Baam-e-Jahan

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس مسترد، سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی رکوانے کی درخواست منظور

فیصلے سے حکومتی حلقوں میں مایوسی جب کہ وکلا کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے فیصلے سے جسٹس عیسیٰ سرخرو ضرور ہوئے ہیں لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔

بام جہان رپورٹ

 

اسلام آباد

پاکستان کے اعلٰی ترین عدالت نے حکومت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کو کا لعدم قرار دیا. سپریم کورٹ کی 10 رکنی بینچ نے صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں پر جمعہ کی صبح جسٹس عیسٰ کے وکیل منیر اے ملک کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے شام چار بجے سنایا گیا۔

اپنے مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ کے فُل بینچ نے جسٹس عیسٰی کے خلاف صدارتی ریفرنس مسترد کیا اور ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کائونسل کی طرف سے جارہ کردہ شو کاز نوٹس بھی ختم کردیا۔
صدارتی ریفرنس مسترد کرنے کا فیصلہ بینچ نے اکثریت سے کیا۔ دس رکنی بینچ کی سربراہی جسٹس عطا بندیال کر رہے تھے۔
تاہم بینچ کے سات ارکان نے انکم ٹیکس کے ادارے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ اب وہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرے اور اگلے ساٹھ دن کے اندر اپنی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے۔
حکم میں کہا گیا کہ اگر تحقیقات میں جسٹس عیسی کے خلاف کوئی چیز ملتی ہے تو سپریم جوڈیشل کونسل اس کا از خود نوٹس لے کر کارروائی کر سکتی ہے۔

آج صبح سرکاری وکیل نے عدالت کے سامنے پیش ہوکرایف بی آر کی طرف سے جواب سر بمہر لفافے میں عدالت میں جمع کرادیں جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ جج ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لیتے اور نہ ہی کوئی آرڈر پاس کریں گے کیونکہ درخواست گزار کی اہلیہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لا چکی ہیں۔جس میں جسٹس عیسٰی کی اہلیہ نے شکایت کی تھی کہ انہوں نے اپنے ٹیکس گوشواروں میں اپنی جائیدادیں ظاہر کی تھیں لیکن پھر بھی ایف بی آرنے انہیں نوٹس جاری کیا۔

صدارتی ریفرنس مسترد کرنے کا فیصلہ تو بینچ نے نو کے مقابلے میں ایک کی اکثریت کے ساتھ دیا تاہم بینچ کے سات ارکان نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ ایف بی آر آئندہ دو ماہ میں ٹیکس کے معاملے کی تحقیقات مکمل کرے اور اس کی رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی جائے۔

جن ججز نے یہ معاملہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ان میں بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس منیب اختر، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس مظہر عالم، جسٹس قاضی امین، جسٹس منظور احمد ملک اور جسٹس فیصل عرب شامل ہیں۔

اس معاملے کو ایف بی آر میں بھیجنے سے جن تین ججز نے اختلاف کیا ان میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰ آفریدی شامل ہیں۔

اس مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر اس معاملے میں درخواست گزار کے اہلخانہ کو سات روز میں نوٹس جاری کرے اور ان سے لندن میں جائیداد کے بارے میں تفیصلات اور آمدن کے ذرائع بھی پوچھے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر 60 دن میں کارروائی مکمل کرے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اس سے قبل اگر ایف بی آر کی طرف سے کوئی نوٹس جاری کیا گیا ہے تو اسے کالعدم سمجھا جائے۔

اس کے علاوہ عدالت نے کہا ہے کہ کارروائی مکمل کرنے کے بعد ایف بی آر کے چیئرمین 75 دن میں رپورٹ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو جمع کرائیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر سو دن تک ایف بی آر کی طرف سے رپورٹ نہ آئی تو سپریم کورٹ کے رجسٹرار محکمے سے جواب مانگیں اور ایف بی آر کے چیئرمین کو اس حوالے سے وضاحت دینا ہوگی۔

فل بینچ کی جانب سے جو ریفرنس مسترد کیا گیا ہے اس میں جسٹس عیسیٰ پر اپنے خاندان کے برطانیہ میں موجود اثاثے چھپانے کا الزام عائد کرتے ہوئے انھیں ضابطہ کار کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا گیا تھا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے اس ریفرنس پر جسٹس عیسی کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کیا تھا جسے جسٹس عیسٰی نے سپریم کورٹ میں چیلینج کر دیا تھا۔

جسٹس عیسٰی کی اہلیہ نے جمعرات کو سپریم کورٹ کے فل بینچ کے سامنے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے ان جائیدادوں سے جسٹس عیسٰی کے کسی بھی تعلق کا انکار کیا تھا جس پر بینچ کے ارکان نے کہا تھا کہ وہ اس وضاحت سے مطمئن ہیں۔

بعدازاں منیر اے ملک نے جمعے کو اپنے جواب الجواب میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل نے کبھی بھی اپنی اہلیہ کی جائیداد کو خود سے منسوب نہیں کیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ان درخواستوں میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں برطانوی جج جسٹس جبرالٹر کی اہلیہ کے خط اور ان کی برطرفی کا حوالہ دیا اور حقیقت یہ ہے کہ جسٹس جبرالٹر نے خود کو اہلیہ کی مہم کے ساتھ منسلک کیا تھا۔

منیر اے ملک نے کہا کہ ان درخواستوں میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے اپنے دلائل میں یہ کہا کہ ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے اور ان کے دلائل سے سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا؟

اُنھوں نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں انکم ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی اور منی لانڈرنگ کا ذکر ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ان درخواستوں میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے وکیل بدقسمتی سے غلط بس میں سوار ہو گئے ہیں۔اُنھوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو ایف بی آر میں لے جانے کی بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آ گئی۔

اُنھوں نے کہا کہ ایف بی آر اپنا کام کرے اور درخواست گزار نے اس میں کبھی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔

منیر اے ملک نے کہا کہ جسٹس عیسی نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا اور درخواست گزار چاہتے ہیں کہ عدلیہ ان کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے۔

اُنھوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔

منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف صدارتی ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے اور ‏سپریم جوڈیشل کونسل نے بدنیتی کے معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ توقع ہے کہ اُنھیں سپریم جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنی پڑے گی۔

منیر اے ملک نے کہا کہ اے آر یو کا قیام قانون کے خلاف ہے اور وزیر اعظم کو کوئی نیا ادارہ یا ایجنسی بنانے کا اختیار نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی تشکیل کے لیے رولز میں ترمیم ضروری تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سے ‏باضابطہ قانون سازی کے بغیر اثاثہ جات ریکوری یونٹ جیسا ادارہ نہیں بنایا جا سکتا۔

بینچ میں موجود جسٹس آفریدی نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے ان کے موکل کو ملنے والے شوکاز نوٹس کے جواب کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیوں کیا گیا جس پر درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ ‏جو ریلیف جسٹس عیسی کو چاہیے وہ سپریم جوڈیشل کونسل نہیں دے سکتی,

اُنھوں نے کہا کہ ‏لندن میں جائیدادوں کی تلاش کے لیے ویب سائٹ استعمال کی گئی جس کے لیے کسی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ انھوں نے کہا کہ اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے کے لیے ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ ان لائن ادائیگی کی رسید ویب سائٹ متعلقہ فرد کو ای میل کرتی ہے ۔

منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ ‏ضیاالمصطفی نے ہائی کمیشن سے جسٹس عیسی کی اہلیہ کی تصدیق شدہ جائیداد کی تین نقول حاصل کیں۔ اُنھوں نے کہا کہ لندن میں جن سیاسی شخصیات کی سرچ کی گئی اس کی رسیدیں بھی ساتھ لگائی ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت رسیدیں دے تو سامنے آ جائے گا کہ ان کے موکل کی اہلیہ کی جائیدادیں کس نے تلاش کیں۔

اُنھوں نے کہا کہ شکایت کنندہ وحید ڈوگر نے تو ایک جائیداد کا بتایا تھا اور اگر ان کے موکل کی اہلیہ کی جائیداد کی سرچ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے کیں تو وہ رسیدیں دے۔

اس پر بینچ میں موجود جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ آے آر یو نے بظاہر صرف سہولت کاری کا کام کیا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ وفاق کے وکیل کہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کے فیصلے پر ایکشن لینا ہوتا تو دونوں ججوں کے خلاف لیتے۔ اُنھوں نے کہا کہ حکومت صرف فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ لکھنے والے جج کو ہٹانا چاہتی ہے اور یہ فیصلہ ان کے موکل نے لکھا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ درخواست گزار کی اہلیہ نے لندن میں ان جائیدادوں سے متعلق منی ٹریل سے متعلق دستاویز جمع کروا دی ہیں اور اس کے علاوہ زرعی زمین کی دستاویزات اور پاسپورٹ کی نقول بھی جمع کروائی پیں۔

منیر اے ملک نے کہا کہ پاکستان سے باہر گئے پیسے کو واپس لانے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس نے کہا تھا کہ آمدن اور اثاثوں کے فارم میں کئی ابہام ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‏الزام عائد کیا گیا کہ ان کے موکل نے جان بوجھ کر جائیدادیں چھپائیں جبکہ کمیٹی کہتی ہے غیرملکی اثاثے ظاہر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابہام ہے۔

