تحریر: خرم علی
کریمہ بلوچ کی زندگی اپنے اندر خود مارکسزم پر گرینڈ تھیوری کےنام پر ہونے والی تنقید کا جواب ہے۔ اس عظیم شخصیت نے بیک وقت پردسری نظام، طبقاتی نظام، نو آبادیاتی زنجیروں، قومی جبر اور سامراجی تسلط کے خلاف جدوجہد کی. لیکن یہ جدوجہد آج کل کی شناختی سیاست کی طرح الگ الگ خانوں میں نہیں بکھری ہوئی تھی بلکہ ایک ہی جدوجہد میں تمام زاویوں کی جدلیات میں جڑی تھی۔
کریمہ فیمنسٹ نہیں تھی لیکن بلوچستان کی خواتین کو سیاسی آواز دینے کے لئے انہوں نے جو کیا وہ بڑے بڑے جارگنز استعمال کرنے والی فیمنسٹس کبھی بھی نہیں کر سکتیں۔ اسی طرح بانک عملی طور پر ایسے بے عمل دانشوروں سے زیادہ مارکسی تھیں کہ جن کی ہر تحریر کا مقصد بلوچوں کو قومی جدوجہد سے نکال کر طبقاتی جدوجہد کی طرف مائل کرنا ہوتا ہے. مگر کمال بات یہ ہے کہ یہ تھیوریٹکل چورن سب سے زیادہ شوق سے بلوچستان کے سردار ہی پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ عملی میدان میں تو کریمہ اور ان کے نظریاتی ساتھی ہی تیزی سے سرداروں کی سیاست کو ختم کرتے جا رہے ہیں اور دوسری جانب لینن کو فراموش کر کے صرف طبقاتی جنگ کے نعروں سے وہی سردار خوش ہوتے نظر آتے ہیں جن کے خلاف بظاہر یہ نعرے لگ رہے ہوتے ہیں۔
کریمہ اور اس کے ساتھی ماؤ کی طرح نظرئیے اور عمل کی جدلیات پر یقین رکھتے تھے۔ ان کے لئے یہ اہم تھا کہ ان کے وقت کا سب سے اہم تضاد کیا ہے اور اس کے خلاف کس کس سے اتحاد کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قومی و ریاستی جبر کے خلاف لڑنے والے ان سپاہیوں سے ہی بلوچستان کے گماشتہ حکمران طبقات سب سے زیادہ خوف زدہ ہیں۔ کریمہ بلوچ نے پاکستان کے بائیں بازو کے ساتھ جڑنے کی بہت کوشش کی مگر لیفٹ کے بیشتر حصے کے لئے بلوچستان میں فوج کی سرپرستی میں حکومت کرنے والی نام نہاد لیفٹسٹ اور نام نہاد نیشنلسٹ تنظیمیں ان حقیقی جدوجہد کرنے والی تنظیموں سے زیادہ پروگریسو رہیں۔
ایک دفعہ جب میں نے زاہد بلوچ سے پوچھا کہ آپ اپنی تحریک کی تشریح کیسے کریں گے تو انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی نیکسل تحریک اور ہماری تحریک میں کوئی فرق نہیں۔ زاہد کو پاکستان کے بائیں بازو نے بہت ناامید کیا اس کے باوجود کریمہ نے بائیں بازو کے طلبہ کو بلوچستان کا مقدمہ اور اپنی تحریک سمجھانے کی کوشش کی کہ شاید نئے ذہنوں کو یہ بات سمجھ میں آ جائے جس میں کم سے کم کراچی کے اندر تو وہ کسی حد تک کامیاب ہوئیں۔ لطیف جوہر کے کیمپ اور اس کے بعد کراچی میں بی ایس او کے مستقل پروگراموں کے ذریعے بائیں بازو کی دیگر تنظیموں کے کارکنان ان کے بیانئیے کو سمجھنا شروع ہوئے اور دیگر فورمز تک بھی ان کی بات جانا شروع ہو گئی۔
میرے خیال میں ایک طرف بلوچ نوجوانوں میں بی ایس او کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور دوسری جانب بی ایس او کے ذریعے بلوچستان کے مقدمے کا بلوچستان سے باہر پہنچنے کو ریاست نے اپنے لئے خطرے کے طور پر دیکھا اور آزاد پر کریک ڈاؤن کو آخری حد پر لے گئے جس کی وجہ سے بانک کو کینیڈا جا کر مقیم ہونا پڑا۔ جیسا کہ لطیف جوہر نے بیان کیا ہے کینیڈا پہنچ کر بھی کریمہ مستقل مشکلات سے لڑتی رہیں لیکن جدوجہد کا سلسلہ جاری رکھا اور بلوچستان کا وہ مقدمہ جو بلوچستان کی یہ دختر کبھی کراچی لے کر آئی تھی اب بلوچستان کی ماں بن کر تمام دنیا تک پہنچاتی رہی۔
کریمہ نے بلوچستان میں کیا کیا اور پوری دنیا میں کیا کیا، اس پر بات کرنے کے لئے مجھ سے بہت بہتر لوگ موجود ہیں لیکن ڈیڑھ دو سال میں کراچی میں انہوں نے ایک ایسا پودا ضرور لگا دیا جس کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان میں جاری ظلم پر سے نقاب اٹھتا جا رہا ہے اور یہاں کے ترقی پسند وہاں کی قومی جدوجہد کو سمجھنا شروع کر رہے ہیں۔ یقینا اگر ریاست جبر کی وجہ سے کراچی میں سیاسی گھٹن موجود ہونے کے باوجود بانک یہ کام احسن طریقے سے سرانجام دے رہی تھیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جلاوطنی کے دوران ان کی آواز کہاں کہاں تک پہنچ رہی ہوگی۔
کریمہ نے چھوٹے چھوٹے بہت سے پودے لگائے۔ بلوچستان کی مزاحمتی اور مصالحتی سیاست کے فرق کو سمجھانے کا پودا، نوجوانوں کی سیاسی تربیت کا پودا، خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت کا پودا، پاکستان میں طبقاتی سیاست کرنے والوں کو قومی جبر کے خلاف ہونے والی سیاست سے جڑنے کی دعوت کا پودا، اور بلوچستان کے مقدمے کو دنیا کے طول و عرض تک لے جانے کا پودا۔ ریاست شاید اتنے پودوں سے گھبرا گئی اور مزاحمت کی اس مسکراہٹ کو جھیل کنارے خاموش کر کے چلی گئی۔ اسے کہاں خبر تھی کہ یہ مسکراہٹ خاموش نہیں ہوئی بلکہ وہ تو اب گونج بن کر اپنی اور اپنی زمین کے قاتلوں کا تعاقب کرے گی۔ اگر کریمہ کی زندگی پودے لگا رہی تھی تو اس کی موت نے ان پودوں کو سیراب کر کے انہیں درختوں میں تبدیل کر دیا۔
مگر حماقت کرنے والا حماقت پر حماقت ہی کرتا رہتا ہے۔ اپنی شہید کے انتظار میں رات سے بزرگ و نوجوان کراچی ائیرپورٹ پر جمع تھے کہ بس دیدار کا ایک موقع ہی مل جائے مگر حکمران تو کریمہ کی حیات سے زیادہ اس کی لاش سے خوفزدہ تھے۔ گھنٹوں انٹرنیشنل کارگو کے اندر بانک کے خاندان اور غلامانہ ریاست کےآقاؤں کے درمیان بحث مباحثہ ہوتا رہا مگر وہ کراچی میں کریمہ کو خاندان کے سپرد کرنے کے لئے آمادہ نہ تھے۔ باہر ائیرپورٹ کے آس پاس کا علاقہ سیل کر رکھا تھا کہ کہیں کوئی چاہنے والا انٹرنیشنل کارگو کے پاس بھی نہ پہنچ سکے۔ آخر کار یہ طے پایا کہ کراچی سے باہر حب چوکی پر وہ کریمہ کو ورثا کے سپرد کریں گے۔
