Baam-e-Jahan

نوم چومسکی کی تنبیہ

نجم سیٹھی

عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی عدم مساوات اور غربت کے تباہ کن نتائج کے بارے میں تھامس پیکٹی، جوزف سٹیگلز اور دیگر دانشوروں کی ایک عشرے پر محیط تھیوریاں وہ نکتہ نہیں سمجھا سکیں جو کوویڈ19نے گزشتہ چند ایک ماہ میں سمجھا دیا ہے۔ غریب ترین قوموں، طبقوں اور نسلوں کو اس عالمی وبا نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ صحت کی بہترین سہولیات، سماجی تحفظ اورقومی بجٹ رکھنے والے سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم اوروسائل کے ارتکاز کی خامیوں کی نشاندہی اس سے زیادہ کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اس نظام کوگزشتہ 150 برسوں کی بدترین معاشی گراوٹ کا سامنا ہے۔ آج دور جدید کے امن پسندوں کا استدلال کہ ہتھیاروں کی بجائے خوراک چاہیے، قومی سلامتی کے نام پر لڑی جانے والی جنگوں کی اہمیت جتاتے ہوئے مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

دورِحاضر کے عظیم ترین مفکر،نوم چومسکی کے مطابق کوویڈ 19 کے بعد بچاؤ اور بحالی کی دنیا کے نظام کا دارومدار سرمایہ دارانہ طاقتوں کے انسانیت کو درپیش سب سے بڑے مسلے سے نمٹنے کی صلاحیت یا خواہش پر ہوگا۔ یہ مسلہ عدم مساوات ہے۔ یہ پیغام عوام کے تخلیل کے کس قدر قریب ہے، اس کی تصدیق دنیا کے دارالحکومتوں میں نسل، جنس، طبقے، علاقے اور دولت کی تفریق کی بنیاد پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے ہوجاتی ہے۔

پاکستان میں ہمیں ایک نالائق، نااہل، منافق اور مغرور حکومت نے خطرے میں ڈال دیا ہے۔ قہر یہ ہے کہ اس حکومت کو ریاست کے بے حس اور جاہ طلب اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ نااہلی کوویڈ 19 سے نمٹنے کے لیے موثر قومی پالیسی بنانے سے قاصر ہے۔ گزشتہ فروری میں وبا پھیلنے کے بعد سے اب تک چار اذیت ناک مہینوں میں متاثر ہ اور جاں بحق ہونے والے افرادکی تعداد میں اضافہ ہوا۔ بے روزگاری بڑھی، طبی سہولیات اور جان بچانے والی ادویات میں شدید کمی واقع ہوئی لیکن بے حس نرگسیت پر انسانی المیے کا کچھ اثر نہیں ہوا۔

وزیرِاعظم عمران خان مکمل لاک ڈاؤن، نیم لاک ڈاؤن، سلیکٹڈ لاک ڈاؤن اور سمارٹ لاک ڈاؤن کے درمیان قلابازیاں کھاتے، یوٹرن لیتے رہے۔ گاہے طبیعت موج پر ہو تو ”لاک ڈاؤن نہیں کروں گا“ کا نعرہ بھی بلند کرتے ہیں۔ ہر دو کے درمیان غریب اور متاثرہ طبقے کی مشکلات کم کرنے کے لیے بجٹ پر ریلیف دینے کی خوش خبری بھی سناتے ہیں۔

وزیرِاعظم کے اپنے اعتراف کے مطابق فی الحال کوویڈ 19 سے متاثرہ افراد میں احساس یا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے 200 ارب روپے سے زیادہ تقسیم نہیں کیے جاسکے۔ 2020-21 ء کے بجٹ میں اس مقصد کے لیے صرف 70 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ درحقیقت وفاق نے صوبوں کو صحت کی مد میں وسائل فراہم کردیے ہیں لیکن یہ اُن کی نااہلی ہے کہ وہ اس میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کرسکے ہیں۔ اس پر قہر یہ ہے کہ مصنوعی قلت پیدا کرکے چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا۔ اس طرح حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے غریب عوام کو دیا گیا ریلیف دوسرے ہاتھ واپس لے لیا گیا ہے۔

اس دوران قومی سلامتی کے نام پر بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کے دباؤنے غریب اور بے روزگار افراد کی کمر توڑ دی ہے۔ اس کا اظہار قومی بجٹ میں دکھائی دینے والے غیر معمولی اخراجات، پھیلتے ہوئے مالیاتی خسارے اور بڑھتے ہوئے ادائیگیوں کے بحران سے ہوتا ہے۔ یہ تمام خسارے کل ملا کر 2000 ا رب روپے بنتے ہیں جو کل محصولات، 5000 ارب روپے کا چالیس فیصد ہیں۔ اندرونی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی، این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو رقوم کی فراہمی اور ترقیاتی منصوبوں اور انتظامیہ کو چلانے کے لیے مرکزی حکومت کو مزید قرض لیناپڑے گا۔

یہ شیطانی چکر جاری ہے۔ 2008 ء میں قومی قرضہ 6500 ارب روپے تھا۔ پی پی پی کے دورِحکومت میں 2013 ء تک قرضہ 13000 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت میں 2018ء تک یہ 24000 ارب ہوگیا۔ اب صرف دوسال کے اندر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران یہ قرضہ 42000 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ اس دوران خسارے میں چلنے والی ریاستی انٹرپرائز کو دیے جانے والے امدادی پیکج پر 2000 ارب روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت ابھی تک ان اداروں کی نج کاری کرنے یا ان سفید ہاتھیوں کو پالنے پر کوئی واضح پالیسی بنانے سے قاصر ہے۔

قرضہ بذات خود کوئی بری چیز نہیں۔بلکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی پیدوار کو بڑھاتا ہے۔ لیکن اس کے لیے قرض کو پیداواری مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے تاکہ کل قومی پیداوار میں اضافہ کیا جاسکے۔بدقسمتی سے پاکستان میں لیا جانے والا قرضہ غیر پیدواری ترجیحات، بے کار منصوبوں اور بدعنوانی کی نذر ہوجاتاہے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ مستقبل میں معاشی ترقی کے امکانات منفی میں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں بمشکل اپنا بچاؤ کرنے کے لیے مزید قرضوں، غربت اورعدم مساوات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

کوویڈ 19سے پیدا ہونے والے حالات میں پاکستان کے لیے واضح سبق موجود ہے۔ ریاست اور معاشرے کی حکمران اشرافیہ کے لیے لازمی ہوچکا ہے کہ وہ سول سوسائٹی پر سے اپنی گرفت ڈھیلی کرے اور قوم کو سانس لینے اورترقی کرنے کا موقع دے۔ قرض لینے، خرچ کرنے اور بجٹ بنانے کی ترجیحات میں انقلابی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر عوام ناخواندہ، بے روزگار، پریشان اور احساس محرومی کا شکار ہونے کی وجہ سے کورونا وبا سے بچنے کے لیے ایس اوپیز پر عمل کرنے سے قاصرہیں تو اُنہیں موردِالزام ٹھہرانا ریاست اور حکومت کی مجرمانہ سرگرمی کے زمرے میں آتاہے۔ اگر ترجیحات تبدیل نہ کیں تو پھر جیسا کہ نوم چومسکی ہمیں یاد دلاتے ہیں، ڈنڈا بردار کسانوں کے بڑھتے ہوئے سیل رواں کا انتظار کریں۔ یہ مضمون پہلے دی فرائڈے ٹائمز میں شائع ہویا تھا

اپنا تبصرہ بھیجیں