جسٹس بندیال نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا موقف تھا کہ ریفرنس سے پہلے جج کی اہلیہ سے دستاویز لی جائیں۔ اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ سماعت کے بعد آپ کے موقف کو تقویت ملتی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے اپنے دلائل میں یہ سوال اٹھایا کہ کیا ہم ایسا قانون چاہتے ہیں کہ ایک ادارہ دوسرے کی جاسوسی کرے۔؟

منیر اے ملک کے جواب الجواب پر دلائل مکمل ہونے کے بعد سندھ بار کونسل کے وکیل سینیٹر رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر دیا گیا کہ آے ار یو لیگل فورس ہے اور حکومت کے مطابق وزیراعظم ادارہ بنا سکتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔

اُنھوں نے کہا ‏قواعد میں جن ایجنسیوں کا ذکر ہے وہ پہلے سے قائم شدہ ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ جتنی بھی ایجنسیاں موجود ہیں ان کو قانون کی مدد بھی حاصل ہے۔

رضا ربانی نے کہا کہ اے آر یو یونٹ کو لامحدود اختیارات دیے گئے جبکہ ‏اے آر یو کے لیے قانون سازی نہیں کی گئی۔

‏سپریم کورٹ نے دلائل مکمل ہونے کے بعد درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ اس بارے میں بینچ کے ارکان شام چار بجے اکٹھے ہوں گے اور اگر ججوں کا کسی ایک معاملے پر اتفاق ہوا تو اس بارے میں مختصر فیصلہ سنایا جائے گا۔

سماعت ختم ہونے کے بعد جسٹس آفریدی نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ جسٹس فائز عیسی سپریم کورٹ آئے اور کیا انھوں نے بنیادی حق استعمال کر کے اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اُنھوں نے کہا کہ کیا اس طرح جسٹس عیسٰی کا عدالت آنا ضابطۂ اخلاق کے منافی نہیں. جس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ اس بات کا انحصار اس پر ہے جج صاحب اپنی ذات کے لیے آئے تھے یا عدلیہ کے لیے۔

اُنھوں نے کہا کہ ‘آج قاضی فائز عیسی کے خلاف ریفرنس دائر ہے تو کل نجانے کس کے خلاف ہو‘۔
منیر اے ملک نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل کے خلاف ریفرنس اس لیے دائر کیا گیا کیونکہ انہوں نے فیض آباد دھرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت اس کیس کو کسی ایک شخص کے خلاف مقدمہ نہ سمجھے۔

معروف قانون دان حامد خان نے اسلامی حوالے سے دلائل دیے کہ ایک عورت جائیدادیں رکھ سکتی ہے۔ سینئر قانون دان افتخار گیلانی نے بار ایسویشنز کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا .

مقدمے کا پس منظر
حکومت نے گزشتہ برس مئی میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ایک ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا تھا۔ یہ ریفرنس صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی طرف سے بھیجا گیا تھا، جس میں یہ الزام عائد کیا گیا کہ فاضل جج نے دوہزار گیارہ اور پندرہ کے دوران اپنی بیوی اور بچوں کے نام لندن میں تین جائیدادیں لیز پر حاصل کیں، جس کو انہوں نے اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔
جسٹس عیسٰی نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان جائیدادوں کے بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر بینیفشل آونر نہیں ہیں۔ جسٹس عیسٰی نے ریفرنس کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ اپنی پٹیشن میں انہوں نے بیان کیا کہ طاقتور ریاستی عناصر کسی بھی صورت میں ان کو ان کے آئینی عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ ان کا موقف تھا کہ صدر علوی نے ریفرنس دائر کرنے سے پہلے اپنی آزادانہ رائے قائم نہیں کی۔
پٹیشن میں استدعا کی گئی تھی کہ خفیہ ایجنسیوں ،بشمول ایف آئی اے، نے فاضل جج اور ان کے گھرانے کے بارے میں خفیہ طور پر معلومات اکھٹی کیں، جو آئین کی شق چار اور چودہ کی خلاف ورزی ہے کیونکہ نہ تو درخواست گزار اور اس کے گھرانے کو اس تفتیش کے حوالے سے اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی انہیں کوئی موقع فراہم کیا گیا کہ وہ کسی بھی الزام کی وضاحت کر سکیں۔
جسٹس عیسٰی نے پٹیشن میں استدعا کی تھی کہ حکومت کا ایسٹ ریکوری یونٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس محکمے کو ان کے گھرانے کی جائیدادوں کی تفتیش کے لیے تشکیل دیا گیا، اس لیے اس کیس کے حوالے سے اس محکمے نے جو بھی کام کیا اسے غیر قانونی قرار دیا جائے۔
–اضافی رپورٹنگ کے ساتھ بی بی سی، ڈی دبلیو اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے