ہنزہ (خصوصی تحریر) مسگار ضلع ہنزہ کے تحصیل گوجال کا ایک دور افتادہ گاوں ہے۔ یہاں کے لوگوں کے ذریعہ معاش کا زیادہ تر انحصار کھیتی باڈی اور مال مویشی پر ہے۔ محکمہ جنگلات و جنگلی حیات گلگت بلتستان، ادارہ ہذا اور مختلف این۔جی۔اوز کے اشتراک سے آغاز کیا گیا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے مسگار گوجال میں جنگل و جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے کنزرویشن کے لئے کام کیا جارہا ہے، جس کا مقصد قدرتی وسائل کے غیر قانونی اور بے دریغ استعمال کو روکنا اور ان قدرتی وسائل سے یہاں کے لوگوں کو مناسب فائدہ دینا ہے۔ ان اقدامات میں ٹرافی ہنٹنگ سکیم سر فہرست ہے۔
گاوں مسگار میں اب تک کنزرویشن کامیاب ہے اور مختلف پروگرامز اور پروجیکٹس جاری ہیں۔ یہ بات مخفی نہیں کہ جنگلی حیات کے تحفظ سے انکی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ یوں مسگار ویلی میں برفانی چیتا اور دیگر گوشت خور جانوروں کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہوتا جارہا ہے اور اب یہ گوشت خور جانور مقامی آبادی کے لئے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ خطرہ ان معنوں میں کہ یہ اپنے خوراک کی تلاش میں عوام کے مال مویشی یعنی خوش گاو، بھیڑ بکری وغیرہ کا شکار کرتے ہیں۔ 2018 میں ایک برفانی چیتے نے گاوں مسگار میں عرصہ ایک ماہ تک ڈیرا ڈالا اور ایک سو کے لگ بھگ مویشیوں کو ہلاک کیا، بعد ازاں مقامی آبادی نے تنگ آکر اس برفانی چیتے کو پکڑ لیا، اور محکمہ جنگلات کےحوالے کیا۔
اس موقع پر سیکریٹری اور کنزرویٹر جنگل و جنگلی حیات نے مسگار کا دورہ کیا اور عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے نقصانات کے تدارک کیلئے اقدامات کیے جائیں گے۔ جن میں محکمہ ہذا میں دو وائلڈ لائف گارڈز کی بھرتی، اے سی ہنزہ کے ذریعے نقصانات کے کمپنسیشن کیلئے سروے وغیرہ شامل تھے۔ لیکن تاحال ان دونوں وعدوں پر عمل نہیں ہوا۔ محکمہ ہذا نے دو عارضی وائلڈ لائف گارڈز بھرتی کیے لیکن انکو چند مہینوں کی تنخواہ دی گئی اور دوبارہ انکو فارغ کیا گیا۔ دسمبر 2018 سے اب تک برفانی چیتے نے متعدد خوش گاو ہلاک کئے ہیں، جس کے باعث علاقے میں دوبارہ تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
مویشیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت سے اب عوام یہ سمجھتی ہے کہ کنزرویشن سے عوام کو نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق برفانی چیتے کے حملوں سے اب تک مقامی کاشتکاروں اور چرواہوں کو 10 لاکھ زیادہ کی مالیت کی مویشیوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔
مسگر کے عمائدین اور عوام نے چیف سیکریٹری سے پرزور اپیل کیا ہے کہ ان نقصانات کا ازالہ کیا جائے، اور دیرپا او رمستقل بنیادوں پر اس سلسلے میں حکمت عملی طے کی جائے۔
بشکریہ پامیر ٹائمز