میت کو اس انداز میں نکالا گیا اور ورثا کو گاڑی کے ایسے حصے میں بٹھایا گیا کہ نہ تو باہر والوں کو معلوم ہو سکے کہ میت روانہ ہو گئی اور نہ اندر والوں کو یہ معلوم ہو سکے کہ کہاں لے جایا جا رہا ہے اور مزید ظلم یہ کہ ورثا کے فون بھی ضبط کر لئے گئے تھے۔ رات بھر سخت سردی میں انتظار کرتے ماما قدیر استاد ٹالپور اور یوسف مستی خان جیسے بزرگ جب دیگر چاہنے والوں کے ہمراہ حب چوکی کی جانب آدھی مسافت طے کر چکے تو خبر آئی کہ کانوائے تو ناردرن بائی پاس پر ہے اور سیدھا تمپ جا رہا ہے۔
ظلم یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ جب لیاری کے اس مقام پر یہ لوگ پہنچے کہ جہاں نماز جنازہ ہونی تھی تو اس پارک کو بھی سیل کیا جا چکا تھا۔ مزید انکشاف یہ ہوا کہ سب علاقوں میں یہ خبر بھی گرم کر دی گئی تھی کہ چونکہ لاش تمپ جا رہی ہے تو جنازہ نہیں پڑھا جائے گا مگر ایک فیصلہ حکمران کرتے ہیں تو ایک فیصلہ عوام بھی کرتی ہے۔ فوری طور پر کریمہ کے لگائے ہوئے پودے سے جنم لینے والی کریماؤں نے لوگوں کو پارک پر جمع کر کے ریلی کی شکل میں چوک کی طرف مارچ کیا اور اس عہد کے ساتھ جنازہ پڑھا گیا کہ جس کریمہ کو قتل کیا گیا جس کریمہ کو ورثا کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اس کریمہ کو نظرئیے کی صورت زندہ رکھا جائے گا اور اتنا پھیلا دیا جائے گا کہ اہل حکم اپنے سائے سے بھی ڈریں گے۔
خبر ملی ہے کہ تمپ اور تربت میں بھی کرفیو لگا کر لوگوں کو روکا گیا کہ ایک لاش حکمرانوں کی حیات پر حاوی ہو چکی ہے. مگر وہ کیا جانیں کہ کریمہ تو وہ نظریہ ہے جو ہر ظلم کے ساتھ اور توانا ہوتا جا رہا ہے۔ وہ لکیر ہے جو اس کے خون نے مزاحمت اور غلامی کے درمیان کھینچ دی ہے۔ وہ جذبہ ہے جو ہر نوجوان کے سینے میں اتر چکا ہے۔ وہ پکار ہے جو بلوچستان کی ہر لڑکی کی صورت ظالم کو للکارتی رہے گی۔ کریمہ کا نظریہ آزاد تھا؛ کریمہ کا کردار آزاد تھا؛ کریمہ کا عمل آزاد تھا۔ آج کریمہ تمہارے پہروں، تمہارے خنجر اور تمہاری رکاوٹوں سے آزاد ہر دل کو آزاد کر رہی ہے اور تم بے بسی کی تصویر کی طرح اس جسم کو روکنے کی کوشش کر رہے ہو جس سے وہ آزاد ہو چکی۔
خرم علی عوامی ورکرز پارٹی کراچی کے سیکریٹری اور نوجوان لکھاری ہیں۔
One thought on “کریمہ بلوچ آزاد: وہ موت جو حیات پر حاوی ہو گئی”
بانک کریمہ پر آپ نے بہت زبردست obituaryلکھی ہے لگتا ہے کہ آپ اکیس ویں صدی کے منو بھائی ہیں۔ پڑھکر آنکھیں بھیگ گئیں۔
بلوچ جدوجہد اور قربانی کی لازوال مثالیں قائم کررہے ہیں