درکوت سلگان اور دیگر وادیوں کےعوام اپنی زمینوں اور وسائل پرحق ملکیت کی جدوجہد کرر ہے ہیں.
درکوت گلگت بلتستان کے شمال مغرب میں آخری سرحدی وادی ہے جو چترال کے بروغل وادی سے متصل ہے. درکوت اور بروغل کے درمیان ایک گلیشیر حائل ہے. درکوت یاسین تحصیل کا حصہ ہے اور سطح سمندر سے 2286 میٹر (7500 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے. یہاں گندم، باجرا ،مکئی کے علاوہ کچھ دوسری قسم کی فصليں بھی کاشت ہوتی ہیں؛ نیز ہر قسم کی سبزیاں اور پھل دار درخت یہاں آگائے جا سکتے ہیں۔ یہاں کے لوگ بروشسکی اور واخی زبانیں بولتے ہیں.
دیگر دور افتادہ علاقوں کی طرح درکوت بھی ہمیشہ سے ہی بنیادی انسانی سہولیات سے محروم اور حکمرانوں کی ترجیحات سے ہمیشہ اوجھل رہا ہے؛ چند سال قبل تک یہ وادی تعلیم، صحت اور صاف پانی کی سہولتوں سے محروم تھا ، تاہم گزشتہ دو تین سالوں سے اے کے ڈی این نے یہاں پر بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کی معیار زندگی کافی حد تک بہتر ہوئی ہے۔
درکوت کی کل آبادی تین سو گھرانوں اور 1800 نفوس پر مشتمل ہے. یہ علاقہ دو وادیوں پر مشتمل ہے ایک درکوت بالا جس میں دو چھوٹے گاؤں ہیں، ایک گلتنز جس کی آبادی تقریباچالیس گھرانوں اور 250 نفوس پر مشتمل ہوگی اور دوسرا گاملتی ہے جس کی آبادی بیس بائیس گھرانوں اور 140 نفوس پر مشتمل ہے. ان دونوں گاؤں تک رسائی کوئی آسان کام نہیں، کیونکہ یہ علاقے ایک دشوار گزار پہاڑی درہ پر واقع ہیں۔ اس راستہ کو عبور کرتے ہوئے اب تک پانچ قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں. تاہم کچھ عر صہ قبل اے کے ڈی این نے جیب روڈ ان دو علاقوں تک بنایا ہے۔
صحت کے سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اور زمستان یعنی سردیوں کے موسم میں شدید برفباری کی وجہ سے کئی بیمار اور حاملہ خواتین اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں کیونکہ دشوار گزار راستہ بند ہونے کی وجہ سے ان کو بروقت ہسپتال تک نہیں پہنچایا جا سکا۔
سماجی و معاشی طور پر یہ علاقہ بہت پسماندگی کا شکار ہے. احساس محرومی اور پسماندگی ان کے سماجی رویوں میں بھی واضح نظر آتا ہے. یہاں پر اندازاً دس چھوٹے چھوٹے قبائل آباد ہیں، جن کی آپس میں شديد قسم کے اختلافات ہیں اور لیڈر شپ کا فقدان ہے. ایک قبیلہ دوسرے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں؛ بجائے اس کے کہ مل کر اپنے قدرتی وسائل کا تحفظ کریں اور ان سے خود فائدہ اٹھایئں وہ آپس میں الجھتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں اور غیر مقامی بااثر لوگ ان کے قدرتی وسائل اور زمینوں پر قابض ہوتے جا رہے ہیں.۔
علاقے میں بنیادی سہولتوں کا فقدان، روزگار، تعلیم اور بہتر زندگی کے خوابوں کی تلاش میں درکوت کی نصف آبادی نے ہجرت کر کے گلگت اور ہاتون میں رہائش اختیار کی ہیں. یہ گلگت بلتستان کا سرحدی اور حساس علاقہ ہے، اتنے بڑے پیمانے پر مقامی باشندوں کا یوں علاقے سے ہجرت کرنا کسی بھی طور سودمند ثابت نہیں ہو گا۔
گرمائی چراگاہیں غیر مقامی لوگوں کے آماجگاہ بنے ہوئے ہیں، یہی نہیں بلکہ ان لوگوں نے وہاں زمینوں پر بھی قبضہ کئے ہیں، جن کو یاسین کے ہی کچھ با اثر لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہے. زمین پر ناجائز قبضہ کی کوشش میں کچھ عرصہ قبل حالات کشیدہ ہوگیا تھا اور معاملہ اسسٹنٹ کمشنر یاسین تک پہنچ گیا تھا. تاہم فریقین کے درمیان عارضی صلح کرا کے کیس کو داخل دفتر کیا گیا تھا۔
درکوت میں دریافت ہونے والا دھات اینٹیمنی (سرمہ) جس کو کچھ عرصے سے غیر قانونی طور پر نکالا جا رہا ہے اس وقت باعث تنازعہ بنا ہوا ہے. ایک غیر مقامی کمپنی این ایس جے جس کو لیز دیا گیا ہے، نے سڑک تو تعمیر کی ہے لیکن عوام کومعاوضہ دینے کو تیار نہیں؛ نہ عوام کی حق ملکیت کو تسلیم کرنے کو تیار ہے. واضح رہے کہ مزکورہ کمپنی کے قواعد و ضوابط اور ملکیت کا بھی ابھی تک واضح طور پر پتہ نہیں چل سکا ہے، جس سے لوگوں کے درمیان شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں کمپنی اور عوام کے درمیان تنازعہ کو حل کرنے اور معاہدہ طے کرنے کے لئے اسسٹنٹ کمشنر یاسین عارف حسین نے سات رکنی جرگہ مقرر کیا ہے جو عوامی ملکیت اور رائلٹی طے کرے گی، عوام کے درمیان اتفاق رائے پیدا کر ے گی اور ایک کمیٹی تشکیل دے گی جس کو مقامی انتظامیہ رجسٹر کرے گی۔
عوامی کمیٹی انتظامیہ کی سربراہی میں کمپنی کے ساتھ رائلٹی کے حوالے سے لیز قوانین کے مطابق معاہدہ کرے گی۔
واضح رہے درکوت کے عوام کو کمپنی کے حوالے سے کئی تحفظات ہے۔ اس حوالے سے سلگان کے عوام کے آپس میں بھی کافی عرصے سے چپقلش پائی جاتی ہے۔
ایک طرف عوام اس مسئلے پر متحد نہیں ہیں، اور درکوت بالا کے دو چھوٹے گاؤں کے لوگ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں، جس کا براہ راست فائدہ غیر مقامی کمپنی کو جاتا ہے.
ضرورت اس امر کی ہےکہ مقامی لوگ چھوٹے چھوٹے اختلافات اور رنجشوں کو بھلاکر یا وقتی طور پر بالائے طاق رکھ کر متحد ہو جائیں تاکہ لوٹ مار کرنے والی کمپنی کا محاسبہ کیا جا سکیں ، اور عوام اپنے حقوق، زمیں اور وسائل پر ملکیت کو جتا سکیں.اگر لوگ چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر گروہوں میں بٹے رہے تو پھر نہ رہے گی بانس اور نہ بجے گی بانسری.