Baam-e-Jahan

گلگت بلتستان کے سابق گورنر اور سیاستداں پیر کرم علی شاہ کا انتقال

رپورٹ: اسرارالدین اسرار

گلگت بلتستان کے بزرگ سیاستدان اور قد آور شخصیت سابق گورنر پیر سید کرم علی شاہ صاحب کا منگل کے روز 86 سال کی عمر میں تین دنوں کی مختصر علالت کے بعد اسلام آباد کےایک نجی ہسپتال میں انتقال ہوگیا. ان کی تدفین بدھ کے روز ان کے آبائی گاؤں چٹورکھنڈ میں ہوگی ۔

انہوں نے پسماندگان میں دو بیویاں، چار بیٹیاں اور تین بیٹے اور سینکڑ وں مرید اور سیاسی کارکنوں کو سوگوار چھوڑا ہے.

پیر سید کرم علی شاہ صاحب کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے گاٶں چٹور کھنڈ اشکومن سے تھا۔ آپ ایک معتبر مذہبی راہنما ہونے کے علاوہ گلگت بلتستان کے سنجیدہ اور منجھے ہوۓ سیاستدان مانے جاتے تھے۔

پیر کرم علی شاہ گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی راہنماؤں میں سے تھے اور 1994 کے بعد ایک عرصہ تک آپ اس پارٹی کے گلگت بلتستان کے صوبائی صدر کے عہدہ پر بھی فائض رہے۔ آپ نے گلگت بلتستان اسمبلی کا حلقہ 19 غذر 1 میں 1970ء سے 2009 تک ہر انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوتے رہے. یوں آپ چالیس سالوں تک اپنے حلقہ انتخاب سے پہلے گلگت بلتستان مشاورتی کونسل، گلگت بلتستان کونسل ،گلگت بلتستان قانون ساز کونسل، گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اور آخر میں گلگت بلتستان اسمبلی کے رکن رہے۔

راقم پیر سید کرم علی شاہ صاحب (مرحوم ) کو گورنر ہاٶس گلگت بلتستان میں اپنی کتاب ملنگِ سمٹرہ کی ایک کاپی پیش کررہا ہے۔ آپ اُس وقت گورنر گلگت بلتستان کے عہدہ پر فائض تھے ۔۔

آپ گلگت بلتستان قانون ساز کونسل کے رکن کی حثیت سے 1994ء کو پی پی پی کے دورحکومت میں ڈپٹی چیف ایگزیکٹو گلگت بلتستان منتخب ہوۓ .پھر 2009ء میں پی پی پی کے دورحکومت میں ہی آپ رکن گلگت بلتستان اسمبلی منتخب ہونے کے دو سال بعد 26 جنوری 2011ء کو گلگت بلتستان کے گورنر مقرر ہوۓ ۔ گورنر مقرر ہونے کے بعد آپ اپنی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہوۓ۔ گلگت بلتستان کی گورنر شپ آپ کے سیاسی زندگی کا آخری عہدہ تھا۔ گلگت بلتستان میں پی پی پی کی حکومت کے جانے کے ساتھ ہی 16 فروری 2015ء کو آپ گورنر کے عہدہ سے سبکدوش اور انتخابی سیاست سے دستبردار ہوۓ۔

پیر صاحب گلگت بلتستان میں ایک بردبار، با اخلاق ، سنجیدہ اور منجھے ہوۓ سیاستدان کے علاوہ امن کے سفیراور اتحاد بین المسلمین کے داعی کے طور پر اپنی پہچان رکھتے تھے۔آپ کے بدترین مخالفین بھی آپ سے مل کر فرحت محسوس کرتے تھے۔ وہ نہ صرف سیاسی تنقید برداشت کرتے تھے بلکہ جہاں موقع ملا وہاں اپنے سیاسی مخالفین کو گلے لگاتے تھے۔ آپ نے اپنے سیاسی مخالفین کو کھبی بھی برے الفاظ میں یاد نہیں کیا۔ پیر صاحب ساری زندگی درگزر اور معافی کی صرف زبانی تبلیغ نہیں بلکہ عملی مظاہرہ کرتے رہے۔ اسلیئے گلگت بلتستان کے تمام مکاتب فکر اور سیاسی نظریات کے لوگ ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور عزت اور احترام سے پیش آتے تھے۔

اپنے پورے سیاسی زندگی کے دوران ان پر معاشی یا کسی بھی طرح کے کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگا تاہم ان کے مسلسل انتخابات میں آنے اور رکن اسمبلی منتخب ہونے پر ان کے سیاسی ناقدین ان سے نالاں ضرور تھے مگر یہ شکایت ان کے گورنر کا عہدہ سنھبالنے کے بعد دور ہوگئی۔ یوں ان کی زندگی کے آخری ایام میں ان کا کوئی بھی سیاسی مخالف ان سے نالاں نہیں تھا ۔

پیر صاحب کو کئی سیاسی جماعتوں نے بڑے بڑے عہدوں کے عوض سیاسی وفاداری تبدیل کرنے اور ان میں شامل ہونے کی دعوت دی مگر انہوں نے اپنی سیاسی جماعت کی وفاداری کبھی تبدیل نہیں کی اور مرتے دم تک پی پی پی کے ساتھ وابسطہ رہے۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اپنے بیٹے سید جلال علی شاہ جو ان کے سیاسی جانشین ہیں کو بھی یہ نصیحت کر رکھی تھی کہ وہ کم از کم ان کی زندگی میں کسی دوسری سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہونگے۔

پیر صاحب ایک روحانی اور سیا سی شخصیت ہونے کے علاوہ سماجی کارکن بھی تھے جس کا ثبوت یہ ہے کہ 1946ء میں جب سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم نے گلگت بلتستان میں ڈائمنڈ جوبلی ا سکولوں کی بنیاد رکھی تو پیر صاحب کو ضلع غذر میں ان تمام سکولوں کا اعزازی انچارج بنایا گیا اور بعد ازاں آغاخان ایجوکیشن سروسز میں غذر کے چیرمین ، اسماعیلی کو نسل کے صدر، سینٹرل ایشا ٕ اور گلگت بلتستان کے لۓ آغاخان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے لۓ رضاکارانہ طور پر مختلف عہدوں پر فائز رہ کر خدمات سر انجام دیتے رہے۔

پیر صاحب علاقہ میں وقتاً فوقتاً سر اٹھانے والے انفرادی یا اجتماعی نوعیت کے تنازعات کو حل کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کے علاوہ واعظ و نصحیت کی خدمات بھی سر انجام دیتے رہے جبکہ ان کے آباؤ اجداد بھی کئی صدیوں سے علاقے میں دینی و سماجی خدمات سرانجام دیتے رہے-

ضلع غذر میں ان کے مریدوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی موجود ہے جو ان کے لۓ نہایت ہی عقیدت اور احترام کے جزبات رکھتے ہیں۔ اسماعیلی فرقہ کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغاخان سمیت دنیا کی کئی اہم شخصیات مختلف اوقات میں پیر صاحب کے دولت کدے میں تشریف لاتے اور ان کی علاقہ کے لۓ خدمات کو سراہتے رہے ہیں۔

پیر سیدکرم علی شاہ صاحب کی رحلت سے گلگت بلتستان ایک قد آور سیاسی اور مذہبی شخصیت سے محروم ہوگیا اس ابتلا ٕ اور نفسا نفسی کے دور میں ان جیسی عظیم شخصیت کی کمی بڑے عرصہ تک محسوس کی جاتی رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں