تحریر: ایاز ملک
پیداواری نظام و رشتوں کی صنفی سوال سے تاریخی جڑت پر تو کوئی بحث نہیں ہے۔ فریڈرک اینگلز کی مشہور زمانہ تصنیف ”خاندان ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز“ اور مارکسی فیمنسٹ ماریا میز کی کتاب ”پدرسری اور عالمی سطح پر اکیوملیشن“ (Patriarchy and Accumulation on a World Scale) میں اس حقیقت پر گہری روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسان کے سماجی ارتقا میں صنفی بنیاد پر محنت کی تقسیم اور پیداواری رشتوں میں درجہ بندی کوئی فطری عمل نہیں، بلکہوہ مخصوص اور پرتشدد عمل تھا جس کے ذریعے غیر طبقاتی اور اکثر مدرسری بنیاد پر منظم سماج کو پدرسری اور طبقاتی تفریق کے تحت تشکیل دیا گیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کی اپنی تاریخ میں جہاں مارکس داس کیپٹل کے مشہور آخری سیکشن میں ”ابتدائی یا اصل ذخیرہ پیداواری آلات“ (“original” or primitive accumulation) کی بات کرتا ہے، اسی طرح سلویا فیڈرچی جیسی فیمنسٹ مورخین نے اس میں یہ بھی اضافہ کیا ہے کے محرومی اور فقیری پیدا کرنے کے اس عمل کا ایک کلیدی حصہ عورتوں کی اپنے جسم اور اس کے پیدواری جوہر پر اختیار کھونا بھی تھا (فیڈرچی، 2004)۔ یہ ہی وہ عمل ہے جس کے ذریعے ماریا میس نو آبادیت اور خواتین کے محظ گھر تک محدود کرے جانے کو جوڑتی ہیں۔ یوں پدرسری اور صنفی تفریق کا سلسلہ جہاں سرمایا دارانہ نظام سے پرانا ہے، لیکن اس کے محرکات تاریخی طور پر اور مربوط طریقے سے پیداواری رشتوں اور ان کے ارتقا کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
آج بھی ہمیں نظر آتا ہے کے سرمایہ نہ صرف مزدور طبقے کو پیداواری ڈھانچے کے ایک مخصوص مقام میں جوڑتا ہے، بلکہ اسی جوڑنے کے عمل میں ہی تفریق کے محرکات بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر سرمایا دارانہ نظام میں ناہمواری صرف علاقائی سطح پر نہیں بلکہ سماجی رشتوں میں بھی ناہمواری کا پہلو حاوی رہتا ہے۔ یوں کہیں عورت کو محض گھر مزدور اورسرمایہ کی فاضل فوج (reserve army of labour) کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، تو کہیں اشیا کی مخصوص صنفی تشہیر کر کے سرمایہ کی تقویت کے نت نئے رستے ہموارکیے جاتے ہیں۔ یوں سرمایہ کے پیداواری رشتوں میں ہر موقع اور ہر جائے وقوع پر نہ ہمواری کا عنصر حاوی رہتا ہے، اور اس ناہمواری کے تحت مخصوص شناخت (جیسے کے صنف، زبان، یا مذہب) پر ابھرنے والی تحریکوں کو محظ ایک خیالی طور پر یکجا مزدور طبقے کو تقسیم کرنے کی سازش نہیں سمجھا جا سکتا۔ جیسے کے معروف مارکسی دانشور سٹوورٹ ہال لکھتے ہیں کہ ”سرمایہ کی حکومت یکسوئیت اور مماثلت کے بجائے امتیاز و تفریق کے ذریعےبھی کام کرسکتی ہے اور اکثر کرتی بھی ہے“ (ہال، 1986: 437)۔ یوں اگر سرمایہ اور اس کے استحصال کی شکل و جوہر میں اتنی لچک ہے تو انقلابی سیاست کو بھی اپنے نظریاتی و عملی آلات و ہتھیار میں ایسی ہی لچک اور فراغ دلی دکھانی ہو گی۔
جدلیات اور کچھ علمیاتی (epistemological)پہلو
یکسوئیت اور فرق، مماثلت اور تفریق کے اسی جدلیاتی رشتے کے حوالے سے میں اس مضمون کا آخری اور نظریاتی نقطہ پیش کرنا چاہوں گا، یعنی کے جدلیات (dialectics) میں ظہور اور حقیقت یا جوہر (appearance and reality) کا رشتہ۔ یہ سوال فلسفے اور مارکسی فلسفے کے دیگر اہم سوالات سے جڑا ہوا ہے جیسے کے معروض اور موضوع (objective and subjective)، ایجنسی اور سٹرکچر یعنی ڈھانچے کے حوالے سے ابھرنے والےسوالات۔ ہیگل اور مارکس دونوں میں ظہور اور جوہر، حقیقت اور اس کے اظہار کا رشتہ ”مماثلت بمع تفریق“ (unity۔ in۔ distinction) کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔ یعنی کے کسی بھی چیز، عمل یا نظام کی حقیقت یا جوہر کبھی براہ راست ہمارے سامنے پیش نہیں ہوتی، بلکہ ہمیشہ کسی مخصوص قسم کے اظہار کے ذریعے پیش ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر پانی کو صرف دیکھا یا محسوس کیا جائے تو وہ ایک گیلی شے معلوم ہوتی ہے جس کے مختلف استعمال ہوسکتے ہیں (جیسے کے کپڑے دھونا، کھانا پکانا وغیرہ)۔ لیکن اس کے جوہر یعنی کےاس کے ایٹمی ڈھانچے اور جہت (یعنی H2O) تک پہنچنے کے لئے ہمیں سائنسی تجزیہ درکار ہے۔ لیکن اگر پانی کا جوہر (H2O) ہے، تو اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کے اس کا گیلا ہونے کا اظہار محض ایک شکل یا احساس ہے۔ بلکہ اس کی حقیقت اور اس کا اظہار ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہے کے ایک کا انحصار دوسرے پر ہے۔ اسی طرح کسی فٹبال کو ایک مخصوص زاویے سے دیکھا جائے تو وہ ایک دائرہ نظر آئے گی جب کے ایک اور زاویے سے دیکھا جائے تو وہ انڈے کی طرح بیضوی (oval) دکھے گی۔ اس کو ایک مجموعی طریقے سے ہی دیکھنے سے آپ اس کی حقیقت یعنی کے اس کے فٹبال ہونے تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کے اس کا دائرے یا گولائی کے طور پر مظہر کلی طور پر غلط تھا۔ بلکہ یہ وہ صورت حال ہے جس کو مارکس ”اصل مغالطہ“ (real illusion) کہتا ہے، یعنی کے ایک ایسی صورت حال جدھر اظہار سچ اور مغالطہ دونوں ہے، یعنی کے ایک ایسا جزوی سچ جو اکثر کلی سچ کی دریافت میں رکاوٹ حائل کرتا ہے۔ یوں اظہار اور مظہر ہی محض سب کچھ نہیں (ورنہ تو سائنس کا کوئی جواز ہی نہ ہوتا)، لیکن حقیقت و جوہر تک رسائی بھی اظہار اور اس کے موضوعی تجربات کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کے معروضی حقیقت تک رسائی ہمیشہ موضوعی تجربات اور حقیقت کے اظہار کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ جوہر اور مظہر کو، حقیقت اور اس کے اظہارکو، معروض اور موضوع کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ ایک جدلیاتی جڑت ہیں، یوں بھی کہا جا سکتا ہے کے یہ ایک مماثلت بمع تفریق (unity۔ in۔ distinction) ہیں۔
ظہور اور جوہر کے جدلیاتی رشتے کو ہم مارکسزم اور فیمنزم، پیدوارری رشتوں اور صنفی جبر کے درمیان رشتے کو بھی سمجھنے کے لئے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ جس طرح اوپر تفصیل کیا گیا کہ پیداواری رشتوں کے استحصال کا اظہار ہمیشہ مخصوص اشکال لیتا ہے، جن میں صنفی اور لسانی جبر شامل ہیں۔ کسی بھی سماجی فرد یا گروہ کی معروض تک رسائی اس کے موضوعی احساسات و تجربات کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر مزدور جب فیکٹری میں احتجاج یا ہرتال کرتے ہیں تو وہ بلعموم سرمایا دارانہ طبقے یا کلی طور پر پیداوار کے نظام کے خلاف احتجاج نہیں کرتے، بلکہ ہمیشہ احتجاج کسی مخصوص مینیجر کمپنی یا سرمایا دار کے خلاف ہی ہوتا ہے۔ یوں ان کا اس شخص یا کمپنی کے خلاف احتجاج کوئی مغالطہ یا جھوٹا شعور false consciousness)) نہیں، بلکہ وہ شخص یا کمپنی وہ مخصوص مظہر ہے جس کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا اظہار ہوتا ہے اور جس کے تحت مزدور اپنے موضوعی تجربات کے ذریعے معروضی حقیقت (یعنی کے وسیع تر سرمایہ دارانہ ڈھانچے) کو جانتے پہچانتے ہیں۔ اسی طرح پیداواری نظام کے استحصال کا مظہر پدرسری کے جبر اور اکثر مردوں کی طرف سے صنفی جبر اور اس کے عوامل میں ہوتا ہے۔ جس طرح کے مارکس فیورباخ پر اپنے پہلے تھیسس میں کہتا ہے کہ ”آج تک کی مادیت کے فلسفے کا سب سے بڑا عیب اس کا کسی چیز، حقیقت کو محض ’شے‘ یا قیاس کی صورت میں سمجھا گیا ہے، لیکن اس کو انسان کے نفسانی عمل، یعنی اس کی موضوعیت کے ذریعے نہیں سمجھا گیا“ (مارکس، 1845)۔ یوں اگر کوئی عورت یا تحریک صنفی جبر یا پدرسری کے خلاف متحرک ہے تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کے یہ محظ ایک مغالطہ یا مزدوروں کو بانٹنے کی اشرفیائی سازش ہے۔ بلکہ اکثر صنفی جبر وہ مخصوص شکل ہے جس کے ذریعے پیداواری نظام کے معروضی ڈھانچے کا ظہور ہوتا ہے، یعنی کے صنفی جبر وہ مخصوص موضوعی یا داخلی تجربہ ہے جس کے ذریعے سماج کا ایک مخصوص گروہ وسیع تر پیداواری نظام کو سہتا، جیتا، سمجھتا اور بدلتا ہے۔ یقیناً ان آخری دو باتوں (یعنی کے سمجھنے اور بدلنے) کا انحصار ایک مخصوص سیاسی عمل و فکر پر ہے، یعنی کے انقلابی جہت پر استوار ایک فلسفہ عملی غور و فکر۔ لیکن پوری طرح سمجھنے اور بدلنے کے عوامل کی غیر موجودگی ہرگز یہ نہیں کے صنفی جبر کا موضوعی احساس اور اس کے خلاف جدوجہد محض مغالطہ یا بورژوا سازش ہے۔ بلکہ یہ احساس اور اس سے ابھرنے والی فیمنسٹ اور صنفی جبر کے مخالف تحریک بھی اسی معروضی حقیقت کی طرف ایک جہت ہے جیسے کے کسی فیکٹری میں مزدوروں کا سرمایہ دار یا مینیجر کے خلاف بغاوت کا عمل۔
کسی بھی زندہ مارکسی سیاست کو طبقاتی سوال اور صنفی سوال کو ایک جدلیاتی مجموعہ یعنی کے مماثلت۔ بمع۔ تفریق کے طور پر دیکھنا ہو گا۔ یعنی کے نہ ہی صنفی جبر کو مکمل طور پر طبقاتی سوال میں ضم کرا جا سکتا ہے، اور نہ ہی صنفی جبر کو طبقاتی استحصال اور وسیع تر پیداواری رشتوں سے الگ کر کے سمجھا جا سکتا ہے۔ جدھر صنفی سوال کو مکمل طور پر طبقاتی سوال میں ضم کر دیا جائے، ادھر ہم صنفی جبر کی خصوصیت کو سمجھنے سے قاصر ہوں گے اور میکانکی اور غیرجدلیاتی ”مارکسزم“ کی طرف بڑھیں گے۔ دوسری طرف اگر صنفی سوال کو مکمل طور پر طبقاتی سوال اور پیداواری نظام کے محرکات سے الگ دیکھا جائے تو نا صرف ہم صنف کے تاریخی ارتقا کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے، بلکہ سیاسی طور پر ہم ایسی لبرل فیمنزم کی طرف بڑھیں گے جو محض سرمایہ کے جبر کا ”ترقی پسندانہ“ چہرہ ہو گی۔
سیاست معیشت اور ثقافت کے آپس میں رشتے پر تبصرہ کرتے ہوئے (جس کو مارکسی تھیوری میں اکثر سٹرکچر۔ سوپر سٹرکچر کی بحث بھی کہا جاتا ہے) مایہ ناز مارکسی مورخ ای پی تھامپسن لکھتے ہیں کہ وہ تھیوری جو کسی بھی پیداواری نظام کو محض ”معاشی“ لحاظ سے سمجھنے کی کوشش کرے یہ سمجھے بغیر کے وہ کون سے روز مرہ کے اظہار، معیار و اقدار تھے جن کے ذریعے عام لوگ اس پیداواری نظام کو جیتے تھے، ایسی تھیوری کاغز پر تو اچھی لگ سکتی ہے، لیکن حتمی طور پر یہ معیشت ثقافت وغیرہ کے درمیان من مانی تفریق ”محض آپ کے تصورات میں ہی ایک دلیل ہے“ (تھامپسن، 1978: 18)ْ۔ اسی طرح وہ مارکسزم اور طبقاتی سیاست جو کے صنفی سوال کو ایک ”مماثلت۔ بمع۔ تفریق“ کے طور پر نہ اٹھائے، وہ محض ایک تصوراتی ”مارکسزم“ اور تصوراتی طبقاتی سیاست ہے۔ ایک جدلیاتی عمل و تصور کے لئے یہ ضروری ہے کے ہم معروض اور موضوع، مظہر اور جوہر کے درمیان رشتے کو ٹھوس جدلیاتی طور پر دیکھیں، کیوں کے اظہار اور مظہر وہ مخصوص شکل ہیں جن کے ذریعے ہم معروض اور سماجی ڈھانچے تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ جبر و استحصال کی موضوعی اشکال و تجربات ”غیر سائنسی“ ہونے کے برعکس وسیع تر سماجی حقیقت میں ہمارے داخلے کا رستہ ہیں، یعنی ان کو سمجھنا اور ان سے ابھرنے والے شعور پر سنجیدگی سے عملی غور و فکر کرنا ہی سماجی سائنس اور اس کی انقلابی تبدیلی کی طرف ہمارا پہلے قدم ہے۔ مماثلت اور تفریق کی یہ ہی کشیدگی اور ٹینشن ہماری سیاست کو وہ لچک اور تخلیقی روح بخش سکتی ہے جو اس سماج اور نظام کے بدلتے محرکات اور اظہارات میں سے دور رس انقلابی سٹریٹجی کا احاطہ کر سکے۔ مارکسزم کے بغیر فیمنزم وسیع تر استحصالی نظام کے ساتھ محض ایک سمجھوتہ ہے۔ لیکن فیمنزم کے بغیر مارکسزم بھی محض ایک خیالی مارکسزم ہی ہے۔
یہ تحریر ‘ہم سب’ کے مارچ 2018ء کے شمارہ میں شائع ہو گیا تھا بام جہاں خواتین کے عالمی دن کے مناسبت سے اس دوبارہ شائع کررہی ہے
ایاز ملک پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں. ان کو بایاں بازو اور مزدور سیاست سے گہری دلچسپی ہے