از منظور احمد پشتین، مترجم مہناز اختر
سال 2009 میں ایک بڑے فوجی آپریشن کی وجہ سے میں نے اپنا گھر کھو دیا۔ پاکستان آرمی نے ہمیں اپنا گاؤں چھوڑنے پر مجبور کردیا، جوجنوبی وزیرستان میں افغانستان سے ملحق وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات میں واقع ہے۔
تقریباً 37 ملین پشتون یہاں اور شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ میں آباد ہیں۔ وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقہ جات کا انظمام صوبہ خیبر پختونخواہ اور جنوب مغربی بلوچستان کے ساتھ ہوچکا ہے۔ ہمارا یہ غریب ترین خطہ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ کی وجہ سے ویران ہوچکا ہے۔
جب میں ہائی اسکول میں پڑھتا تھا، اس وقت ہم اپنے علاقے سے ہجرت کرکے سو میل دور شہر ڈیرہ اسماعیل خان آکر آباد ہوگۓ تھے۔ ہمارے باقی رشتہ داروں سمیت چھ ملین لوگ خطے سے بے گھر ہوگۓ، جب سے پاکستان نے 2001 سے دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع کی، اس دوران ہزاروں پشتون دہشتگردانہ حملوں اور ملٹری آپریشن کی وجہ سے مارے گۓ۔
لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے معاشی و سیاسی حقوق کی پامالی اور ہماری اذیتیں زیادہ تر پاکستانیوں اور دنیا سے پوشیدہ ہیں کیونکہ طالبان کے زوال کے بعد زیادہ تر عسکریت پسند اسی خطے میں آکر آباد ہوگۓ تھے اس وجہ سے اسے ایک خطرناک سرحدی علاقے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
جب عسکریت پسند مقامیوں کو خوفزدہ کیا کرتے تھے اور ہمارا قتلِ عام کیا کرتے تھے تو حکومت نے ہمیں نظرانداز کیا۔ پاکستان کا دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہمارے لیۓ مزید مصائب لے کرآیا: عام افراد کی ہلاکتیں، دربدری، جبری گمشدگیاں، تذلیل اور ہمارے رہن سہن اور ذریعہ معاش کی بربادی۔ جس دوران ملٹری آپریشنز جاری تھے اس وقت کسی صحافی کو قبائلی جات میں داخلے کی اجازت نہ تھی۔
(اصل مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کیجیے)
وہ پشتون جو پاکستان کے مختلف شہروں میں ازسرنو زندگی کا آغاز کرنے کی امید لے کراپنے علاقے سے نکلے تھے انکا استقبال ان علاقوں میں شک و شبہ اور مخاصمت کے ساتھ کیا گیا۔ ہمیں عام طور پر دہشت گردوں کا ہمدرد تصور کیا جاتا تھا۔ میں مویشیوں کا معالج بننے ” ویٹینری” کی تعلیم حاصل کررہا تھا، پر ہماری قوم کی حالت زار نے مجھے اور میرے کئی ساتھیوں کو ایکٹیوسٹ بننے پر مجبور کردیا۔
سال 2018 میں، ایک ابھرتے ہوۓ پرعزم ماڈل اور تاجر نقیب اللہ محسود، جو کام کے لیۓ وزیرستان سے کراچی آیا تھا، کو پولیس کی ٹیم جسکی سربراہی پولیس آفیسر راؤانوار کررہا تھا، نے قتل کردیا۔ اس پر چارسو لوگوں کے ماوراۓ عدالت قتل کا الزام ہے، اسے ضمانت ملی ہوئی ہے اور وہ آزاد گھوم رہا ہے۔
بیس دوستوں کے ہمراہ میں نے ڈیرہ اسماعیل خان سے دارالحکومت اسلام آباد تک احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا۔ ہمارا پیغام پھیلا اور اسلام آباد پہنچتے پہنچتے ہمارے احتجاج میں ہزاروں لوگ شامل ہوگۓ۔ ہم نے اپنی تحریک کو پشتون تحفظ موومنٹ کا نام دے دیا۔
