کالم : قطرہ قطرہ
تحریر:اسرارالدین اسرار
محمد علی سدپارہ جب کے ٹو کی مہم جوئی کے لئے نکلے تھے تو سوائے چند ایک کے باقی لوگ ان کو جانتے تک نہیں تھے. بلکہ ان کی اس مہم جوئی کو ایک فضول اور غیر ضروری سرگرمی سمجھ رہے تھے۔ علی سدپارہ اپنے دو ساتھیوں، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے جون پابلو موئر سمیت گزشتہ ایک ہفتے سے دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سر کرنے کے دوران لاپتہ ہیں تو وہ ہر کسی کے ہیرو ہیں۔ بلکہ ان کی محبت میں کچھ لوگ اتنا جنون کے شکار ہیں کہ ان کی مہم جوئی پر تبصرہ کرنے والوں پر بھی لعن تعن کر رہے ہیں۔
یہ لعنتیں بھیجنے والے لوگ نہ تو کوہ پیمائی کی ابجد سے واقف ہیں نہ ہی ان کو اس ضمن میں کوئی عقلی و تیکنکی بات سمجھنے سے دلچسپی ہے۔ ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جو کل تک یہ کہتے رہے ہیں کہ آخر اس ٹھنڈ میں کے ٹو پر جانے کا کیا فائدہ؟ علی سدپارہ و دیگر کو مفت میں اپنی جانوں کے ساتھ کھیلنے سے کیا ملتا ہے؟
یہ الگ بات ہے کہ کوہ پیمائی سے دنیا کے کئی ممالک اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کماتے ہیں. مگر اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس خطرناک مہم جوئی میں حصہ لینے والے بہادر لوگ جو انسانی عزم اور حوصلہ کی اعلی ترین مثال قائم کرتے ہیں تو ان کو دنیا واقعی ہیرو کا درجہ دیتی ہے۔
دیگر کھیلوں کی طرح کوہ پیمائی ایک کھیل ہونے کے علاوہ ایک مکمل مضمون ہے۔ جو لوگ عمران خان کو آج تک کرکٹ کی دنیا کا ہیرو سمجھتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ کرکٹ پر ان کی کہی ہوئی بات دنیا بھر میں تسلیم کی جاتی ہے. کیونکہ عمران خان کرکٹ کے نہ صرف بہترین کھلاڑی رہے ہیں بلکہ وہ اس مضمون کے استاد بھی ہیں۔ آج اگر کوئی آفریدی کو کرکٹ کا ہیرو سمجھ کر کرکٹ پرتبصرہ کرنے والے عمران خان پر لعنت بھیجھےگا تو کرکٹ کے مضمون کو سمجھنے والے اس کو پاگل سمجھیں گے۔
بلکل اسی طرح کا معاملہ نذیر صابر اور علی سد پارہ کا بھی ہے۔ کل سے درجنوں لوگ نذیر صابرکو ان کے ایک تبصرہ پر برا بھلا کہتے ہوئے ساتھ پوچھتے بھی ہیں کہ یہ نذیر صابر کون ہیں۔ جو لوگ علی سد پارہ کو آج ان کی گمشدگی کے بعد ہیرو کہتے ہیں وہ صحیح معنوں میں نہ تو ان کو جانتے ہیں اور نہ ہی نذیر صابر کو جانتے ہیں۔ اصولا ایسے لوگوں کو کوہ پیمائی کے موضوع پر تبصرہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے. لیکن اس بیماری کا کیا کیا جائے جو یہاں پوری قوم کو لاحق ہے۔ ہر شخص ہر موضوع کا سقراط ہے۔ اس لئے یہاں کسی شعبے میں ماہرین پیدا نہیں ہوتے ہیں۔ جو ماہرین پیدا ہوتے ہیں ان کو جہالت کی بھینٹ چڑھا کر ان کا حشر نشر کیا جاتا ہے۔ لوگ جس مضمون اور پیشہ سے واقف نہیں ہیں اسی پر تبصرہ کے لئے گود پڑتےہیں۔ ایسے معاشرے میں ماہرین نہیں جہلا پیدا ہوتے ہیں جو معاشرے کا ستیاناس کرکے رکھ دیتے ہیں۔
مجھے بھی ہائکنگ کا شوق ہے۔ لیکن میں کوہ پیمائی کی الف ب سے واقف نہیں ہوں۔ علی سد پارہ کے لاپتہ ہونے کے بعد مجھے نذیر صابر، ساجد سدپارہ، میرزا علی اور دیگر ماہر کوہ پیماؤں کی رائے کا انتظار تھا۔ ان کی رائے سننے اور پڑھنے کے بعد مجھے سمجھ آیا کہ علی سد پارہ اور ساتھیوں کے ساتھ کے ٹو کی چوٹی پر اصل کیا واقع پیش آیا ہوگا۔
نذیر صابر اور علی سد پارہ دونوں کوہ پیمائی کے کھیل کے ہیرو ہیں۔ ہم ان کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے اپنی تعصبانہ اور گندی ذہنیت کا اظہار کرنے کی بجائے دنیا سے عقل سیکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا ہمارے ان دونوں سپوتوں کو ہیرو کہتی ہے۔ نذیر صابر ہیرو ہونے کے ساتھ علی سد پارہ سمیت ہزاروں کوہ پیماؤں کے پیشرو، استاد اور ساتھی بھی ہیں۔ نذیر صابر کو دنیا اس پہلے پاکستانی کے طور پر جانتی ہے جس نے مونٹ ایورسٹ پر پاکستان کا جھنڈا لہرایا تھا۔ کوہ پیمائی پر وہ دنیا کی بہتری درسگاہوں میں آج بھی لیکچرز دیتے ہیں۔ دنیا کے نامور ماہرین کوہ پیماء ان کے زیر تربیت رہے ہیں۔ نذیر صابر دنیا کے ماہر ترین کوہ پیماؤں میں سے ایک ہیں۔ آج بھی علی سد پارہ واپس آجائے تو مجھے یقین ہے وہ نذیر صابر کو سلام کرنےان کے گھر ضرور جائیں گے۔ ان دونوں کی رفاقت بہت پرانی ہے۔ دونوں کوہ پیمائی کے میدان کے شہسوار رہے ہیں۔
کوہ پیمائی میں جس نے جو اعزاز حاصل کیا ہے وہ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ نذیر صابر کا اپنا اعزاز ہے جو اس سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ آج کے ہمارے ہیرو علی سد پارہ کا اپنا اعزاز ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں چھین سکتی۔
نذیر صابر کی ماہرانہ گفتگو میں جس بات پر اعتراض کیا گیا تھا وہ میرے حساب سے علی سدپارہ کو کم دیکھانے کے لئے نہیں تھی بلکہ ان کی ہیروشپ کو مزید بلند کرنے کے لئے تھی۔ پورے سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو نذیر صابر نے علی سدپارہ سمیت کوہ پیمائی سے منسلک اپنے ساتھیوں کی ان مشکلات اور رکاوٹوں کا ذکر کیا تھا جن کے انہوں نے خود بھی اپنی کوہ پیمائی کی مہمات کے دوران سامنا کیا تھا۔
نذیر صابر ہنزہ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک عام محنت کش تھے انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے دنیائے کو پیمائی میں ایک مقام پیدا کیا ہے۔ انہوں نے بجا طور پر کہا تھا کہ علی سد پارہ کی مالی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ان کو اس مہم میں بھی ان کے ایک غیر ملکی ساتھی کو پیماء جان اسنوری نے مدد فراہم کی تھی جو کہ ان کے ساتھ اس مہم کے دوران تاحال لاپتہ ہیں۔
نذیر صابر کا یہ گلہ بھی بجا تھا کہ علی سدپارہ کوپاکستان اور گلگت بلتستان کی حکومتوں اور چاہنے والوں سے کوئی مالی مدد نہیں ملی تھی۔ اس کے باجود علی سدپارہ نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے وہ رہتی دنیاتک یاد رکھی جائیگی۔
ہمارے عقل کے اندھوں کو نذیر صابر کی اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہندوستان اور نیپال سمیت دنیا کے تمام ممالک میں کوہ پیمائی کی تربیت کے متعدد سکول موجود ہیں۔ وہاں ہزاروں لوگوں کو کوہ پیمائی کی تربیت دی جاتی ہے اور اسی سبب دنیا بھر میں لاکھوں لوگ آج اس کھیل سے منسلک ہیں اور اربوں ڈالر ان ممالک کو زرمبادلہ کی صورت میں کما کر دے رہے ہیں. دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے پانچ گلگت بلتستان میں واقع ہیں ۔ اس کے باوجود یہاں کے لوگ کوہ پیمائی کی اہمیت سے نابلد ہیں۔ آج بھی یہاں کے لوگ پوچھتے ہیں کہ علی سد پارہ جیسے لوگ پہاڈوں پر کیوں جاتے ہیں؟
نذیر صابر سے دنیاء فائدہ اٹھاتی ہے. ہم ان کی ایک بات کو پکڑ کر ان پر لعن تعن کر رہے ہیں۔ ہم نذیر صابر اور علی سد پارہ کو ایک دوسرے کا دشمن ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔حالانکہ ان دونوں کی رفاقت دوستوں ، بھائیوں اور عزیزوں کی طرح ہے۔دونوں ایک ٹیم کے دو کھلاڑیوں کی طرح ہیں۔ ہمیں شرم ہوتی تو یہاں کوہ پیمائی کے تربیتی مراکز قائم کر کے نذیر صابر، علی سد پارہ، ثمینہ بیگ، ساجد سدپارہ، قدرت علی اور کے ٹو کو تین دفعہ سر کرنے والے فضل علی، امین اللہ بیگ اور شاہین بیگ سمیت دیگر کوہ پیماؤں کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر یہاں کے ہزاروں نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرتے اور اس کھیل کے ذریعے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کماتے۔
ہم میں سے کسی کو بھی علی سد پارہ کے کام اور کارناموں کا آج سے پہلے کبھی علم نہیں تھا اور نہ ہی ان کی مشکلات کا اندازہ تھا۔ گویا سب کو علی سدپارہ کی گمشدگی کا انتظار تھا۔ آج وہ لا پتہ ہو گئے اور ہم نے ان کو ہیرو بنادیا۔ نذیر صابر زندہ ہیں اس لئے ان کو ہم ہیرو ماننے کے لئے تیار نہیں۔
ہمیں تو بس نفرتیں پھیلانا آتا ہے۔ ہم لاکھوں اچھائیوں میں سے ایک برائی کو ڈھونڈ نکالتے اور اسی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ ہم نفرتوں، کدورتوں اور تنازعات کے بیوپاری ہیں۔ ہمیں محبت، امن، ترقی اور خوشحالی، صلح جوئی اور بھائی چارگی پھیلانا نہیں آتا۔ ہمارا مرنے والوں سے محبت کا اظہار ریاکاری پر مبنی ہوتا ہے۔ ہم دراصل انسانیت کے دشمن ہیں۔ ہم زندہ انسانوں سے نفرت کرتے اور مرنے والوں سے جھوٹی ہمدردی کرتے ہیں۔
نذیر صابر اور علی سد پارہ اپنے شعبہ کے کل بھی ہیرو تھے اور آج بھی ہیرو ہیں۔ ان دونوں کو ہیرو بنانے میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے۔ وہ دونوں اپنی محنت سے ہیرو بنے اور ہیرو رہیں گے۔ فیسبکیوں کو نہ کل کسی ہیرو کی پہچان تھی اور نہ آج کسی ہیرو کی پہچان ہے۔
نذیر صابر اور علی سدپارہ ہم آپ دونوں کے سامنے شرمندہ ہیں۔
اسرارالدین اسرار گلگت-بلتستان کے سینئر کالم نویس اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے کوآرڈینیٹر ہیں.