یہ بات تو طے ہے کہ کوئی بھی علم انسان پر ایک کیفیت طاری کرتا ہے اور اسی کیفیت کی بنیاد پر اس سے اعمال صادر ہوتے ہیں۔ یہ اعمال انسان کی انفرادی اور اجتمائی زندگی پر منفی اور مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔
جیسا کہ آجکل ہر عام و خاص میں ایک ہی موضوع اور لفظ کرونا وائرس تکیہ کلام بنا ہوا ہے۔ پوری عالمی میڈیا کا مرکز و محور صرف اور صرف کرونا وائرس تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ کہیں اسے عذاب الٰہی سے جوڑا جاتا یے تو کہیں اسے میڈیکل سائنس کا شاخسانہ قرار دیا جاتا یے۔ کرونا وائرس کے حوالے سے ہر قسم کی سائنسی، سیاسی، مذھبی و مسلکی بحث و دلیلیں مختلف اذھان کے لوگوں پر مختلف اثرات مرتب کررہے ہیں۔ سائنسی دلائل پر یقین رکھنے والے لوگ ان تمام تر احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کررہے ہیں جو اس وبا کی روک تھام میں مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان احتیاطی تدابیر میں خود کواور اپنے خاندان والوں کو گھر تک محدود کرنا سماجی و طبعی فاصلہ قائم رکھنا صفائی کا خاص خیال رکھنا وغیرہ شامل ہے۔
لیکن ایک خاص گروہ کے رجحانات کچھ اس طرح کے بھی ہیں کہ ‘موت اٹل ہے’؛ ‘اس کا وقت اور سبب متعین ہے’؛ ‘کرونا کے خوف سے ہم اپنی اجتماعی عبادات کو ختم نہیں کر سکتے’؛ ‘یہ عذاب الٰہی ہے، اس سے اجتماعی عبادات اور توبہ و استغفارکے ذریعے اور اللہ کی ذات پر مکمل بھروسہ کرکے ہی چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے’۔ ان کی دلیلیں بھی قرآن و سنت کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو بالکل صحیح ہے۔ لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے کہ کیا واقعئ ہم رب کریم کی رحمت اور بخشش کے حقدار ہیں؟ کیا واقعی ہم ایمان کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم نے اللہ کو مشکل میں پکارا اور اس نے اپنی رحمت کی نظر ایک دم ہماری طرف کر لی اور بلا ٹل گئی؟۔
معجزے ضرور ہوتے ہیں بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے اس کے ایک کن کی دیری ہے کہ پل بھر میں ہی فیکن ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو یہ معجزے صرف اور صرف ایمان کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہستیوں جن میں پیغمبران دین آ ئمہ و اولیائے کرام اور بزرگان دین شامل ہے جو متقی و پرہیزگاری میں انتہا کو پہنچے ہوئے تھے ان کہ زندگی کرامات و معجزوں سے بھر پور تھے۔اللہ تعالی ان سے راضی تھا اور انہیں بیشمار کرامات اور معجزے عطا فرمائے تھے۔ آج کے دورکا انسان بہت خود غرض ہے. آسانیوں کے دنوں میں اللہ کا خوف کس چیز کا نام ہے ہم بالکل بے خبر رہتے ہیں۔ عام زندگی میں ہم امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے ایسے بھاگتے ہیں جیسے یہ حکم ہمارے لئے نہیں ہے۔ جھوٹ بولتےوقت، غیبت، جوری، ملاوٹ، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کرتے وقت، حسد کے جذبے سے مغلوب ہوتے وقت، امانت میں خیانت، اور بدعنوانی کرتے وقت، رشوت لیتے وقت غرض ظلم و زیادتی، خواتین اور چھوٹے بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی درندگی اور قتل کرتے وقت اور نہ جانے کن کن گھناونے خباستوں کے دلدل میں ہمارا معاشرہ پھنسا ہوا ہے ان تمام کار بد کو سرانجام دیتے وقت ہم اور ہمارا معاشرہ ایسے پر اعتماد رہتے ہیں جیسے انسانوں کی طرح نعوذبا اللہ اللہ بھی ہم سے بے خبر ہو۔ یہ وہ تمام بد اعمال ہے جو ہماری پکار اور التجاء کو رب تک پہنچنے سے روکتے ہیں۔ ہمیں اللہ تعالی کے ہر جگہ موجود ہونے اور ہر چیز سے باخبر ہونے کا خیال صرف مشکل وقت میں ہی آتا ہے. لیکن اپنے روزمرہ کے معمولات زندگی سرانجام دیتے وقت ہم اس بات سے بالکل بے خبر رہتے ہیں کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے رب کی نگاہ ہم پر ہے۔ وہ ہماری شہ رگ سے بھی ذیادہ قریب ہے۔ اب کوئی بتائے کہ ایمان کے ایسے میعار میں ہم رب سے یہ کیسے توقع رکھیں کہ وہ ہماری مشکلات اور پریشانیوں کو پل بھر میں غائب کردے۔ کیا ہماری اوقات یا ایمان کا میعار اتنا بلند ہے کہ ہم اللہ پاک کی رحمت کے حقدار بنیں۔
ایمان درحقیت امید اور خوف کی درمیانی کیفیت کا نام ہے کہ ہم اللہ کے خوف سے اپنے کردار کو ہر طرح کے اعمال بدسے بچایئیں رکھیں اور پھر امید یہ کہ مصیبت اور پریشانی کے وقت قرآن و سنت کے مطابق اصول و تدابیر پر عمل کرتے ہوئے اس رب غفور کی کرم و رحمت کے طلب گار ہوں۔ ایسی کیفیت میں اللہ پاک اپنے معجزے دکھاتا ہے اور انسانوں کی انفرادی و اجتماعی تمام مشکلات و مصائب کو اپنے لطف و کرم سے دفع کر دیتا ہے۔
لیکن یہ میرا ایمان ہے کہ اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے ۔
مشکلات اور مصائب ہی ایمان کی چنگاری کو پھر سے روشن کرتے ہیں۔ اور اگر ہم من حیث القوم انفرادی و اجتماعی طور پراپنے اپنے رویوں وکرداروں کا جائزہ لیں اور ان تمام بد اعمال سے توبہ کریں اور اپنے گناہوں کی صدق دل سے معافی مانگے اور ایمان کی جو چنگاری اس وقت خوف خدا سے ہم سب کے دلوں میں پیدا ہوئی ہے اسے کبھی نہ بجھنے دیں تو یقینا پروردگار بڑا کرم کرنے والا غفورالرحیم ہے۔ وہ ہم سب کو درگزر کرے گا۔ اور انشا اللہ ہم سب اور پوری عالم انسانیت بہت جلد اس موزی وبا سے چھٹکارہ پالے گی۔
لیکن پختہ ایمان شرط اول ہے۔ زرا سوچئے گا ضرور۔
حسن آراء ڈگری کالج گلگت میں سوشیالوجی کی اسسٹینٹ پروفیسر ہیں.