Baam-e-Jahan

گلگت بلتستان کا نظام حکومت اور نیا قانون

تحریر: اشفاق احمد ایڈوکیٹ

تیس اپریل 2020 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی سات رکنی بینچ نے چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں گلگت بلتستان میں نگران حکومت کے قیام اور گلگت بلتستان میں عام انتخابات کے انعقاد کے لئے پاکستان کی وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کی گئی ایک دیوانی متفرق درخواست پر سماعت کے بعد فیصلہ سنایا۔اور حکومت کو ایک عبوری ڈھانچہ بنانے کی اجازت دی لیکن حکومت کے درخواست یعنی منسوخ شدہ آرڈر 2018 ء میں ترمیم کو رد کیا۔

مودی سرکار کی طرف سے اس فیصلے کے اوپر احتجاج کیا گیا۔ ٹائمز آف انڈیا میں 4 اپریل کو شایئع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان نے گلگت بلتستان میں عام انتخابات منعقد کروانے کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے حالیہ فیصلہ پر ردعمل دیتے ہوئے باقاعدہ احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ انڈین منسٹری آف فارن افیئرز نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ "دستاویز الحاق نامہ” کی رو سے پورا جموں وکشمیر اور لداخ بشمول گلگت-بلتستان قانونی طور پر ہندوستان کا لازمی حصہ ہے۔ لہذا سپریم کورٹ آف پاکستان کو گلگت بلتستان کے معاملات پر اختیار سماعت اور مداخلت کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال پانچ اگست کو انڈیا نے اپنے زیر کنٹرول جموں و کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کر کے جموں اینڈ کشمیر Reorganization Bill 2019 کے تحت ان علاقوں کو اپنی یونین ٹریٹریز کا حصہ بنایا ہے’ اور کاغذی کارروائی میں گلگت بلتستان کو بھی للیہ ڈسٹرکٹ میں شامل کیا ہے۔ اس ایکٹ کے پارٹ 2 کے آرٹیکل 3 کے تحت یونین علاقہ لداخ موجودہ ریاست جموں اینڈ کشمیر کے کارگل اور لیہہ ڈسٹرکٹ پر مشتمل ہے جبکہ لیہ ڈسٹرکٹ میں شامل کیے گئے علاقوں میں گلگت ، گلگت وزارت، چلاس، قبائلی علاقے (یاگستان ) بھی شامل ہیں۔.

دوسری طرف انڈین دعویٰ کو بے بنیاد قرار دے کر سختی سے ترید کرتے ہوئے پاکستان کے دفتر خارجہ نے بیان جاری کیا ہےکہ گلگت بلتستان انڈیا کا حصہ نہیں ہے بلکہ متنازع ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔اس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان کے حالیہ فیصلہ کے بعد گلگت بلتستان پر انڈین دعویٰ نے ایک نئی سیاسی و قانونی بحث کو جنم دیا ہے۔

لہذا یہ ضروری ہوگیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو زیر بحث لایا جائے تاکہ اس ساری صورتحال کو سمجھنے میں آسانی ہو چونکہ ہندوستان اور پاکستان کے انگریزی اخبارات میں اس فیصلہ کے بابت یہ لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان گورنینس آرڈر 2018 میں ترمیم کرکے عام انتخابات کے انعقاد کا حکم دیا ہے ، حالانکہ یہ بات حقیقت کے برخلاف اور غلط بیانی پر مبنی ہے۔

دوسری طرف گلگت بلتستان کے اخبارات میں شائع کردہ خبروں میں یہ رپورٹ کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنی سترہ جنوری ٢٠١٩ کے فیصلہ پر عملدرآمد کروانا شروع کیا ہے اور گلگت بلتستان گورننس ریفارمز آرڈر 2019 کے تحت گلگت بلتستان میں عبوری حکومت کے قیام اور عام انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے، مگر اس فیصلہ کا باریکی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو یہ حکم نہیں دیا ہے کہ وہ گلگت بلتستان آرڈر 2019 پر عملدرآمد شروع کرے۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے پیراگراف نمبر 5 میں یہ لکھا ہے کہ گلگت بلتستان ریفارمز آرڈر ٢٠١٩ پر تاحال عملدرآمد کرنا ممکن نہیں ہوا ہے اس لئےہم توقع کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کی تعمیل کرتے ہوئے مذید تاخیر کئے بنا اسی آرڈر کو نافذ کیا جائے گا۔”
گلگت بلتستان حکومت کی مدت معیاد 24 جون 2020 کو پوری ہو رہی ہے جبکہ نگران حکومت کے قیام اور عام انتخابات کے انعقاد کے لئے کوئی ضابطہ موجود نہیں ہے، لہذا قوانین ،رولز و ریگولیشنز کی عدم موجودگی میں آئینی بحران جنم لے سکتا ہے, اٹارنی جنرل نے کورٹ کو بتایا کہ عدالت کے فیصلہ کے بعد ایک نئی صورت حال جنم لے چکی ہے جس کے بعد عدالت کا ایک مناسب حکم درکار ہے۔

چونکہ موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے کے 60 دنوں کے اندر عام انتخابات کا انعقاد قانون کے مطابق ضروری ہے۔
مگر اٹارنی جنرل نے یہ واضح نہیں کیا کہ گلگت بلتستان میں کسی واضح قانون کی عدم موجودگی کے باوجود کس قانون کے تحت ساٹھ دنوں کے اندر عام انتخابات کا انعقاد لاذمی ہے؟

اس لئے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت سے لیگل فریم ورک تیار کرنے کی اجازت طلب کی اور استدعا کیا کہ عدالت اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے پاکستان الیکشن ایکٹ 2017 کو بذریعہ صدارتی حکم نامہ گلگت بلتستان میں adopt کرنے کی اجازت دے اور نگراں حکومت کے قیام کی بھی اجازت دے ، انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سترہ جنوری 2019 کے فیصلہ کے ساتھ دئے گیے مجوزہ گلگت بلتستان گورننس ریفارمز آرڈر ء2019کے آرٹیکل 56 (5) کو دیگر شقوں کے ساتھ نافذ کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ مندرجہ بالا حالات کے تقاضے پورے کئے جا سکے ورنہ آئینی بحران اور قانونی پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔

اس صورت حال میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی حکومت کو پاکستان الیکشن ایکٹ 2017 کو گلگت بلتستان میں adopt کرنے کے لئے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 258 میں لکھا گیا ہے کہ دستور کے تابع، جب تک مجلس شورٰی قانون کے ذریعے بصورت دیگر حکم وضح نہ کرے، صدر فرمان کے ذریعے پاکستان کے کسی ایسے حصے کے امن و امان اور اچھے نظم و نسق کے لئے جو کسی صوبے کا حصہ نہ ہو حکم صادر کر سکے گا۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان گورننس ریفارمز آرڈر 2019 کو گلگت بلتستان میں نافذ کرنے سے قبل ہی ایک دیوانی متفرق درخواست نمبر 4478/2019 کے ذریعے سپریم کورٹ سے مجوزہ آرڈر میں ترمیم کی اجازت طلب کی ہے اور اس آرڈر پر عملدرآمد کرنے کے لئے مذید مہلت طلب کیا ہے ، جس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔

دوسری طرف دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنی 17 جنوری 2019 کے فیصلہ میں گلگت بلتستان گورننس ریفارمز آرڈر 2019 کے آرٹیکل 127 کے تحت گلگت بلتستان آرڈر 2018 کو منسوخ قرار دیا ہے۔آرٹیکل 127(1) میں لکھا گیا ہے کہ: "The government of Gilgit-Baltistan Order 2018, hereinafter in this Article referred to as ؛ The Repeal Order’ together with the orders amending it, is hereby repealed.”

بقول سپریم کورٹ آف پاکستان گلگت بلتستان گورننس ریفارمز آرڑر 2019ء پر تاحال عملدرآمد کرنا ممکن نہیں ہو سکا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں اب تک ارڑر 2018 کے ذریعے سے ہی معملات حکومت چلایا جارہا ہے، حالانکہ گلگت بلتستان ارڑر 2018ء کو مندرجہ بالا آرٹیکل 127کے تحت پہلے ہی منسوخ قرار دیا گیا ہے۔
اس ساری صورتحال پر غور کرنے کے بعد گلگت بلتستان کا ایک عام شہری یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام گذشتہ سات دہائیوں سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ بنیادی انسانی حقوق اور حق حکمرانی سے محروم کیوں ہیں؟

اگر بھارتی دعویٰ کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو گلگت بلتستان کا ایک عام شہری یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ سترہ جنوری ٢٠١٩ کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کے بعد کس قانون کے تحت گلگت بلتستان کا نظام حکومت چلایا رہا ہے ؟

گلگت بلتستان سپریم اپیلٹ کورٹ ، چیف کورٹ کے ججوں اور چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان کا تقرری کس قانون کے تحت عمل میں لایا گیا ؟

ایسی صورت حال میں اگر گلگت بلتستان میں کوئی قانون نافذ العمل ہے تو پھر نگران حکومت کے قیام کے لیے وفاقی حکومت کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کرنے کی نوبت کیوں پیش آئی؟

دلچسپ بات یہ بھی ہے اگر گلگت بلتستان میں کوئی نظام حکومت موجود ہے تو پھر سپریم کورٹ آف پاکستان کی سات رکنی بینچ نے 30 اپریل 2020 کے فیصلہ میں کسی آرڈر مثلاً گلگت بلتستان آرڈر 2018 یا گلگت بلتستان گورننس ریفارمز آرڈر 2019 کے تحت گلگت بلتستان میں الیکشن کروانے کی بجائےایک صدارتی حکم نامہ جاری کرکے نگران حکومت کے قیام اور الیکشن ایکٹ پاکستان 2017 کی گلگت بلتستان میں Adoption کا حکم کیوں دیا؟

حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ لکھتے ہوئے حکم جاری کیا ہے کہ اٹارنی جنرل کی تجویز پر کسی بھی فریق نے کوئی اعتراض نہیں کیا ۔
اس لئے تمام اسٹیک ہولڈرز جن میں سے کچھ عدالت میں حاضر ہیں ان کی مرضی و منشا کے مطابق عدالت یہ حکم دیتی ہے کہ وفاقی حکومت الیکشن ایکٹ 2017 کو جو پاکستان میں نافذ العمل ہے اس سے گلگت بلتستان کے علاقے میں Adopt کرنے کے لئے ایک صدارتی حکم نامہ جاری کرے، اور ایک غیر جانبدار نگران حکومت کا قیام عمل میں لا کر صاف شفاف انتخابات منعقد کروایا جائے جوکہ اس کورٹ کے سترہ جنوری ٢٠١٩ کے فیصلہ کے تحت مجوزہ گلگت بلتستان گورننس ریفارمز آرڈر 2019کے آرٹیکل 56(5) کے معیار اور دیے گئے شڈول میں شامل تمام دفعات کے مطابق ہوں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلہ پر گلگت بلتستان کے معروف قانونی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ نے گلگت بلتستان کے عوام کو ایک بار پھر بے یقینی کی کیفیت میں ڈال دیا ہے۔

کیونکہ مذکورہ فیصلہ میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے نہ ہی اپنے صادر کئے گئے سترہ جنوری 2019 کے فیصلہ میں دیے گئے گورننس آرڈر پر عملدرآمد کا حکم دیا ہے اور نہ ہی گلگت بلتستان آرڑر 2018ء پر عملدرآمد کا حکم صادر کیا ہے بلکہ یہ طے کیے بغیر کہ اس وقت گلگت بلتستان میں نظام حکومت کس قانون کے تحت چل رہا ہے, سپریم کورٹ آف پاکستان نے خود سے وفاقی حکومت کو ایک صدارتی حکم نامہ جاری کرکے گلگت بلتستان میں نگران حکومت کا قیام اور عام انتخابات کے انعقاد کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔
ان تمام قانونی حقائق کی روشنی میں یہ بات بلکل واضح ہو جاتی ہے کہ سترہ جنوری 2019 کے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کے بعد وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے حکم کے بغیر اپنی طرف سے کسی حکم نامے کے تحت گلگت بلتستان کا نظام حکومت نہیں چلا سکتی ہے تو اسی صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سترہ جنوری 2019 کے فیصلہ کے برعکس وفاقی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان میں آئینی عہدوں پر تعیناتیاں کس قانون کے تحت کی گئی ؟ اور گلگت بلتستان کا نظام حکومت کیسے ایک منسوخ شدہ ارڑر کے تحت چلایا جا رہا ہے ؟
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کے بابت وفاقی حکومت سے جواب طلب کرنے کی بجائے سپریم کورٹ آف پاکستان نے محض تمام اسٹیک ہولڈرز کی مرضی کے مطابق فیصلہ کیوں صادر کیا؟ کیا اس طرح انصاف کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں؟
تاریخ میں جب بھی اس فیصلہ کی میرٹ پر قانونی بحث ہوگی تو یہ سوال ضرور زیر بحث آئے گا،۔
لہذا گلگت بلتستان کے عوام کو سعادت حسن منٹو کے مشہور افسانہ نیا قانون کے کردار منگو کوچوان کی طرح کسی غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی بجائے اب اس تلخ حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا ١٩٩٩ کا فیصلہ ہو یا ٢٠١٩ کا فیصلہ ہمارے ہاں تو قانون وہی پرانا ہی چل رہا ہے۔


اشفاق احمد چیف کورٹ کے ایڈووکیٹ ہیں اور ایک مقامی کالج میں بین الا لقوامی قوانین پر لیکچر دیتے ہیں۔ وہ بام جہان میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے