Baam-e-Jahan

صفدر علی 35 سالوں سے کن کی جنگ لڑ رہا تھا؟

تحریر: احسان علی ایڈووکیٹ

گلگت محلہ نگرل کے ایک ممتاز علمی خاندان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ وطن دوست اور گلگت بلستتان کے محکوم و کچلے ہوئے عوام پہ مسلط نوآبادیاتی نظام کی آہنی زنجیروں سے آزادی کی جنگ لڑنے والا جرآت مند اور بہادر سیاسی رہنماء صفدر علی 9 جنوری 2020ء کو ایک روڑ حادثے میں زخمی ہونے کے بعد چار دنوں تک گلگت کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد اپنے عزیزوں رشتہ داروں اور اپنے تحریکی ساتھیوں کو ہمیشہ کیلئے چھوڑ کر چلا گیا۔
صفدر علی زمانہ طالب علمی سے ہی طلباء حقوق کے ساتھ گلگت بلتستان کے محکوم اور پسے ھوئے عوام کے بنیادی انسانی جمہوری، سیاسی اور معاشی حقوق کیلئے جاری جدو جہد میں سرگرمی سے حصہ لے رہا تھا.
سال 1985ء میں پاکستان کے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی ایک مؤثر گروپ نے گلگت میں عوام کے جمہوری اور آئینی حقوق کیلئے ایک تحریک کا آغاز کیا صفدر علی اس طلباء تحریک کے مرکزی قائیدین میں شامل تھے .
اس وقت ڈکٹیٹر جنرل ضیاءالحق نے پورے پاکستان سمیت گلگت بلتستان پہ بھی مارشل لاء مسلط کرکے اس خطے کو مارشل لاء زون ای بنایا تھا۔ طلباء تحریک تیزی سے پھیلنے لگی تو مارشل لاء انتظامیہ نے تحریک کو دبانے کیلئے راتوں رات فوجی عدالت سے صفدرعلی سمیت متعدد طلباء رہنماؤں کو سخت سزائیں دیکر ہری پور جیل بھج دیا- مگر اس دوران نوآبادیاتی انتظامیہ کے گملوں میں پلنے والے موقع پرست سیاستدانوں کی غداری اور کچھ کمزور دل طلباء لیڈروں کی مصلحت پسندی کی وجہ سے وہ تحریک زیادہ دیر نہ چل سکی.
اس سمجھوتہ بازی کے نتیجے میں بعض رہنماؤں کو ملازمتیں مل گئیں جو آج بھی بڑے اعلیٰ منافع بخش عہدوں پہ براجمان ہیں.
مگر صفدر علی سمیت چند سر پھرے نوجوانوں نے انتظامیہ کی ہر پیش کش اور لالچ کو حقارت سے ٹکرا دیا. اس کے بعد بھی صفدرعلی کو متعدد بار پرکشش عہدوں کی آفر ھوتی رہی مگر وطن کے اس بہادر بیٹے نے کبھی بھی اپنے خطے کے عوام کےحقوق کے ساتھ سودا نہ کیا۔
انیس سو نوے کی دہائی میں صفدر علی قومی حقوق کی لڑائی کو آگے بڑھانے کیلئے بالاورستان نیشنل فرنٹ میں شامل ھوگئے اور مرتے دم تک اس تنظیم کے ساتھ جڑے رہے-
اس طویل سیاسی جدو جہد کے دوران صفدرعلی متعدد بار گرفتار ھوئے اور ریاستی تشدد برداشت کیا مگر حکمرانوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔
راقم کو صفدر علی کے ساتھ پہلی بار دو ہزار کی دہائی میں قائم ھونے والی گلگت بلتستان ڈیموکریٹک الائنس کے پلیٹ فارم پہ عملی طور پر اشتراک عمل کا موقع ملا دوسری بار 2013ء کے آخر میں بننے والی عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم پہ ملکر سیاسی جدو جہد کا موقع ملا.
راقم اپنی طویل سیاسی زندگی میں بےشمار سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کے ساتھ وابستہ رہا ھے ان میں صفدر علی ان چند سیاسی لیڈران میں شامل تھے جن کا سیاسی کردار بےداغ رہا جو مشکل سے مشکل وقت میں بھی اور سخت ترین ریاستی دباؤ کے باوجود ثابت قدم رہے-
عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم پہ گندم سبسڈی کی بحالی کی تحریک کے دوران کالونیل انتظامیہ کی طرف سے دھرنا کو ختم کرانے کیلئے سخت دباؤ آیا بہت سارے طرم خان قسم کے روایتی رہنماء ریاستی دباؤ کے آگے ڈھیر ھو گئے اور دھرنے کو ختم کرنے کی درپردہ سازشیں کرنے لگے تو اس وقت میں صفدر علی کے ساتھ چند اور کارکن فولادی عزم کے ساتھ دھرنا جاری رکھنے پہ ڈٹ گئے-
اگر صفدر علی جیسے جرات مند اور بےلوث کارکن راقم کے شانہ بہ شانہ کھڑے نہ ھوتے تو اس تحریک کو آگے کامیابی کی منزل تک لے جانا بہت مشکل ھوتا-
اس تحریک کے بعد بھی صفدر علی سیاسی جدو جہد میں متحرک رہے جس کے نتیجے میں تین دفعہ انسداد دھشت گردی ایکٹ کے تحت قائم کئے گئے جھوٹے مقدمات میں گرفتا ھوئے اور ہر بار عقوبت گاہوں میں بدترین ریاستی تشدد کا سامنا کیا، مگر ان کی استقامت میں کوئی کمی نہ آئی-
ان مقدمات کی بطور وکیل پیروی کے دوران مجھے دیگر کارکن قیدیوں سے پتہ چلتا رہا کہ وہ جیل کے اندر کس طرح دوسرے قیدی ساتھیوں کو حوصلہ دلاتا تھا۔
وہ مرتے دم تک گلگت بلتستان کے عوام پہ مسلط انسداد دھشت گردی کے وحشی قانون کے تحت قائم تین مقدمات میں پیشیاں بھگت رہا تھا-
صفدر علی نے اپنی اس 35 سالہ طویل سیاسی جدو جہد کے دوران نوآبادیاتی حکمرانوں کی طرف سے را کا ایجنٹ، بیرونی ایجنڈے پہ کام کرنے والا غیر ملکی ایجنٹ اور کروڑوں روپے کی غیر ملکی فنڈ لینے جیسے انتہائی سنگین مگر جھوٹے اور لغو الزامات کا سامناکیا مگر ان تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود انتظامیہ صفدر علی جیسے نظریاتی کارکنوں کے عزم و حوصلے کو شکست نہ دے سکے-
اس طویل سیاسی سفر کے دوران راقم کی صفدر علی سے طویل سیاسی مباحثے ھوتے تھے وہ گلگت بلتستان کی قومی خودمختاری کے قائل تھے مگر وہ راقم کی اس موقف سے بھی اصولی طور پہ اتفاق کرتے تھے کہ حقیقی قومی خود مختاری اس طبقاتی نظام کے خاتمے اور محنت کش طبقے کی قیادت میں سوشلسٹ انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔
صفدر علی کی اس طویل سیاسی جدو جہد اور انکی زندگی کے مختلف پہلوؤں پہ مزید ساتھیوں کو لکھنے کی ضرورت ھے صفدر علی ایک بڑے سیاسی رہنما ھونے کے ساتھ ایک صاف دل اور انتہائی سادہ طبعیت کے انسان تھے وہ عملی سیاسی جدو جہد میں اتنے مصروف رہے کہ انہیں اپنی ذاتی زندگی بسانے کا موقع ہی نہ ملا.

احسان علی ایڈووکیٹ بایاں بازو کے سیاسی رہنماء اور سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن گلگت بلتستان کے سابق صدر اور جی بی بار کونسل کے رہنماء ہئں.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے