Baam-e-Jahan

سٹیج ڈرامہ: وفا کے پتلے

تحریر: محمد حمید شاہد

ایک مدت کے بعد میں پی این سی کے ہال میں کوئی سٹیج ڈرامہ دیکھ رہا تھا اور ڈرامہ تھا احمد حبیب کا ’’وفا کے پتلے‘‘۔
یوں تو کئی دوسرے پروگراموں کے سلسلے میں یہاں آنا جانا لگا رہا مگر مجھے یاد آتا ہے آخری بار پی این سی اے میں جو ڈرامہ نما پرفارمنس دیکھی تھی وہ منٹو کے حوالے تھی۔ اس وقت کے اکادمی ادبیات پاکستان کے صدر نشین افتخار عارف نے تقریب کے لیے کراچی سے اسد محمد خاں، مظہر جمیل اور مبین مرزا کو بلایا اور اسلام آباد سے منشایاد اور مجھ سے مضامین پڑھوائے گئے۔ تقریب میں صرف مضامین نہ تھے اور بھی بہت کچھ تھا۔ منٹو کے افسانے ’’نیا قانون‘‘ کی ڈرامائی تشکیل کی تھی پی ٹی وی کے لیے سرمد صہبائی نے کی تھی وہ دکھائی گئی اور یہیں سٹیج پر نعیم طاہر اور یاسمین طاہر کی باکمال جوڑی آئی۔ دونوں کندھے سے کند ھا جوڑ کر دائیں بائیں ترچھے کھڑے، منٹو کے معروف افسانے ’’اوپر، نیچے اور درمیان‘‘ کو کچھ یوں سنایا کہ سماں بندھ گیا۔ محض دو افراد سٹیج پر تھے اور اتنے پرلطف طریقے سے ڈائیلاگ ادا کر رہے تھے کہ ڈرامے کا سماں بندھ گیا تھا۔ وہ سٹیج ڈرامہ نہ تھا مگر سچ پوچھیں تو ڈرامے سے کم بھی نہ تھا۔

سٹیج ڈرامے کے نام پر جو کچھ ہمارے ہاں ہوتا آیا ہے یا ہو رہا ہے، شاید وہ ایسا رہا ہے کہ میںاسے دیکھنے اور برداشت کرنے کا حوصلہ ہی نہ کرپاتا تھا۔ ذومعنی جملے، بے ہودہ ڈانس، کہانی کا غیاب اور محض لچر پن نے، اسے مثبت اور تخلیقی سرگرمی نہ رہنے دیا۔ تاہم ایسا نہیں ہے ہر کہیں برا ہی برا ہے، اچھا لکھنے والے جب اس طرف متوجہ ہوتے ہیں تو سٹیج ڈرامہ بھی قابل ذکر واقعہ بن جاتا ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ وہ جسے پروفیسر مسعود حسن رضوی نے اردو کا پہلا ناٹک قرار دیا تھا، واجد علی شاہ کا ’’رادھا کنہیا کا قصہ‘‘ تب سے لے کر اب تک جب جب سنجیدہ لکھنے والے اس جانب متوجہ ہوئے ہیں، اس فن کی قدرکو بڑھا وا دیا ہے۔ قصہ خوانی ہو یا ناٹک کبھی بہت مفید ثقافتی سرگرمیوں کے طور پر رائج تھیں۔ واجد علی شاہ کی سلطانی کازمانہ یاد آتا ہے۔ اودھ شاہی دور میں سلطان کے محل میں رقص و سرود کی محافل سجا کرتی تھیں۔ کہتے ہیں تب فن کار تنخواہ دار ملازم ہوا کرتے لہٰذا ہر وقت دربار میں حاضر رہتے اور سلطان خود ماہر فن تھا اور ان کی تربیت کرتا۔ اس نے راس لیلا کی محفل میں جو دیکھا اس کے من کو بھایا تھا اور یہیں سے خیال پکڑا کہ کیوں نہ گانے بجانے کی محافل میںتمثیل و ادا کاری رائج کو جائے۔ کرداروں کی ضرورت کے مطابق زرق برق لباس تیار ہوئے اور یوں جو ناٹک ہوا اسے ’رہس‘ کہا گیا۔ کرشن رادھا اور گوپیوں کے ناچ گانے پر مشتمل رہس۔ سلطان نے ایسے ۲۶ رہس تیار کروائے تھے جن میں سے کرشن کنہیا بہت معروف ہے۔ امانت علی لکھنوی کا ’’اندر سبھا‘، نواب علی نفیس کا’’ شریں فرہاد’’، حکیم حسن مرزا برق کا’’ گلشن جانفزا‘‘ بس اس کے بعد ایک سلسلہ تھا جو چل نکلا تھا۔ قدیم گنگا جمنی تہذیب میں توناٹک بہت پہلے سے موجود تھا۔ کالی داس کی’’ شکنتلا ‘‘ کو قدیم ترین ناٹک سمجھا جاتا ہے جو مہاراجہ بکر ماجیت کے عہد کا درباری شاعر تھا۔ اسے موقع ملا تھا کہ اسے شاہی محل میں تمثیل کرے۔
یوں دیکھیں تو ہند مسلم ثقافتی فضا میں سٹیج ڈرامہ کے لیے گنجائش موجود تھی۔ جب انگریزی راج آیا تواسی فضا نے جدید اسٹیج ڈرامے کے لیے بنیادیں بھی فراہم کردیں۔ دھارمک ناٹک، کٹھ پتلیوں کے تماشے، بھانڈوں کی نقلیں، سانگی، نوٹنکی؛ غرض عوامی سطح پر ایک سے ایک ایسی سرگرمی موجود تھی کہ سٹیج ڈرامہ وہاں سے قوت پاکر خوب پھلے پھولے۔ انگریز راج آیا تو یہ پھلا پھولا بھی۔ پارسی کمپنیوںنے تجارتی مقاصد کے لیے پارسی تھیٹر کے تحت اسے کاروبار بھی بنالیا۔ احسن لکھنوی، طالب بنارسی، نرائن پرشاد، بیتاب بنارسی جیسے لکھنے والوں نے اسے خوب خوب مقبول بنایا۔ آغا حشر تک آتے آتے فلم کا چلن ہو گیا تو سٹیج ڈارمے کی مقبولت پر زد پڑی اور کاروباری تھیٹر لگ بھگ ٹھپ ہو کر رہ گیا کہ فلم اس سے بڑا کاروبار تھی۔ تاہم یہی کہتا چلوں کہ ’’امرا ئو جان‘‘ والے مرزا ہادی رسوا کا سٹیج ڈرامہ ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ ایسا ہے جو ہمیشہ لائق توجہ رہا ہے اور رہے گا۔

بات احمد حبیب کے سٹیج ڈرامے سے شروع ہوئی اور کہیں کی کہیں نکل گئی۔ واپس آتا ہوں کہ مجھے ’’وفاکے پتلے‘‘ کی بابت دوچار باتیں کرنی ہیں۔ ارسطو نے ڈرامے کے چھے عناصر بتا رکھے ہیں؛ کہانی، کردار، زبان، خیال، آرائش اور موسیقی۔ اورمیں کوشش کروں گا کہ انہی حوالوںکے اندر رہ کر اپنی مکمل کروں۔
ڈرامے کے لیے منتخبہ کہانی کے بارے میں ہندی والے کہتے ہیں کہ اس میں پانچ عناصر کا دھیان رکھا جانا چاہیے۔ پہلا عنصر ’’مکھ‘‘ یعنی چہرہ یا آغاز ہے۔ دوسرا’’پرتی مکھ‘‘، اور اس سے مراد ہے درمیانی کڑیاں ہیں جن سے کہانی میں ایک تسلسل قائم ہوتا ہے۔ تیسرا ’’گربھ‘‘ یعنی تذبذب کشمکش اور سسپنس یا رکاوٹیں ہیں، جنہیں پھلانگنے سے کہانی میں تنائو پیدا ہوتا ہے۔ چوتھا اومرش، چکمہ یا Twist ہے جو کہانی میں معنویت اور دلچسپی کا نیا دریچہ کھولتا ہے اور آخری نردھن، کہہ لیجئے نقطہ عروج، جہاں ڈرامے کے اختتام سے پہلے تمام کڑیا مل جاتی ہیں۔ ’’وفا کے پتلے‘‘ کا مکھ منظر ایک قدرے پس ماندہ علاقے میں ایک کرائے کے گھر میں کھلتا ہے۔ یہ جازی نامی ایک مصور کی رہائش بھی ہے اور سٹوڈیو بھی۔ وہ وفا نامی فن پارے پر کام کر رہا ہے اور اپنے تئیں مطمئن ہے کہ جو پورٹریٹ وہ بنا رہا ہے وہ شاہکار بن رہا ہے۔ ڈائیلاگ سے پتا چل رہا ہے کہ یہ کسی عورت کا پورٹریٹ ہے تاہم کینوس کے سامنے والے رُخ کو اوجھل رکھ کر اس میں ایک تجسس رکھ لیا گیا ہے۔ جازی کا کردار بہت مرکزی ہے اور یہیں سے اس کے مجموعی کردار کا تعین ہو جاتا ہے۔ پرتی مکھ میں کہانی کی ان پرتوں کو رکھ لیجئے جو آگے چل کر کرداروں اور کہانی کے بہائو کی تعیین کر رہے ہیں۔ مثلاً پلمبر جو پورٹریٹ دیکھ کر اس کے حسن سے لذت کشید کرتا ہے، شک بھری نظروں سے جازی کو بھی دیکھتا ہے اوراپنے موبائل کے کیمرے سے چپکے سے تصویر لے کر چلا جاتا ہے۔ موبائل سے لی گئی اس تصویر کو بعد میں کہاں برتا گیا پورا ڈرامہ اس باب میں خاموش ہے۔ مالک مکان حاجی صدیق جو اپنے بیٹے کے ساتھ کرایہ لینے آیا تھا، اچانک اس سٹوڈیو نما گھر میں وہ پورٹریٹ دیکھ کرتوبہ توبہ کرتا کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ اس پورٹریٹ پر یہ دو ہی منفی ردعمل تھے، پلمبر کا اور حاجی صدیق کا، ان میں ایک تعلق قائم کر دیا جاتا تو مناسب ہوتا۔ حاجی صدیق جس نے اپنے محلے کو شریفوں کا محلہ کہا اور مصوری کو ایک غیر اسلامی فعل اور بے حیائی بتایا، اس کے رد میں جازی کے ڈائیلاگ انتہائی مناسب اور برمحل رہے اور خود حاجی صدیق کے معصوم بیٹے کا کردار بھی جو جچ گیا جو رنگ اور کاغذ اٹھا کر انتہائی دلچسپی سے تصویر بنانے لگاتھا، یوں کہ وہ انسانی سرشت کی تظہیر ہوگیا تھا۔ جازی کے دو دوست بھی عین آغاز میں اپنا تعارف آرٹ دوست کی حیثیت سے کرواتے ہیں۔ ان میں سے ایک ساراہے۔ سارا آرٹ کریٹیک ہے اور جازی کی محبوبہ بھی۔ مگر کہانی میں ’’گربھ‘‘ والا عنصر یہ ہے سارا کو جازی کی محبت سے بے خبر رکھا گیا ہے۔ اس بے خبری، تذبذب اور کشمکش سے ایک لطف اور سسپنس پیدا ہو گیا ہے۔ بہ طور خاص وہاں جہاں جازی سارا کو دروازے تک چھوڑنے آتا ہے اور اس کے جانے کے بعد مڑ مڑ کر اس کے پیچھے بند ہو نے والے دروازے کو دیکھ دیکھ دل موہ لینے والی ہنسی ہنستا ہے۔ اس منظر کو سارا کے بے خبری میں کہیں اور منگنی کروا کر اپنے دوست کو شدید دکھ سے دوچار کرنے جوڑنا اور جازی کا اس خبر کے بعد دروازے تک نہ آنا اور سارا کا حیرت سے جازی کو دیکھنا بہت با معنی بنا دیتا ہے۔ یہی ڈرامے کی کہانی اور بنیادی ٹریجڈی ہے مگر ٹھہرے صاحب ڈرامہ محض یہی نہیں ہے۔ اس میں ایک Twist ہے ایک خوب صورت چکمہ جو کہانی سے الگ ہو کر بھی کہانی میں پیوست ہے۔ شاید ایسے چکمے کو ہی ہندی ڈرامے والے ’اومرش‘ کہتے ہوں گے۔ یہ Twist ایسا ہے کہ جس سے ڈرامے میں بھید اور جادو سا بھر جاتا ہے۔ پہلی بار یہ جادو بھرا منظر تب ڈرامے کا حصہ بنتا ہے جب جازی اپنے دل میں اپنے دوست کے توجہ دلانے پر اپنی محبت کو شناخت کرتا ہے۔ سارا سے یک طرفہ محبت اور ایک مستی میں اپنے بستر پر دراز ہوتا ہے روشنیاں مدہم ہوتی جاتی ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے وہ خواب دیکھنے لگا ہو۔ یہی سے نیامنظر بہت خوبی سے ڈرامے کا حصہ بنتا ہے۔ اب وفا اور اس کے تراشے ہوئے پتلے سٹیج کا حصہ ہیں۔ وفا کا ان مجسموں کو انہماک سے تراشنا ہو یا ان پتلوں کی جون میں ڈھل گئے سوسائٹی کے مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والے کردار وں کا دم سادھ کر پتھر کی طرح ہو جانا۔ درویش اور اس کے چیلے کے مکالمے ہوں یا اس منظر کو پس منظر کی موسیقی اور روشنی کا زیرکی سے استعمال، سب کچھ اچھا اور بامعنی لگنے لگتا ہے۔ دوسری بار وفا اور اس کے مجسمے تب منظر کا حصہ ہوتے ہیں جب سارا کی محبت سے محرومی کے دکھ میں جازی گھر سے نکل جاتا ہے۔ اس بار مجسمے برہم ہیں۔ یہاں رہ رہ کر مجھے خیال آتا رہا کہ کاش جازی گھر سے نہ نکلتا، دکھ سے نڈھال ہو کر وہیں اپنے بستر پر گر جاتا اور یہ نیا منظر بھی خواب ہو جاتا۔ جازی کو اس نئے منظر میںگھر سے باہر نکال کر پہلے منظر کے خواب ہونے کو بھی مشکوک کر دیا گیا ہے۔ خیر، بتا چکا ہوں کہ اس بار مجسمے برہم ہیں کہ ان کے وجود سے احساس اور محبت کا جذبہ منہا ہو گیا ہے۔ وفا کا اپنے ہی مجسمے کے ہاتھوں قتل ہونا ہو یا اس شہزادے کے ڈائیلاگ جس نے بانسری بجا کر وفا کو تسخیر کرلیا تھا سب بہت خوب سہی مگریہاں ایسامقام آگیا تھا کہ وفا اور اس کے پتلوں اور جازی اور اس کی وفا نامی پورٹریٹ میں ایک تعلق قائم ہوجاتا ؛یہ تعلق قائم ہوا مگر بہت کمزور۔ جس تعلق کی میں بات کر رہا ہوں اسے میں اوپر ’نردھن‘ کہہ آیا ہوں۔ ڈرامے کے اختتام سے پہلے اس کا موقعہ یوں نکلنا چاہیے تھا، کہ سارا، جازی کے خواب میں ہی سہی، وفا کے روپ میں ڈھل جاتی۔ سارا کے سطحی رشتے کے منہا ہونے اور سارا کے تخلیقی رشتے کے قیام کی گنجائش کی طرف دھیان نہ دے کر نردھن کا موقعہ ضائع کر دیا گیا۔ ایک مجسمہ ساز اور مصور کے درمیان وفا کے رشتے کے قیام سے وہ پیغام زیادہ بامعنی ہو سکتا تھا جو جازی مجسموں پر سرُخ رنگ پھینک کر دینے کی کوشش کر رہا تھا۔
اس ڈرامے میں ماہم سلطان نے سارا کا کردار ادا کیا۔ مجموعی طور پر یہ کردار مناسب لگا۔ تاہم ڈائیلاگ ڈلیوری میں اس کا دھیان نہیں رکھا گیا کہ آواز ہال کے آخری فرد تک پہنچانی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وفا کا کردار ادا کرنے والی لڑکی علینہ چوہدری نے اس کا خوب خوب خیال رکھا ہے۔ علینہ اس ڈرامے کے جاندار کرداروں میں سے ایک رہی۔ عثمان ہدایت نے جازی کا کردار ادا کیا اور خوبی سے ادا کیا مگر کہانی میں اس کردار کو آخر میں علینہ جیسے مضبوط کردار کے ہم پلہ ہو کر ایک توازن قائم کرنا چاہیے تھا جو نہ ہو سکا شاید اسی توازن کے قیام کے لیے علی عمار کو ایک شہزادے کے روپ میں کہانی میں داخل کیا گیا تاہم علی عمار کو جتنا اور جیساکردار دیا گیا تھا اس نے خوبی سے نبھایا۔ وقارعظیم درویش بنا اور عامر خان اس درویش کا بے دماغ چیلا اور جب تک یہ دونوں اسٹیج پر رہے توجہ کا مرکز رہے۔ ماں کا پتلا بننے والی اریبہ چشتی، رانجھے کا مجسمہ بننے والا ابو بکر حسین یا وکیل کا مجسمہ ہو کر سٹیج پر آنے والی میراب زہرا اور پتلے بننے والے دوسرے کردار، ان سب نے اس ڈرامے کو ڈرامہ بنایا اورقدرے بگاڑا بھی۔ جب وفا کے پتلے سٹیج پر یوں آئے کہ ان پر پتھر ہونے کا گماں ہوا، یہ ڈرامے کا حسن ہوئے اور جہاں انہوں نے چنگھاڑنا شروع کیا اور زور زور سے اپنے وجود کو حرکت دی اپنے ہی حسن کو تباہ کیا۔ وہ حسن جو میک اپ کرنے والی نے اپنے بے پناہ ٹیلنٹ سے انہیں عطا کیا تھا اور انتہائی صبر اور جبر سے ایک ہی مقام پر ایک ہی ادا کے ساتھ پتھر ہو جانے سے انہوں نے خود ہتھایا تھا۔ خیر یہ کہانی کا رخنہ ہے۔ اور اس باب میں لکھنے والا ہی کچھ کر سکتا تھا۔
مجموعی طور پرکہانی کی زبان عمدہ رہی۔ شاعری کا برمحل استعمال ہوا۔ مکالمے اکثر زیادہ طویل نہ تھے جو خوبی کا سبب ہوئے۔ اس بات کا دھیان رکھا گیا کہ کس کا ڈائیلاگ ہے اور اسی مناسبت سے لفظیات کو چنا گیا۔ کہانی کا مرکزی خیال محبت اور احساس ہے جس کی موجودگی سے انسان بنتا ہے اور جو نہ ہو تو یہی انسان پتھر ہو جاتا ہے۔ خیال ایسا نہیں ہے جس میں ندرت ہو، تاہم اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس خیال کی فنون کے ذریعے تظہیر نے اس عام سے خیال میں نیا پن رکھ دیا ہے۔

آرائش یا میک اپ کے شعبے کی اوپر تعریف کی جا چکی۔ بہ طور خاص جس طرح مجسموں پر محنت کی گئی ہے، اس کی داد بنتی ہے۔ ایک ایک کردار کو بہت خوبی سے بنایا گیا۔ ان کے کاسٹیوم کا انتخاب بھی بہت ذہانت سے کیا گیا جس سے یہ کردار مجسمہ ہوکر پتھر دکھائی دینے لگے۔ محض عام مجسمے نہیں وکیل، ماں، خواجہ سرا، رانجھا وغیرہ ہو کرسماج میں اپنے اپنے شعبوں کی نمائندگی کرنے والے مجسمے۔ درویش اس کے چیلے اور حاجی صدیق کا گیٹ اپ بھی توجہ کھینچتا رہا۔
اور آخر عنصر موسیقی، اس باب میں مجھے اعتراف کرنا ہے کہ سوچنے والے مناظر ہوں یامحبت کے خیال میں محو ہو کر مسکرا دینے کے، تصادم والا منظر ہو یا صبح کا منظر جس میں پرندے چہک رہے ہوتے ہیں، ندی کے بہتے پانی میں وفا کا ہاتھ منھ دھوتے ہوئے پانی اچھالنے کا منظر ہو یا مجسموں کے بھاری قدموں کااسٹیج پر پڑنے والا، رانجھے والی بنسری کی آواز ہو یا ڈرامے کے اختتام پر ڈائیلاگز میں اتار چڑھائو؛ ہر کہیں موسیقی کو بہت ذہانت سے کام میں لایا گیا۔ ارسطو نے کہا تھا؛ انسان اسی وجہ سے دوسرے جاندار وں سے ممتاز ہے کہ وہ سب سے زیادہ نقال ہے۔ اور اس جبلت کی وجہ سے پہلی تعلیم پاتا ہے جب کہ یونانی ڈرامے کے باوا آدم ایسکلس کے بارے میں ناقدین کا یہ کہنارہا ہے کہ اس سے پہلے ڈرامہ محض مذہبی تقریب تھا۔ اس نے کرداروں کو ان کی اصل پر قائم کرکے اسے فن بنا دیا۔ ڈرامے کے کرداروں کی اصل کیا ہے؛وہی ارسطو کی زبان میں نقالی۔ تاہم سٹیج ڈرامے اور ریڈیائی یا ٹیلی ڈرامے میںایک فرق بھی ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ سٹیج ڈرامے میں محض نقالی نہیں ہوتی، یہ عین مین اصل نہیں ہوتے ان میں کچھ نہ کچھ اضافی ہوتا ہے۔ اضافی اور الگ سا۔ یہاں آہنگ بلند ہوجاتا ہے، جی بلند مگر سماعت پر گراں نہ گزرنے والا۔ اور خیال کا وار بھی توقدرے راست ہوتا ہے۔ ایسا راست نہیں کہ اُتھلا ہو جائے اور ایسا بھی نہیں کہ ڈائیلاگ کی گونج ختم ہو جائے اور الجھن ختم نہ ہو۔ ’’وفا کے پتلے‘‘ کی کہانی میں کچھ کمیاں کجیا ں ہیں، مگر اس میں ان باتوں کا اتنا التزام رکھا گیا ہے کہ مجموعی طور پر ڈرامہ ’’وفاکے پتلے ‘‘ مثبت پیغام کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ احمد حبیب نے اپنے کرداروں سے خوب خوب کام لے کر اسے لائق توجہ بنا لیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں