علاقے میں کشیدگی۔پیرا ملٹری فروسز کا گشت؛ وزیر اعلی نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینے اور مجرموں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم
بام جہان سپیشل رپورٹر
گلگت کے پر فضا وادی نلتر کل سوگ میں ڈوب گیا جب دو روشن چراغوں کو مسلح افراد نے گل کر دیا۔ دو پڑھے لکھے نوجوان جو اس خوبصورت مگر پسماندہ وادی کی خوشحال مسقبل اور ترقی کے ضامن ہو سکتے تھے، نفرت اور عدم برداشت کی بھینٹ چڑ گئے۔ اس افسوسناک واقعہ کے پیچھے کیا محرکات تھے اور کون سی قوتیں تھیں یہ تو تحقیقات کے بعد معلوم ہوگا۔ لیکن اس واقعہ نے پورے علاقے اور پاکستان میں جو بھی لوگ ان نوجوانوں کو جانتے تھے ان میں غم و غصہ اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہےاور وہ فرجاد اور سلیم کے خاندانوں کے لئے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں.
پولیس کے مطابق یہ سانحہ نوجوانوں کے دو گروپوں کے درمیان معمولی تلخ کلامی اور بعد میں خونریز تصادم کے نتیجے میں رونما ہوا۔
پیر کے روز نلتر میں فائرنگ سے جان بحق ہونے والے دو نوں اسکئینگ کے کھلاڑیوں فرجاد حسین اور ان کے کزن سلیم عباس کی نماز جنازہ نومل میں ادا کی گئی اور تدفین ان کے آبائی گاؤں نلتر پائین میں ہوئ۔
پولیس ذرائع کے مطانق فرجاد اور ان کے چچا زاد بھائی اور دوستوں کے ساتھ پیر کی رات نلتر بالا میں عید کی چھٹیاں منانے نلتر جھیل کی طرف جارہے تھے۔ اس دوران نلتر بالا کی ایک دوکان پر خریداری کیلئے رک گئے تو وہاں چند لڑکوں نے مبینہ طور پر ٹیپ ریکارڈر کی آواز کم کرانے ک کے اوپر تلخ کلامی اور تصادم ہو گئی ۔ دونوں جانب سے پتھراؤ اور فائرنگ کے نتیجے میں فرجاد اور سلیم کو گولیاں لگیں۔ فرجاد موقع پر دم توڑ گئے اور سلیم کو شدید زخم حالت میں گلگت پی ایچ سی ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔
اس کے نتیجے میں علاقے میں کشیدگی پھیل گئی ہے۔
جہاں یہ واقعہ پیش آیا سامنے پولیس چوکی ہے اس واقعہ کے بعد پیراملٹری فورسز نے علاقے کا گھیراؤ کرکے حالات کو قابو کرلیا ہے اور دوہرے قتل کے الزام میں 20 مشتبہ افراد کو گرفتار کرکے تفتیش شروع کردی ہے۔ علاقے میں کشیدگی کے پیش نظر نلتر کے علاقے میں پولیس کی نفری بڑھادی گئی ہے
اسی اثنا میں وزیراعلی حفیظ الرحٰمن نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ محمد علی رندھاوا کو ہدایت دی ہے کہ وہ مختلیف ایجنسیوں کے مایرین پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے اور ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرکے تفتیش کیا جاہئے۔
اس واقعہ پر تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور تمام مسالک کے لوگوں کو پرامن رہنے کی اپیل کی ہے.
اس واقعہ کے خلاف سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔کچھ صارفیین اسے زمین پر قبضہ کے مسئلے سے جوڑ رہے ہیں۔ کچھ صارفین کا خیال ہے کہ ایک دفعہ پھر گلگت بلستان کے پر امن ٖماحول کو خراب کرنے اور فرقہ واریت پھیلانے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔
فرجاد حسین لاہور میں تعلیم حاصیل کرنے کے ساتھ ساتھ "ممتو ڈی ہنزہ” کے نام سے فاسٹ فوڈ کا کاروبار کرتے تھے.. وہ نلتر کے دیگر نوجوانوں کی طرح اسکیئنگ کے شوقین اور کھلاڑی بھی تھے وہ گلگت بلتستان کے طلباء اور نوجوانوں کو مدد دیتے تھے۔ وہ نلتر بالا میں لینڈ مافیا کی جانب سے مقامی پشتنی باشندوں کے شاملاتی زمنیوں پر قبضہ کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں شامل تھے. وہ ایک ترقی پسند نوجوان تھے جو لوگوں کو ان کے حقوق کے بارے میں شعور دیتے اور ان کو منظم کرنے اور آپس میں روا داری پیدا کرنے کی کوشیش کرتے تھے۔ شائد یہ ان کا جرم بن گیا.
مختلف حلقوں کی جانب سے پرزور مطالبہ کا جا رہا ہے کہ ان نوجوانوں کے قاتلوں کو فوراً کرفتار کر کے قرار واقعی سزا دیا جاۓ تاکہ شہر کا امن خراب نہ ہو۔۔
لاہور کے ایک یونیورسٹٰی کے طالب علم اور سماجی کارکن حیدر علی نے اپنے فیس بک پیج پہ لکھا ہے کہ "فرجاد حسین ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لئے بھائی کی طرح تھے۔ میرے لئے ان کی موت صدمے سے کم نہیں۔ وہ ایماندار اور محنتی تھا اور جب کسی کو کوئی مالی پریشانی ہوتی تھی تو وہ ہمیشہ مدد کے لئے موجود رہتا تھا۔ وہ ایک بہادر انسان تھے جو چند سالوں سے نلتر میں لینڈ مافیا کے خلاف مزاحمت کر رہا تھا اور صبح سے رات دیر تک کام کر کے لوگوں کو منظم کرتا تھا.
ایک صارف نے لکھا ہے کہ گلگت بلتستان میں اپنی سرزمین کے حقوق کی جنگ لڑنے والے نوجوانوں کو کھونے کا سلسلہ جاری ہے۔ فرجاد گلگت بلتستان کی وادی نلتر میں زمینوں پر غیر قانونی قبضوں کے خلاف مزاحمت کا ایک بہادر کارکن تھے۔