منصوبوں اور ملازمتوں کو بچانے کے لیےٗ اٹھ کھڑے ہوں اور ان پر قبضہ کے منصوبوں کو ناکام بنادیں۔ ورنہ پورے خطے کے آبی وسایل سمیت تمام وسایل پرعالمی اجارہ دار سرمایہ داروں کا قبضہ ہوگا اور ہماری  آنے والی نسلیں  اپنی زمینوں، وسایل سے محروم جدید نوآبادیاتی غلامی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔

کامریڈ بابا جان  نے اپنی میڈیا ٹاک میں کہا کہ ہنزہ کے قدرتی وسائل اور عوامی اثاثوں کو بین الاقوامی اجارہ دار کمپنی  کے حوالے کرنا ہمیں کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ مقامی آبادی کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے۔ حکومت کا یہ اقدام ہمیں اپنے آبی وسائل اور زمینوں سے محروم کر کے ہمیں غلام بنانے کی سازش ہے۔ ہم اس معاہدے کی فوری منسوخی کا مطالبہ کرتے ہیں، ورنہ عوامی ورکرز پارٹی دیگر عوامی اور وطن دوست قوتوں کے ساتھ مل کر احتجاجی تحریک چلائے گی ۔

محکمہ پانی و بجلی  کا موقوف

محکمہ پانی و بجلی گلگت بلتستان  سے اس سلسلے میں موقوف جاننے کے لیے  رابطہ  کرنے پر  ایک  اہلکار   کا یہ کہنا تھا  کہ ‘یہ معاہدہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ہنزہ کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ ‘

انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد علاقے میں بجلی کی فراہمی کو بہتر بنانا ہے، اور اس معاہدے سے عوام کو طویل مدتی فوائد حاصل ہوں گے۔

تاہم،  انہوں نے واضح کیا کہ ‘عوام کی تشویش کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اس معاہدے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ عوام کے مفادات کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

 سوشل میڈیا پر رد عمل

سوشل میڈیا صارفین  نے اس  معاہدہے کو علاقے کی ترقی اور توانائی کی فراہمی کے لیے ضروری  قرار دیا ۔

انہوں نے  کہا کہ  اس معاہدے کے خلاف احتجاجی مہم چلانا صرف سیاسی فائدے  کا حصول ہے۔

 ایک صارف نے  الزام لگایا کہ  عوامی ورکرز پارٹی ہمیشہ ترقیاتی منصوبوں کی مخالفت کرتی آئی ہے۔

ماحولیاتی  و سماجی کارکن  صفی اللہ بیگ نےگلگت بلتستان عوامی ورکرز پارٹی کا ہنزہ میں عوام پر اعصاب شکن بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور محکمہ برقیات کی خفیہ نج کاری کے خلاف پریس کانفرنس پر دلایل، معلومات اور شواهد کی بنیادی پر گفتگو اور تنقید کرنے اور عوام اور ماحول دوست مطالبات کو چیلنج کرنے کی بجاے ٹرولز پارٹی  پر حملہ آور ہوگٗیے ہیں۔

 ان کا کہنا ہے  کہ بجلی جیسی پیچیدہ بنیادی انسانی ضرورت کے مختلف پہلو، یعنی پیداوار، ترسیل، تقسیم ، طلب، استعمال، ٹیرف اور مرمت پر لوگ گفتگو نہیں کرتے ہیں ۔مثلا ہنزہ میں ایک چھوٹا سا گروہ کاروبار سے منسلک ہے جو بجلی سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے۔ بجلی کی عدم فراہمی میں یہ گروہ ڈیزل جنریٹر سے 84 روپے فی یونٹ بجلی بنا کر اپنا کاروبار چلاتا ہے۔ جبکہ 90 فیصدی عوام کو دن میں زیادہ سے زیادہ  ۸  گھنٹے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ اسوقت عوام کو مشکل سے دو گھنٹے کی بجلی میسر ہے۔

گلگت بلتستان کے سیاسی کارکنوں کو ہنزہ میں محکمہ برقیات کی نج کاری کو  مذہبی، علاقای اور فوری طبقاتی مفادات کے نقطہ نظر سے دیکھنے کے بجاے اس کے عام عوام پر اثرات، اجارہ داری کے معاشی و سماجی مضمیرات اور آنے والے نسلوں کے مفادات کو مد نظر رکھ کر اس پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ اخلاقی اعتبار سے ہم میں سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ ہم مستقبل کے نسلوں کے حقوق کا آج سودا کریں۔




جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے