Baam-e-Jahan

ہنزہ کے روایتی ساز ’ژیغینی‘ کو نیا انداز بخشنے والے ضیا الکریم کی کہانی

موسیٰ یاوری

’میرا بچپن وادیِ ہنزہ میں کھیلتے کودتے اور خاص طور پر یہاں کی علاقائی موسیقی کی دھن پر ناچتے گزرا ہے۔ ہمارے علاقے کی ایک خاص موسیقی ہے جسے ہم ‘ہریپ’ کہتے ہیں۔ اس میں شہنائی اور ڈھول کی مدد سے دھن بجائی جاتی ہے۔ اسی طرح کی موسیقی سنتے ہوئے میں بڑا ہوا۔‘

یہ کہانی مجھے ضیا الکریم نے ہنزہ کے قلعہِ التیت (التیت فورٹ) میں بتائی جہاں وہ بچوں کو موسیقی کی تربیت دیتے ہیں۔

ضیا کی موسیقی کے سفر کا آغاز بچپن میں پچاس روپے کی بانسری خریدنے سے ہوا۔ اور اب وہ با آسانی موسیقی کے متعدد آلات بجا سکتے ہیں جن میں گٹار، رباب، سارنگی، وائلن، بانسری اور مختلف قسم کے ڈرمز شامل ہیں۔

حال ہی میں نیشنل کالج آف آرٹس سے گریجویٹ ہوتے ہوئے اپنے مقالے کے لیے انھوں نے ایک اور قدم اٹھایا۔ انھوں نے ہنزہ کی علاقائی موسیقی کے ایک آلے کو دنیا کے سامنے نئے انداز سے روشناس کر کے اسے ایک نئی زندگی بخشی۔

ضیا نے اس بارے میں بتایا کہ ’ہنزہ کے پرانے لوگ یا وہ جو موسیقی کے شوقین ہیں، ان کو ژیغینی کے بارے میں علم ہے مگر ہماری نئی نسل ژیغینی کے بارے میں لاعلم ہے۔ میرا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اس میں تبدیلیاں لا کر اس کو محفوظ کیا جا سکے۔‘
ژیغینی ہے کیا؟
ژیغینی ہنزہ کا ایک علاقائی آلہِ موسیقی ہے۔ سادہ الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سارنگی اور رباب سے مشابہت رکھتا ہے۔ پہلے یہ صرف سارنگی کی طرح گز سے بجتا تھا۔ لیکن ضیا نے اس میں سارنگی اور رباب جیسی خصوصیات متعارف کروائی ہیں۔

یعنی ژیغینی کو سارنگی اور وائلن کی طرح گز سے بھی بجا سکتے ہیں اور دوسری طرف گٹار اور رباب کی طرح پِک سے بھی بجا سکتے ہیں اور یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

ژیغینی: جو حادثاتی طور پر چین سے ہنزہ پہنچی
1950 کی دہائی میں ہنزہ اور چین کے درمیان تجارت ہوا کرتی تھی۔

ضیا کہتے ہیں کہ انھیں اپنی تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ ’ایک بندے نے اس دور کے مشہور موسیقار ہاشم شاہ صاحب کو آ کر ایک موسیقی کے آلے کے بارے میں بتایا۔ یہ کسی کو نہیں پتا کہ وہ چین میں کون سا موسیقی کا آلہ دیکھ کر آئے تھے۔ لیکن ہاشم شاہ نے ان سے معلومات لے کر وہی خصوصیات اپنے پامیری رباب میں ڈالیں۔‘

ضیا کہتے ہیں کہ ’پرانے لوگ کہتے ہیں کہ ہنزہ میں ژیغینی کے بارے میں کسی کو نہیں پتا تھا اور انھوں نے جب پہلی مرتبہ اس کی موسیقی سنی تو وہ حیران رہ گئے تھے۔‘

لیکن ضیا نے اپنے مقالے کے دوران اس میں بہت ساری خامیوں کی نشاندہی کی اور اس میں تبدیلیاں لا کر اس میں نئی جان ڈالی۔

انھوں نے اس کے مسائل کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس کی رینج ( range) کم تھی، اس میں ٹیوننگ کے مسائل تھے اور اس کی ساخت میں بھی بہت خامیاں تھیں۔‘
ضیا مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے تین بار ناکام بھی ہوئے لیکن بالآخر وہ اس میں تبدیلیاں لانے میں کامیاب ہو گئے۔

ہنزہ کے بچوں کو موسیقی کی تربیت
ضیا کو ہنزہ کی علاقائی موسیقی سے خاص لگاؤ ہے اور وہ اس کے فروغ کے لیے ہنزہ میں ہی کام کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہنزہ سے کوئی بھی پڑھنے کے لیے باہر جاتا ہے تو واپس آ کر یہاں بسنے والے لوگوں کے لیے کام کرتا ہے اور میرا بھی یہی مقصد ہے کہ میں نے جو کچھ سیکھا ہوا ہے وہ دوسروں تک پہنچاؤں۔‘

آغا خان فاؤنڈیشن کی مدد سے انھیں التیت قلعے کے اندر ہی ایک جگہ ملی ہوئی ہے جس میں وہ پچھلے چند ماہ سے بچوں کی تربیت میں مصروف ہیں۔

ضیا بتاتے ہیں کہ ’لوگ یہاں آ کر بچوں کی مختلف طریقوں سے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کوئی ان کی تعریف کرتا ہے، کوئی ان کے استاد کی تعریف کرتا ہے۔ تو اس سے جو خوشی ملتی ہے اسے میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ آپ کو اپنی محنت کا پھل اپنے سامنے نظر آ رہا ہوتا ہے۔‘

ضیا ہنزہ کی علاقائی موسیقی کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔

وہ اس بارے میں بتاتے ہیں کہ ’میں اور میوزک بنانا چاہتا ہوں۔ ہنزہ کی علاقائی موسیقی کے آلات کو نئی نسل تک پہنچانا چاہتا ہوں۔

گلگت بلتستان میں شکر ہے کہ امن ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ موسیقی یہاں اتنی پھیل جائے کہ لوگ منفی سرگرمیوں کی طرف جائیں ہی نا۔‘

بشکریہ بی بی سی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے