Baam-e-Jahan

قادر خان: کابل سے شروع ہونے والا سفر کینیڈا میں اختتام پذیر ہوا


قادر خان ایک عظیم اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ 81 فلموں کے مکالموں اور سکرپٹ کے مصنف بھی تھے۔

ان کی صحت پچھلے کچھ دنوں سے خراب تھی اور سوشل میڈیا پر ان کی موت کی افواہ کئی بار اڑی۔

اداکار امیتابھ بچن اور روینہ ٹنڈن نے پہلے ٹویٹ کر کے ان کی بہتر صحت کے لیے دعا کی تھی۔

80 اور 90 کی دہائیوں میں قادر خان گوندا اور انیل کپور کے ساتھ کئی فلموں میں دکھنے والے ادکار رہے۔

سال 1973 میں راجیش کھنہ کی فلم ‘داغ’ سے بالی وڈ میں قدم رکھنے والے قادر خان نے 300 سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔

قبرستان سے اداکاری کا سفر
وہ رات کا وقت ہوتا، ممبئی میں گھر کے پاس کے یہودی قبرستان میں ہر طرف اندھیرا اور سناٹا۔ اور ایک بچہ وہاں بیٹھ کر ڈائیلاگ ادا کرنے کا ریاض کرتا رہتا۔۔۔

ایک رات یوں ریاض جاری تھا کہ ایک ٹارچ لائٹ کی روشنی ہوئی اور کسی نے پوچھا قبرستان میں کیا کر رہے ہو؟

بچہ بولا میں دن میں جو بھی اچھا پڑھتا ہوں رات میں یہاں آکر بولتا ہوں اور ریاض کرتا ہوں۔ اشرف خان نام کے وہ شخص فلموں میں کام کرتے تھے۔ انھوں نے پوچھا ناٹک میں کام کرو گے؟
وہ بچہ تھا قادر خان اور وہاں سے شروع ہوا ان کا وہ سفر جو دہائیوں تک فلموں میں جاری رہا۔

جب قادر خان نے بعد میں سنہ 1977 میں ‘مقدر کا سکندر’ لکھی تو اس میں ایک اہم سین ہے جہاں بچپن میں امیتابھ بچن رات کو قبرستان میں ماں کے مرنے پر رو رہے تھے۔

وہاں سے گزرنے والا ایک فقیر (قادر خان) اس بچے سے کہتا ہے کہ ‘اس قفیر کی ایک بات یاد رکھنا۔ زندگی کا صحیح لطف اٹھانا ہے تو موت سے کھیلو، سُکھ تو بے وفا ہے چند دنوں کے لیے آتا ہے اور چلا جاتا ہے دُکھ تو اپنا ساتھی ہے، اپنے ساتھ رہتا ہے، پونچھ دے آنسو۔ دکھ کو اپنا لے۔ تقدیر تیرے قدموں میں ہوگی اور تو مقدر کا بادشاہ ہوگا۔۔۔’

یہ سین قادر خان نے اپنے گھر کے پاس والے قبرستان سے لیا تھا۔
ڈائیلاگ کنگ قادر خان
قادر خان نے 70 کی دہائی سے ڈائیلاگ لکھنے سے لے کر فلموں میں اداکاری تک خوب نام کمایا۔

خون پسینہ، لاوارث، پرورش، امر اکبر انتھونی، نصیب، قلی۔۔۔ ان فلموں کا سپکرپٹ یا مکالمے لکھنے والے قادر خان نے امیتابھ بچن کے کیریئر کو سنوارنے میں بڑا کردار نبھایا۔

تاہم ان کی شروع کی زندگی کافی تکالیف سے بھری رہی۔ کئی انٹرویو میں قادر خان بتا چکے ہیں کہ افغانستان میں ان کے جنم سے پہلے ان کے تین بھائیوں کی موت ہو چکی تھی جس کے بعد ان کے ماں باپ نے افغستان چھوڑ کر انڈیا آنے کا فیصلہ کیا۔

جلد ہی ماں باپ کی طلاق ہوگئی اور سوتیلے باپ کے ساتھ بچپن بہت غریبی میں گزرا۔ اس کے باوجود انھوں نے سول انجیئرنگ کا ڈپلومہ کیا اور ممبئی کے کالج میں پڑھانے لگے۔

کالج میں ایک بار ناٹک یعنی تھیٹر مقابلہ تھا جہاں نریندر بیدی اور کامنی کوشل جج تھے۔ قادر خان کو بہترین اداکار و مصنف کا انعام ملا اور ساتھ ہی ایک فلم کے لیے مکالمے لکھنے کا موقع بھی ملا۔ اس کی معاوضہ 1500 روپے تھا۔

فلم 1972 میں ریلیز ہونے والی ‘جوانی دیوانی’ تھی جو ہٹ ہوگئی اور ‘رفوچکر’ جیسی فلمیں انھیں ملنے لگیں۔
من موہن دیسائی نے سونے کی بریسلیٹ اتار کر دی
لیکن قادر خان کی زندگی میں بڑا موڑ تب آیا جب سنہ 1974 میں من مومن دیسائی اور راجیش کھنہ کے ساتھ فلم ‘روٹی’ میں کام کرنے کا موقع ملا۔

من موہن دیسائی کو قادر خان پر خاص بھروسہ نہیں تھا۔ من موہن دیسائی اکثر کہتے تھے کہ ‘تم لوگ شاعری تو اچھی کر لیتے ہو پر تمھیں چاہییں ایسے ڈائیلاگ جس پر عوام تالی بجائے۔’

پھر کیا تھا، قادر خان مکالمے لکھتے گئے اور من موہن دیسائی کو قادر خان کے ڈائیلاگ اتنے پسند آئے کہ وہ گھر کے اندر گئے، اپنا توشیبا ٹی وی، 21000 روپے اور برسلیٹ قادر خان کو وہیں کے وہیں تحفے میں دے دیا۔

پہلی بار قادر خان کو ڈائیلاگ لکھنے پر ایک لاکھ سے زیادہ کی فیس ملی۔ یہاں سے شروع ہوا من موہن دیسائی، پرکاش مہتہ اور امیتابھ بچن کے ساتھ ان کا شاندار سفر۔

قادر خان کی لکھی فلموں اور ڈائیلاگ ایک کے بعد ایک ہٹ ہونے لگے۔ ‘اگنی پتھ’، ‘ستے پہ ستا’، ‘شرابی’، امیتابھ کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک مکالمہ قادر خان نے دیا۔ من موہن دیسائی نے سونے کی بریسلیٹ اتار کر دی
اداکاری کے جوہر
ساتھ ہی چل نکلا قادر خان کی اداکاری کا سفر بھی۔ سنہ 1973 میں فلم ‘داغ’ میں ایک وکیل کے معمولی سے کردار میں قادر خان دکھائے گئے تو سنہ 1977 میں پولیس انسپکٹر کے چھوٹے سے کردار میں امیتابھ بچن کے ساتھ بھی نظر آئے۔

اس کے بعد تو ‘خون پسینہ’، ‘شرابی’، ‘نصیب’، ‘قربانی’ جیسی فلموں کی جھڑی لگ گئی۔ ولن کے روپ میں لوگ انھیں پہنچاننے لگے۔

امیتابھ بچن سے دوستی۔۔۔
قادر خان کی ایک اور خوبی تھی۔ وہ لپ ریڈنگ کر سکتے تھے یعنی دور سے ہی بولتے لبوں کے الفاظ کو سمجھ لیتے۔

اپنے انٹرویو میں یہ قصہ سنانا وہ نہیں بھولتے کہ ’شروع شروع کے دنوں میں جب من موہن دیسائی کے گھر گیا تو دور سے دیکھ کر وہ بولے الو کے پٹھے کو سمجھ میں نہیں آیا، پھر آگیا۔ میں نے پاس جا کر کہا کہ آپ نے میرے بارے میں یہ لفظ بولے ہیں۔ میں لپ ریڈنگ کر سکتا ہوں۔ بعد میں فلم ‘نصیب’ میں انھوں نے یہ سین استعمال کیا ہے جب ہیروئین ولن کی باتیں لپ ریڈنگ سے سمجھ لیتی ہے۔

بشکریہ بی بی سی

اپنا تبصرہ بھیجیں