رپورٹ: عنایئت بیگ
بیورو چیف،بام دنیا و ہائی ایشیا ہرالڈ، کراچی
گلگت بلتستان کے نوجوانوں نے اتوار کے روز کراچی پریس کلب کے سامنے غذر میں حالیہ واقعے اورمختلف اضلاع میں زمینوں پر قبضوں اورسرحدوں کی خلاف ورزیوں کے خلاف بھرپوراحتجاجی مظا ہرہ کیا- مظاہرے میں گلگت بلتستان کے تقریبا تمام اضلاع کے نوجوانوں، طلبا اورانسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کیں۔
مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز آٹھا رکھے تھے جن پر ‘سرحدی حدود کی خلاف ورزی نامنظور’، ‘زمینوں اور وسائل پر جبری سرکاری قبضے نامنظور’ اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کے نعرے درج تھے۔
مظاہرے کا اہتمام گلگت بلتستان یوتھ الائینس اورگلگت بلتستان بچائو تحریک نے کیا تھا جس سے خطاب کرتے ہوئے نوجوان رہنماوں نے کہا کہ واقعہ ہندرپ اس نوعیت کا نہ تو پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی یہ آخری واقعہ ہو سکتا ہے۔ مقررین نے گلگت بلتستان کے مختلیف حصوں پرناجائزقبضوں کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ یکم نومبر1947 کو 84 ہزارمربع میل پرمشتمل آزاد رقبہ آج کی تاریخ میں 28 ہزارمربع میل رہ گیا ہے۔ کوہستان، چترال، اقسائی چن، شندور، لداخ، کرگل تو کاٹے جا چکے ہیں اوراب بلتستان کے متعدد علاقے، بسری چلاس، خنجراب، بابا غندی کی زیارت گاہ، شندور، پھنڈر، قرمبر اور ہندرپ پر بھی دعوے اورجبری قبضے کا عمل تیز ہونے لگے ہیں۔
مظاہرین سے داریل سٹوڈنس فیڈریشن کے مرکزی چئیرمین قاری فاروق داریلی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” حکمرانوں نے ہمیں علاقہ ومسلک کی بنیاد پرلڑایا اورہمارے درمیان فاصلے پیدا کئے گئے- مگراب وہ وقت جا چکا. اب ہم گلگت بلتستان کے حقوق کی خاطر قوم، نسل، ذات، مسلک،علاقہ اورزبان سے بالاترہوکرمتحد ہونا چاہتے ہیں.”
دیامر ڈویژن کے بارے میں دیگراضلاع میں غلط رائے اور تاثربپیدا کیا گیا ہے- "دیامر والے امن پسند اورانسان دوست لوگ ہیں. ہم دعوت دیتے ہیں کہ آپ سب دیامر آئیں، ہماری مہمان نوازی دیکھیں، ہماری علم دوستی کا جائزہ لیں اورہمارے لوگوں میں امن کی خواہش محسوس کریں.”
آنھوں نے کہا کہ ہندرپ کے دوستوں کو داریل اورتانگیر کےعوام کی طرف سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں, ہمارا جینا مرنا آپ کے ساتھ ہے.
نیشنل استوڈینٹس فیڈریشن کے رہنما احتشام خان نے اپنے پرجوش تقریرمیں ریاست اورعوام کے بیچ رشطے کی وضاحت کیں اورکیا کہ اس عمرانی معاہدہ کے تحت عوام ٹیکس دیتے ہیں اور ریاست عوام کے حقوق کا تحفظ دیتی ہے.
آنھوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ریاست ٹیکس تو لے رہی ہے مگر نہ تو ہمیں بنیادی حقوق دیتی ہے اور نہ ہمارے جان اورمال کو تحفظ فراہم کرسکی ہے. "جبرکا یہ عالم ہے کہ اس نوآبادیاتی نظام کے خلاف ایک فیس بک پوسٹ کرنے پرنوجوانوں کو ہراساں اورجیلوں میں ڈالا جاتا ہے. یعنی کہ جن سے ہمارا ایک فیس بک پوسٹ ہضم نہیں ہوتا, وہ ہمارے 28،000 مربع میل علاقہ، ہمارے معدنیات اورہمارا جنگل ہضم کرنا چاہتے ہیں.
آل بلتستان موومینٹ کے رہنماء سید ساجد حسین نے اپنے تقریر میں کہا کہ ہندرپ کا واقعہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا اور آخری واقعہ نہیں بلکہ ریاست کی جابریانہ اور توسیع پسندانہ پالیسی کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے. جس کی ہم مذمت کرتے ہیں.
قراقرم نیشنل موومینٹ کے شیر بہادر نے اپنی تقریرمیں مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق گلگت بلتستان کے سرحدی حدود کا از سر نو تعین کیا جائے- ہآنھوں نے کہا کہ ہمیں اس بات پرسنجیدگی سے سوچنا چاہئیے کہ جبرکے یہ تمام طریقئہ کار ہمیں کیوں نہیں جنجھوڑتے ہیں.
مقررین نے خبردار کیا کہ مقامی لوگ کسی بھی غیرمقامی کو مذہبی بنیاد پر وہاں نہ لائے. یہ لڑائی زمینوں کی نہیں بلکہ ہماری بقا کی جنگ ہے. گلگت کی ڈیموگرافی کو تبدیل کر کے اسے فلسطین بنایا جا رہا ہے.
ہم غذر کےعوام کے چارنکاتی مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کی ان کی فوری تعمیل کرے بصورت دیگراحتجاجی مظاہرہ کو دوسرے شہروں تک پھیلائنگے۔
ہندرپ اورمضافات کے عوام نے اپنے 4 نکاتی مطالبات کے حق میں پھنڈرسے گوپس تک لانگ مارچ کیا ہے اوراس وقت بھی گوپس میں دھرنا جاری ہے۔ کل بروز پیرلانگ مارچ ضلعی ہیڈ کوارٹر گاہکوچ کی طرف روانہ ہوں گےاورپھرگلگت ۔
گلگت بلتستان بچاو تحریک آ ج کے مظاہر ے کے بعد ایک ہنگامی اجلاس میں اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔
مظاہرین نے عوامی ورکرز پارٹی گلگت بلتستان کے اسیر رہنما باباجان اوردیگ اسیروں کی رہائی، عطا آباد جیھل کے کنارے اورہنزہ میں زمینوں پہ قبضے، بلتستان یونیورسٹی کیمپس کے لئے زمین پرقبضہ کے خلاف نعرے لگائے.