تحریر: سلیم خان
دنیا کے امیر اور خوشحال ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد کورنا وائرس کی وباء نے رواں سال فروری کے آخر میں پاکستان کا رخ کرلیا ہے۔ ہمسائیہ ملک چین میں گزشتہ سال دسمبر کے مہینے میں شروع ہونے والی اس وباء سے اب تک وہاں 3261 افراد کی موت واقع ہو چکی ہے۔ چین کو نہ صرف ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانی دینی پڑی ہے بلکہ ان کی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
کورونا سے اب تک 183 ممالک متاثر ہو چکے ہیں۔یورپ میں اٹلی اس وباء سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ تادم تحریر عالمی ادارہ صحت کی رپورٹس کے مطابق اٹلی میں 4،825 افراد اس مرض کے سبب لقمئہ اجل بن چکے ہیں۔ دنیا بھر میں 13ہزار سے زائد افراد کی موت کا سبب بننے والا یہ متعدی مرض دنیا کے تمام ممالک میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے لیے کچھ زمینی حقائق اور اعداد و شمار کا جائزہ لینا انتہائی ضرروری ہے۔ اس ساری پریشان کن صورتحال میں کچھ امید افزاء حقائق بھی ہیں جن کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہوگا۔ دنیا بھر میں 3،08،594 افراد اب تک اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 95،829 افراد صحت یاب ہو چکے ہیں۔ ان مریضوں میں سے صرف پانچ فیصد افراد ایسے ہیں جن کی صحت کو تشویش ناک قرار دیا گیا ہے۔
پاکستان مین سرکاری ذرائع کے مطابق اب تک کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے مریضوں کی کُل تعدا د695ہے۔ سرکاری طور پر چار افراد کی موت کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ملک بھر میں ہنگامی حالات کا نفاز کیا جا چکا ہے، سرکاری ہسپتالوں میں خصوصی وارڈز کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبر پختونخواہ، گلگت بلتستان اور کشمیر میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ ملک بھر میں مارچ کے مہینے میں کورونا وائرس کے کیسز میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ جہاں اس وباء سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں جدوجہد کر رہی ہیں وہاں بحیثیت قوم ہم سب پر بھی ایک بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔
ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی محدود اور پسماندہ طبی سہولیات کے پیش نظر آنے والے دنوں میں مزید اموات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اب تک 71 افراد کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق کی جا چکی ہے۔ گلگت بلتستان کی حکومت نے پیشگی طور پر تعلیمی اداروں، مدارس اور ٹیوشن سنٹرز اور کھیل کود کے مراکز کی بندش کا حکم دیکر درست اقدامات کی بنیاد رکھ دی تھی۔ حالات کو بگڑنے سے روکنے کے لیے وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے احکامات کی روشنی میں تجارتی مراکز کی بندش، مختلف اضلاع میں مذہبی، سیاسی و سماجی اجتماعات اور تقریبات پر پابندی لگا دی گئی ہے جس کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں علمائے کرام کا خصوصی تعاون بھی حکومت کو رہا ہے، جو کہ نہایت ہی قابل تحسین اقدام ہے۔
یہ وائرس چونکہ سماجی میل جول، مصافحہ کرنے، گلے ملنے سے پھیلتا ہے اس لیے صوبائی حکومت عوام سے اپیل کر رہی ہے کہ وہ گھروں میں ہی رہیں، سرکاری دفاتر میں بھی انتہائی ضروری عملہ کے علاوہ ملازمین کو گھر رہنے کی ہدایات دی جا چکی ہیں۔گلگت، دیامر اور بلتستان ڈویژن میں ہسپتالوں میں خصوصی آئسولیشن وارڈز کا قیام بھی عمل میں لایا جا چکا ہے۔ حکومتی و انتظامی اقدمات کی مدد سے اس وباء سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ ایران اور دیگر متاثرہ ممالک سے سفر کرکے آنے والے افراد کے لیئے خصوصی انتظامات کیے جا چکے ہیں۔
یہ امر باعث تشویش ہے کہ متعدد احکامات اور اپیلوں کے باوجود عوام کی ایک بڑی تعداد حفاظتی اقدامات کو یکسر نظر انداز کرکے وباء کو خود دعوت دے رہے ہیں۔ محکمہ صحت، محکمہ اطلاعات اور دیگر سرکاری اداروں کی جانب سے اخبارات، ٹی وی چینلز اورسوشل میڈیا کی مدد سے دی جانے والی آگاہی کے باجود بازاروں اور دیگر مقامات پر لوگوں کی آمد و رفت جاری ہے جس کے نتیجے میں دن بدن گلگت بلتستان میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے کیئے جانے والے اقدامات اس وقت تک موثر اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتے جب تک کہ عوام خود احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا نہ ہوں۔
عمومی رویوں کو مد نظر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان حکومت نے 32 مارچ سے پورے خطے میں ہوم لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا جو کہ نہایت ہی مستحسن اقدام ہے۔۔ اس بارے میں میڈیا کے نمائیندوں کو تفصیلات بتاتے ہوئے صوبائی وزیر قانون راجہ اورنگزیب خان ایڈو کیٹ اور مشیر اطلاعات شمس میر نے کہا کہ گزشتہ روز صوبے میں کرونا وائرس کے 55 کیسز تھے اتوار کو 16 نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اس صوت حال کے پیش نظر گلگت بلتستان میں اتوار اور پیر کی در میانی شب سے ہوم لاک ڈاؤن (سیمی کر فیو) نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے شہروں کا کنٹرول گلگت بلتستان سکاؤٹس، رینجرز اور پولیس سنبھالیں گیں۔ ہو م لاک ڈاؤن کے بارے میں باقاعدہ اعلانات کرکے شہریوں کو گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا ہے۔بین الاضلاعی ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔جبکہ ر اولپنڈی سے گلگت بلتستان کے لئے مسافر بسوں اور ویگنوں کو مستشنی قرار دیا گیا ہے۔
کورونا وائرس کے علاج کے لیے اب تک کوئی دوا موثر ثابت نہیں ہوئی اس لیے تمام ترقی یافتہ ممالک ویکسین کی تیاری پر کام کررہے ہیں، جب تک ویکسین دستیاب نہیں ہوگی اُس وقت احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اور سماجی میل ملاپ سے اجتناب کرنا ہی واحد حل ہے۔ دین اسلام نے بھی صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے اس لیے ہاتھوں کو صابن یا ہینڈ واش سے بار با ر دھونے کی ضرورت ہے، عوام سے گزارش کی جاتی ہے کہ مصافحہ کرنے او ر بغلگیر ہونے سے بھی گریز کریں، جمگھٹا والی جگہوں خصوصا بازاروں اور مارکیٹوں کا رخ کرنے سے حتی الامکان اجتناب کرنے کی ضرورت ہے۔سانس لینے میں تکلیف، کھانسی، نزلہ زکام اور بخار جاری رہنے کی صورت میں بھی فوری طو ر پر معالج سے رابطہ کرنا ضروری ہے۔ ایسے افراد جنہوں نے حال ہی میں بیرون ملک کا سفر کیا ہے ان کو چاہیئے کہ وہ گھروں میں رہ کر اپنے خاندانوں اور دوسرں کے لیے خطرے کا سبب بننے کی بجائے احتیاطا اپنا سکریننگ کروائیں، ان تدابیر پر عمل کرکے ہی ہم اس مصیبت سے اپنے آپ کو اور اپنے پیاروں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
سندھ میں بھی جہاں سب سے زیادہ کیسز سامنے ائے ہیں، نے بھی حالات کو قابو میں رکھنے کے لیئے 23 مارچ سے پورے صوبے میں لاک ڈاؤن کیا ہے۔
ایک اور پہلو جس پر ہم سب کو غور کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم افواہوں کا شکار نہ ہوں، جب سے اس وباء کا پھیلاؤ شروع ہوا ہے اس دن سے عوام موبائل فون اور سوشل میڈیا پر دن رات مستند، غیر مستند اور ناقص معلومات کے تبادلے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ۔ بہت ساری چیزیں جو کہ انتہائی غیر مستند ہیں ذہنی خلفشار، خوف اور پریشانی کے باعث بن رہے ہیں، ایسی معلومات جن کی تصدیق سرکاری زرائع سے نہیں ہو رہی ہو عوام میں بے چینی کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس لیے سوشل میڈیا اور موبائل صارفین واٹس ایپ اور دیگر زرائع سے غیر مستند مواد کے تبادلے کے دوران انتہائی محتاط رہیں۔ اس لیے عوام سے اپیل ہے کہ غیر تصدیق شدہ معلومات کے تبادلے سے حتی الامکان گریز کریں۔
معلومات کی تیز ترین ترسیل کے اس دور میں دشمن موجودہ حالات کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ چونکہ سوشل میڈیا کی کوئی سرحد نہیں اس لیئے ہمیں سماج دشمن عناصرسے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔
آخر میں ایک بار پھر عوام سے اپیل کروں گا کہ وہ گھروں کے اندر رہیں، سماجی سرگرمیوں کو محدود کریں، غیر ضروری میل جول، خصوصا سفر کرنے سے گریز کریں، وبائی امراض سے موثر طریقے سے نمٹنے کے لیے ہم سب کو مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی استطاعت میں ایسے لوگوں کی امداد کریں جو کہ آپ کے اردگرد ہوں اور موجودہ حالات میں ان کا کاروبار یا روزگار متاثر ہوا ہو۔ ہمسائیوں اور قرب و جوار میں مستحق افراد کے لیے ادویات اور کھانے کا انتظام کرکے آپ اور ہم اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم متحد رہ کر ہی تمام آفات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ حکومتی ادارے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک عوام کا تعاون شامل نہ ہو، اس لئے حکومت کی جانب سے کیے جانیو الے اقدامات کی کامیابی کے لیے عوام کو بھرپور تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔
سلیم خان گلگت بلتستان کے محکمئہ اطلاعات مین اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں