گلگت بلتستان کی وادی تحصیل ہیڈ کواٹر اشکومن میں ہزاروں افراد نے 14 سالہ لڑکے دیدار حسین کے اغوا کی بعد اجتماعی زیادتی اور قتل کے خلاف مظاہرہ کیا۔ مظاہرین اس واقعے میں ملوث اہم مجرمان کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔
گلگت بلتستان کی ویب سائٹ پامیر ٹائمز سے منسلک مقامی صحافی دردانہ شیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ہر طبقۂ فکر سے ہزاروں افراد نے اس احتجاج میں حصہ لیا. جو ہلاک کیے جانے والے لڑکے کے والد کی طرف سے نامزد ملزمان کی عدم گرفتاری میں ناکامی پر پولیس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ انھوں نے ہلاک ہونے والے لڑکے کے خاندان کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا اور چھ گھنٹے تک سڑک بلاک کیے رکھی۔‘
مظاہرین نے گلگلت بلتستان کے وزیر اعلی کی خاموشی پر ان کی پرزور مذمت کی اور اس واقعے کی تحقیقات کے لیے آرمی، آئی ایس آئی اور آئی بی پر مشتمل ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ روزانہ کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت کی جائے اور یکم مارچ سے پہلے پہلے اس واقعے میں ملوث تمام افراد کو گرفتار کیا جائے۔ مظاہرین نے تمام ملزمان کی پھانسی کا مطالبہ بھی کیا۔
دردانہ شیر کے مطابق لڑکے کے والد عجائب خان نے اپنی مدعیت میں درج شدہ ایف آئی آر میں کہا ہے کہ ان کا بیٹا 4 فروری کی شام پانچ بجے قریبی دکان پر موبائل بیلنس ڈلوانے گیا تھا اور رات گئے تک جب وہ گھر واپس نہیں آیا تو خاندان کے افراد اور گھر والوں نے ان کی تلاش شروع کی۔ رات بھر برفباری کے دوران کی گئی تلاش میں جب ان کا کچھ پتہ نہیں چلا تو اگلی صبح تھانے میں رپورٹ درج کروائی گئی۔
ایف آئی آر کے مطابق پولیس کی تلاش جاری تھی کہ اغوا کے تیسرے دن لڑکے کی تشدد زدہ لاش ’کورمبر دریا‘ کے کنارے برف میں پڑی ملی۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں لڑکے کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کے شواہد ملے ہیں جس کے بعد گلا گھونٹ کر اسے ہلاک کیا گیا۔ دردانہ شیر کے مطابق ’اس نوعیت کا یہ اس وادی میں پہلا واقع ہے۔ اس نے علاقے کے عوام کے غم و غصے میں اضافہ کیا ہے، اور وہ مجرموں کی پھانسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘
ظاہرین کے پہلے مطالبے پر عمل درآمد کرتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس میں انٹیلیجنس کو نمائندگی دی گئی ہے۔
پولیس نے اس سلسلے میں تحقیقات کرتے ہوئے اب تک آٹھ افراد کو گرفتار کیا ہے۔ گرفتار کیے گئے تمام باشندوں کا تعلق تحصیل اشکومن کے گاؤں تشناؤلٹ سے ہے۔
گرفتار کیے گئے آٹھ افراد میں سے چار نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ بچے کے باپ کی طرف سے اس واقعے کے لیے نامزد کیے گئے دونوں ملزمان عبدالمنان اور فاروق کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ یہ دونوں ملزمان مفرور تھے اور ان کی گرفتاری کے لیے پولیس مختلف علاقوں میں چھاپے مار رہی تھی۔
بشکریہ بی بی سی