ہماری پرامن تحریک پشتونوں کے لیۓ تحفظ اور سیاسی حقوق کی مانگ کرتی ہے۔ نقیب اللہ محسود کو انصاف دلانے کے علاوہ ہمارا مطالبہ ہے کہ دہشتگردوں اورفوجیوں کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے ہزاروں پشتونوں کے قتل کی تحقیقات کرائی جاۓ۔ ہم جبری گمشدگیوں کا سلسہ بند کیۓ جانے کی مانگ کرتے ہیں۔
بہ حیثیت وفادار شہری اور ٹیکس دہندہ ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ پاک فوج کو ہمارے محافظوں کی طرح اپنے فرائض انجام دینے چاہیے اور چھاپوں کے دوران اور چیک پوسٹوں پر ہمیں ہراساں کرنے سے باز رہنا چاہیے۔ ہم اسلام آباد سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وزیرستان کو بارودی سرنگوں اور ناکارہ بارودی مواد سے پاک کیا جاۓ۔
ہم فوجی قائدین سے کئی ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ بعض جرنیل اعلانیہ طور پر ہماری شکایات کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ہمارے تحفظات دور کرنے کے لیۓ وہ کبھی آگے نہیں بڑھے۔ ہم نے کئی دھرنے اور احتجاج اس امید کے ساتھ کیۓ کہ شاید پاکستانی قائدین ہمارے تحفظات پر توجہ دینگے لیکن اسکے برعکس انہوں نے اپنا ردِعمل تشدد، دھونس اور دھمکی کی صورت میں ظاہر کیا۔
ہر بڑے احتجاج کے بعد پولیس PTM کے کارکنان اور حامیان کو فساد، بغاوت اور دہشت گردی کے الزامات لگا کر گرفتار کرلیتی ہے۔ ہمارے کچھ کارکنان اب تک برطانوی کالونی دور کے امتیازی قوانین کے تحت نظربند ہیں، وہ قوانین جو اب قانون کی کتاب کا حصہ بھی نہیں ہیں۔
جب ہم نے مدافعت کی تو انہوں نے طالبان کو ہم پر مسلط کردیا۔ جولائی میں طالبان نے فائرنگ کرکے ہمارے چار PTM مظاہرین کو قتل کردیا اور متعدد فائرنگ کی وجہ سے زخمی ہوگۓ۔ فوج کے ترجمان نے ان طالبان جنگجوؤں کو امن کمیٹی کے ارکان قرار دے کر انکی تعریف کی اور کہا کہ یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور بحالی امن کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
حال ہی میں، دو فروری کے روز ہماری تحریک کے ایک قائد ارمان لونی، جو کالج میں پڑھاتے تھے، پولیس تشدد سے تب جاں بحق ہوگۓ جب وہ بلوچستان میں ہونیوالے دہشت گردانہ حملوں کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ مجھے اور میرے ساتھیوں کو انکی آخری رسومات میں حصہ لینے سے روکا گیا، خیر ہم نے شرکت تو کرلی لیکن ہمیں آدھی رات کے بعد صوبہ چھوڑ دینے پر مجبور کردیا گیا اور جب ہم واپسی کے لیۓ ڈرائیونگ کررہے تھے تو سیکیورٹی فورس کی جانب سے ہماری کار پر فائرنگ کی گئی۔
ہمارے اقدامات اور مطالبات ہمارے ملک کے آئین کے مطابق ہیں لیکن فوج ہمیں غدار اور دشمن کا جاسوس بنا کر پیش کررہی ہے۔
ہماری تحریک کے حوالے سے خبروں میں گھناؤنا پراپگینڈا کیا گیا، سیکیورٹی فورسز نے اس بات کو یقینی بنادیا کہ پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا کے ٹی وی اور اخبارات میں ہمارے حوالے سے کوئی رپورٹنگ نہ ہو۔
ہم پر “ہائی برڈ وار” کا آغاز کرنے کا الزام لگاکر فوج نے PTM کے خلاف گمراہ کن معلومات پھیلانے کے لیۓ ہزاروں ٹرولز کو سوشل میڈیا پر چھوڑ دیا۔ تقریباً ہر روز یہ ہم پر انڈیا، افغانستان اور امریکی انٹیلیجنس ایجنسیز کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ ہمارے تمام ایکٹوسٹس خاص طور پر خواتین لگاتار آن لائن ہراسمنٹ کا سامنا کرتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ہماری حمایت پر مبنی تحریروں کی پاداش میں انٹیلیجنس ایجنسی دروازے پر پہنچ جاتی ہے۔
ہمارے بہت سارے حمایتوں کو انکی ملازمتوں سے فارغ کردیا گیا ہے۔ بہت سارے ایکٹیوسٹوں پر دہشت گردی کا قانون لگا دیا گیا ہے۔ ایک ایکٹیوسٹ عالم زیب خان محسود، جو گمشدہ افراد اور بارودی سرنگوں کی وجہ سے جاں بحق ہونے والے افراد کا ڈیٹا اکھٹا کرتے تھے اور انکی پیروی کیا کرتے تھے، انہیں جنوری میں گرفتار کرلیا گیا۔ ایک اور ایکٹیوسٹ حیات پریغال کو سوشل میڈیا پر ہماری حمایت کے جرم میں مہینوں قید رکھا گیا۔ انہیں اکتوبر میں رہا کردیا گیا تاہم ملک چھوڑنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اسکے نتیجے میں انہیں دبئی میں فارمسٹ کی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا، یہ اپنے خاندان کے واحد کفیل ہیں۔
معروف ایکٹیوسٹ گلالئی اسماعیل پر پاکستان سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ 5 جنوری کے روز جب وہ کالج کے استاد اور PTM ایکٹیوسٹ ارمان لونی کی موت پر احتجاج کررہی تھیں تو انہیں حراست میں لے لیا گیا اور رہا کرنے سے پہلے تیس گھنٹے تک نامعلوم مقام پر قید تنہائی میں رکھا گیا۔ سترہ ایکٹیوسٹس ابھی بھی اسلام آباد میں حراست میں ہیں۔
عمران خان جنہوں نے بطور نۓ وزیراعظم کے اگست میں چارج سنبھالا تھا، جو کبھی پشتون ہونے کے دعوے دار تھے لیکن انکی حکومت نے بھی ہمارے انصاف اور شہری حقوق کے مطالبے پر ریاستی رویہ بدلنے کی ذرہ برابر کوشش نہیں کی۔
فوج مکمل ومطلق اختیار حاصل کرنے کی خواہشمند ہے، ہم متشدد انقلاب کا راستہ نہیں دیکھ رہے ہیں البتہ ہم پاکستان کو دوبارہ سے آئین کیطرف واپس لانے کے لیۓ پرعزم ہیں۔ ہمیں پاکستان سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر کچھ اطمینان حاصل ہوا ہے، جس میں سپریم کورٹ نے فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیز کو سیاست اور میڈیا سے کنارہ کش رہنے کو کہا ہے۔
اپنے ملک میں بہتری اور اصلاحات لانے کے لیۓ، تحقیقات اور ہمارے تحفظات دور کرنے کے لیۓ ہم دیانت پر مبنی اور مکمل طور پر ہم آہنگ کمیشن کے قیام کی خواہش رکھتے ہیں۔ جب سے ہماری تحریک ابھر کر سامنے آئی ہے پاکستانی عوام کی راۓ عامہ ماوراۓ عدالت قتل کی مخالفت میں تبدیل ہوئی ہے۔ زیادہ تر سیاسی جماعتوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔
قانون اور بنیادی ڈھانچے میں تبدیل آنے میں کچھ وقت لگے گا، پر ہماری کامیابی کا پیمانہ یہ ہے کہ ہم نے خامشی کو توڑا ہے اور اس خوف کو ختم کیا ہے جو فوج کی طرف سے عشروں تک قائم رکھا گیا تھا، اسکے باوجود کہ PTM قائدین پابندِ سلال ہیں اور کچھ کو ختم کردیا گیا ہے۔ (ختم شد)
( منظور احمد پشتین کا یہ آرٹیکل 11 فروری 2019 کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا تھا لیکن نیویارک ٹائمز کے پاکستانی ایڈیشن میں اس مضمون کو سنسر کردیا گیا تھا۔ اس ترجمے کا مقصد اردو پڑھنے والے قارئین تک اس آرٹیکل کو من و عن پہنچانا ہے۔ مجھے امید ہے کہ میں نے ترجمے کا حق ادا کرتے ہوۓ مضمون کے اصل مفہوم کو قارئین تک ایمانداری سے پہنچادیا ہے، اسکے باوجود بھی اگر کوئی غلطی نظر آۓ تو براۓ مہربانی نشاندہی فرمائیں۔)
بشکریہ متبادل