Baam-e-Jahan

معاہدۂ کراچی — تاریخ گلگت بلتستان کا ایک سیاہ باب

تحریر: اشفاق احمد ایڈوکیٹ

گلگت بلتستان کی جغرافیائی حدود شمال میں چین کے صوبہ سنکیانگ ،مشرق میں ہندوستان کے زیرانتظام جموںوکشمیر ،جنوب میں پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر اور مغرب میں واخان کی پٹی کے زریعے افغانستان اور وسط ایشیا سے ملتی ہیں۔

دفاعی و جغرافیائی اہمیت کی وجہ سےاس خطے کو ایشیاء کا گیٹ وے بھی کہا جاتا ہےاس لئے یہ علاقہ ماضی میں نو آبادیاتی قوتوں کے درمیان کھیلے جانے والے بازئی بزرگ "گریٹ گیم” کا میدان اور بیرونی تسلط اور جارحیت کا شکار رہا ہے۔.

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان 1846ء سے لیکر 1947 ء تک سابق ڈوگرہ شاہی ریاست جموں و کشمیر اور تاج برطانیہ کی ایک کالونی رہی ہے مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا بھر کی نوآبادیات کو آزادی ملی وہاں گلگت بلتستان میں بھی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں. یکم نومبر 1947کی جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نتیجے میں اس خطے سے ڈوگرہ حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا۔

یہ الگ بات ہے کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان کو گلگت اسکاؤٹس کے انگریز کمانڈنٹ میجر الیگزینڈر براؤن نے بغاوت گلگت کا نام دیا جس کے نتیجے میں 31 اکتوبر 1947 کو گلگت اسکاؤٹس نے مہاراجہ کے گلگت بلتستان میں تعینات گورنر برگیڑئیر گھنسارا سنگھ کے گھر کا محاصرہ کیا اور یکم نومبر 1947 کو گورنر برگیڑئیر گھنسارا سنگھ نے ہتھیار ڈال دیے اور گلگت بلتستان میں آزادی کا اعلان کیا گیا ۔ مگر مقامی قیادت اور ریاستوں کے شخصی حکمرانوں نے اپنے طبقاتی مفادات کی وجہ سے اور میجر براون کے ایما پر پاکستان سے الحاق کیا۔ اور 16 نومبر کو باضابطہ طور پر تمام تر اختیارات پاکستان سے بھیجے گئے پولیٹیکل ایجنٹ محمد عالم کے حوالے کیا گیا، تاکہ گلگت بلتستان کو ہندوستان اور سوویت یونین کی وسط ایشیاء کے راستے ہندوستان تک پہنچنے اورسوشلسٹ اثرات سے بچانے کے لئے ایک بفر کے طور پر استعمال کر سکیں۔ جسے مزید قانونی جواز مہیا کرنے کے لئے 28 اپریل 1949 کو کشمیری قیادت نے معاہدۂ کراچی کے تحت گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول پاکستان کے حوالہ کیا۔

چونکہ یہ ایک قانونی دستاویز ہے اس لیے اس کو سمجھنے کے لئے اس دور کے تاریخی اور معروضی حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے جن کی وجہ سے اس کی ضرورت پڑی ۔

گذشتہ کئی سالوں سے گلگت بلتستان کے وکلاء ، اور سیاسی قائدین و کارکنوں کے درمیان معاہدہ کراچی کے بارے میں ایک قانونی و سیاسی بحث جاری ہے کہ کس طرح کشمیر کے نمائندوں نے گلگت بلتستان کے عوام کی مرضی کے بغیر ان کے مستقبل کا سودا کیا اس لئے سیاسی کارکنوں کی ایک بڑی اکثریت اس معاہدے کو اس خطےکی تاریخ کا ایک سیاہ باب سمجھتی ہے۔.
دوسری طرف یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 22اکتوبر 1947 کو مہاراجہ ہری سنگھ کی ریاست پر قبائلی لشکر کشی کی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر پر پہلی جنگ چھڑ گئی اور قبائلی لشکر نے جن علاقوں پر قبضہ کیا انہیں 24 اکتوبر 1947 کو آزاد جموں و کشمیر کا نام دیا گیا جبکہ اس جنگ کے نتیجے میں مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق نامے پر مشروط طور پر دستخط کیئے تو جواہر لعل نہرو نے اس الحاق نامے کو جواز بنا کر اقوام متحدہ سے رجوع کیا. نتیجتاً اقوام متحدہ نے معاہدہ کراچی سے قبل ہی 13 اگست 1948 کی قرارداد پاس کر کے ریاست جموں و کشمیر بشمول گلگت بلتستان کو متنازع علاقہ قرار دیا تھا۔ ساتھ ہی 29 جولائی 1949 کو پاکستان اور ہندوستان کے فوجی نمائندوں نے کراچی میں ٹروس ایگریمنٹ پر دستخط کئے جس میں سیز فائر لائن کو بیان کیا گیا. اسی دوران سیز فائر لائن کے نتیجے میں باضابطہ طور پر ریاست جموں و کشمیر کے دو ٹکڑے کیے گئے. اس طرح گلگت ایجنسی بشمول بلتستان اور آزاد کشمیر پاکستان کے زیر انتظام آگئے جبکہ ہندوستان نے لداخ ، پونچھ کا ایک حصہ اور بقیہ کشمیر کے سارے حصے پر قبضہ کر لیا۔

مسئلہ کشمیر کی وجہ سے بہتر سال گزرنے کے باوجود یہ علاقہ پاکستان کے آئین میں شامل نہیں کیا گیا نہ ہی اس خطے کو پاکستان کی پارلیمان میں نمائندگی حاصل ہے نہ اس خطے کے عوام کے حقوق کو آئینی تحفظ حاصل ہے. اس لیے عام طور پر یہ علاقہ سر زمین بےآئین کہلاتا ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام اپنی محرومیوں کےذمے دار وفاق پاکستان کے ساتھ کشمیری قیادت کو بھی سمجھتے ہیں چونکہ گلگت بلتستان کے انتظامی کنٹرول کو کشمیری قیادت نے 28 اپریل 1949 کو معاہدہ کراچی کے تحت حکومت پاکستان کے حوالہ کیا تھا چونکہ معاہدہ کراچی میں گلگت بلتستان کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا اس لیے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ یہ دستاویز آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام میں دوری ، نفاق اور عدم اعتماد پیدا کرنے کا باعث بن گیا ۔
گلگت بلتستان میں بنیادی حقوق سے محرومی کے باعث پائی جانے والی اضطرابی صورت حال کے بارے میں انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی ایشیاء کی دو اپریل 2007 کے رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان کی آزادی سے قبل ناردرن ایریاز (گلگت بلتستان) سابق شاہی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھے اور یہ خطہ اس وقت برٹش انڈیا کا ایک اہم سٹریٹجک ناردرن فرنٹیئر کہلاتا تھا۔

پاکستان کے وزیر داخلہ مشتاق احمد گورمانی اور آزاد کشمیر کے رہنماٰ سردار ؐحمد ابراہم کراچی معاہدہ کے دو کردار 28 اپریل 1949 ۔

اگرچہ اس خطے کے عوام نے مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف کامیاب بغاوت کی اور اس دور میں گلگت بلتستان کی آزادی کے سرکردہ شخصیات نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی کوشش کی مگر پاکستان نے اپنی کشمیر پالیسی کے مدنظر پورا زور لگا کر گلگت بلتستان کو متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیا اور مسئلہ کشمیر کے حل سے قبل گلگت بلتستان کو کشمیر سے جدا کرنا ریاست پاکستان کے قومی مفاد کے خلاف قرار دیا۔ حالانکہ ناردرن ایریاز کی طرح آزاد کشمیر کو بھی متنازعہ ریاست جموں اینڈ کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا ہے جس کے بابت پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257 میں لکھا گیا ہے کہ۔
"جب ریاست جموں اینڈ کشمیر کے عوام پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں تو پاکستان اور مذکورہ ریاست کے درمیان تعلقات مذکورہ ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق متعین ہونگے.”

مگر ناردرن ایریاز کے برعکس اسے کم از کم براے نام ہی سہی داخلی خودمختاری اور ایک آئین بھی دیا جبکہ دوسری طرف گلگت بلتستان کو معاہدہ کراچی کی بنیاد پر مختلف ایل ایف اوز اور آرڈرز کے ذریعے چلایا جاتا رہا اور اس خطے کے عوام کو سیاسی اور سول رائٹس سے محروم رکھا گیا۔
معاہدہ کراچی چونکہ ایک قانونی دستاویز ہے اس لیے اس دستاویز کو سمجھنے کے لئے اس دور کے تاریخی اور معروضی حالات کو سمجھنا لازمی ہے جن کی وجہ سے اس دستاویز کی ضرورت پڑی’۔

معاہدہ کراچی پاکستان وآزاد کشمیر کی حکومتوں اور مسلم کانفرنس کے نمائندوں کے درمیان طے پایا اور اس معاہدے کے تحت اختیارات کو دو حکومتوں اور مسلم کانفرنس کے درمیان تقسیم کیا گیا۔

یہ معاہدہ کشمیری قیادت نے اس لئے کیا تھا کیونکہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے تھے. ان کے خیال میں یہ الحاق استصواب رائے کی صورت میں فوری طور پر متوقع تھا، اس لئے اس معاہدے کی رو سے حکومت آزاد کشمیر اور مسلم کانفرنس نے گلگت بلتستان کا مکمل کنٹرول وفاق پاکستان کے حوالے کیا. اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت کشمیر اور گلگت بلتستان میں زمینی رابطہ کمزور تھا. اس لیے گلگت پر پاکستان بذریعہ پشاور یا راولپنڈی آسانی سے کنٹرول کر سکتا تھا اور اس طرح ہندوستان کی اس علاقے پر ممکنہ قبضہ کی کوشش کو روکنا آسان ہو جاتا. چونکہ مہاراجہ ہری سنگھ کے الحاق نامے کی رو سے ہندوستان اس خطے کو اپنا حصہ سمجھتی ہے۔

معاہدہ کراچی کے تحت آزاد کشمیر کا دفاع, ، امور خارجہ اورمواصلات بھی حکومت پاکستان کے حوالے کیا گیا۔
اگرچہ بعد کے ادوار میں آزاد کشمیر کی قیادت نے گلگت بلتستان کو دوبارہ اپنے زیر انتظام لانے کی کئی بار کوششیں کی،: 1972 میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی نے اس بابت ایک قرارداد بھی پاس کی جبکہ آزاد کشمیر کے عبوری دستور 1974 میں بھی گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا۔
اس کے علاوہ آزاد کشمیر ہائی کورٹ نے 1992 میں اپنے تاریخی فیصلہ میں معاہدہ کراچی کو عارضی اور کلعدم قرار دیکر گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کا حصہ قرار دیا تھا اور آزاد کشمیر حکومت کو ناردرن ایریاز کا انتظامی کنٹرول پاکستان سےلینے کا حکم بھی دیا ۔مگر اس فیصلے کو آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے کر ناردرن ایریاز پر پاکستان کے انتظامی کنٹرول کو درست اور قانونی قرار دیا۔

دوسری طرف 19جنوری 2019 کو سول ایوی ایشن اتھارٹی بنام سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان وغیرہ نامی کیس کے فیصلے کے پیراگراف نمبر 14 میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سات رکنی بینچ نے بھی معاہدہ کراچی کے بارے میں لکھا کہ: ” 28 اپریل 1949 کو حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کی رو سے گلگت بلتستان کے تمام امور پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس معاہدے میں گلگت بلتستان کے کسی رہنماء کو شامل نہیں کیا گیا تھا”۔
اس طرح معاہدہ کراچی کے تحت کشمیری قیادت نے گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول پاکستان کے حوالے کیا۔

اس لئے گلگت بلتستان کے قوم پرست معاہدہ کراچی کو گلگت بلتستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب سمجھتے ہیں اور ہر سال 28 اپریل کو معاہدہ کراچی کی مذمت کرتے ہوئے اس سے لاتعلقی کا اظہار ، آزاد کشمیر طرز کا حکومتی ڈھانچےاورے گلگت بلتستان کے لئے بنیادی حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہیں۔.
مختصر یہ کہ اس پس منظر میں معاہدہ کراچی کے متعلق اگر ایک جملے میں یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس نے گلگت بلتستان کی قومی وقار کو اس طرح مجروح کیا جس طرح معاہدہ ورسیلز نے جرمن قوم کے وقار کو مجروح کیا تھا اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کسی بھی علاقے کے عوام کسی ایسے معاہدے کے لئے اپنا خون نہیں بہاتے ہیں جن میں ان کی مرضی و منشا شامل نہیں ہوتی ہے۔


اشفاق احمد چیف کورٹ گلگت بلتستان کے ایڈووکیٹ ہیں اور قراقرم لاء کالج میں وزٹنگ لیکچرر کے طور پر بین الااقوامی قوانین پڑھاتےہیں.ashfaqoneglt@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے