لاپتہ کوہ پیماؤں کے موت کی تصدیق، سماجی رابطہ نیٹ ورکس صارفین کا ہیروز کو خراج تحسین
رپورٹ: فرمان بلتستانی
اسکردو: گلگت بلتستان کے حکام اور لواحقین نے مشہورکوہ پیما محمد علی سدپارہ سمیت دیگر دو لاپتہ ہونے والے کوہ پیماؤں کی موت کی تصدیق کیں اورگزشتہ دس دنوں سے جاری تلاش اور بچاؤ کی کاروائی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ۔
علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے صوبائی وزیر سیاحت راجہ ناصر علی اور دیگر لواحقین کے ہمراہ یہ اعلان اسکردو میںجمعرات 18 فروری کو ایک پریس کانفرنس کے دوران کیا ۔
ساجد کا کہنا تھا : "کےٹو نے میرے والد کو ہمیشہ کے لیے اپنی آغوش میں لے لیا ہے”۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ "کے ٹو پر سرمائی مہم جوئی کے دوران لاپتہ کوہ پیماؤں محمد علی سدپارہ، جان اسنوری اور ہوان پابلو موہر اب ہم میں نہیں رہے ۔”
ان کا کہنا تھا کہ موسمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت، فوجی حکام اور تینوں کوہ پیماؤں کے لواحقین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ لاپتہ کوہ پیما اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
خیال رہے کہ علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی تلاش کے لیے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن سات فروری سے جاری تھا جسے موسم کی خرابی کی وجہ سے درمیان میں روکنا بھی پڑا تھا۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ حکومت محمد علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ کو کوہ پیمائی کی دنیا میں خدمات کے اعتراف میں سول اعزازات سے نوازے گی۔
انہوں نے مزید یقین دہانی کیا کہ صوبائی حکومت محمد علی سدپارہ کے خاندان کی مالی معاونت کرے گی اور ان کے بچوں کے لئے اسکالرشپ دےگی اورعلی سدپارہ کے نام سے کوہ پیمائی کی تربیت کے لئے سکول بھی کھولےگی۔
انہوں نےکہا صوبائی حکومت نے اسکردو ائرپورٹ کو محمد علی سدپارہ کے نام سے منسوب کرنے کی تجویز وفاقی حکومت کو بھیج دی ہے
اس موقع پر جان اسنوری اور ہوان پابلو موہر کے خاندان کے افراد نے پاکستانی حکومت اور آرمی کا شکریہ ادا کیا۔
علی سدپارہ کے لواحقین کے تاثرات
علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے بام جہان کے نمائیندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "وہ اور ان کے خاندان ایک بہترین باپ، ہیرو اور سرپرست سے محروم ہوگئے ہیں” ۔
"میرے والد نے پاکستان کے لئے اپنی جان کی بازی لگادیں "۔
محمد علی سدپارہ نے دنیا بھر میں 8 ہزار سے بلند 8 چوٹیاں سر کی تھی ۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ اس سال کے ٹو موسم سرما میں سر کرکے ایک نیاکارنامہ انجام دیں۔ مگر یہ خواب پورا نہیں ہو سکا۔
ساجد نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنے والد کے ادہورے خواب کو پورا کریں گے اور کوہ پیمائی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
انہوں نے دنیا کی خطرناک ترین مقام پر غیر معمولی ریسکیو سرچ آپریشن انجام دینے پر حکومت ، آرمی چیف اور پاک فضائیہ کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا ۔
کے ٹو پہ کیا ہوا؟
علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان اسنوری اور چلی کے ہوان پابلو موہر کے ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنے کی کوشش کے دوران پانچ فروری کو آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلندی پر چوٹی کے قریب لاپتہ ہوئے ۔ انہیں آخری مرتبہ ساجد سدپارہ نے دیکھا تھا جو آکسیجن ریگولیٹر کی خرابی کی وجہ سے مہم ادہوراچھوڑ کر واپس آنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
’والد پہاڑوں کے عاشق تھے‘
محمد علی سدپارہ کے بیٹے مظاہر حسین نے اپنے والد کی یادیں بی بی سی سے شیئر کرتے ہوئے کہا ’میرے ابو حوصلے کا پہاڑ تھے۔ کوہ پیمائی کی ہر مہم پر جانے سے پہلے امی اور ہم لوگوں سے ہنستے مسکراتے مل کر جاتے اور تسلی دیتے کہ سب ٹھیک ہو گا۔ وہ کہتے کہ بس تم لوگوں نے پریشان نہیں ہونا بلکہ ہر صورتحال کا سامنا کرنا ہے۔ کے ٹو کی مہم پر جانے سے پہلے بھی انھوں نے ہم سے یہی کہا تھا۔‘
مظاہر حسین نے بتایا کہ ’ہم نے اپنے ابو کو ہمیشہ ہنستے مسکراتے دیکھا۔ وہ تو پہاڑوں کے عشق میں مبتلا تھے اور کوہ پیمائی تو ان کا جنون تھا۔ وہ مجھے ہمیشہ کہتے تھے کہ مزہ تو تب ہے جب تم تعلیم حاصل کرو اور کوئی کارنامہ سرانجام دو۔‘
45 سالہ علی سدپارہ کو موسم سرما میں دنیا کی بلند ترین چوٹی نانگا پربت سر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ کوہ پیمائی میں اپنی مہارت کی وجہ سے انھیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔
مظاہر کے مطابق ان کے والد اکثر اپنے بچوں سے کہا کرتے کہ ’دیکھو میرے کتنے دوست اور ساتھی اس خطرناک کھیل (کوہ پیمائی) کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ درحقیقت وہ چاہتے تھے کہ پہلے ہم اچھی تعلیم حاصل کریں، پھر چاہیں تو کوہ پیمائی کا شوق پورا کریں۔ میرے ابو کا ماننا تھا کہ اگر ہم اچھی تعلیم حاصل کر پائیں گے تو اس کی مدد سے ہم کوہ پیمائی میں بھی بہتر کارگردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے۔‘
مگر مظاہر حسین کہتے ہیں کہ شاید ’کوہ پیمائی ہمارے خون میں شامل ہے۔‘
مظاہر کے مطابق انھوں نے اپنے ابو کی تعلیم حاصل کرنے کی بات سے اتفاق کیا اور اپنی تمام تر توجہ پڑھائی پر مرکوز کی۔ ’لیکن میرے بڑے بھائی ساجد سد پارہ بالکل ابو جیسے ہیں۔ انھوں نے کوہ پیمائی جاری رکھی جس کے نتیجے میں ابو ہر مہم پر اب ان کو ساتھ لے کر جانے لگے تھے۔‘
باپ بیٹے کی آٹھ ہزار میٹر پر ’آخری ملاقات‘
مظاہر حسین کے مطابق اُن کے ماموں کی جب ساجد سدپارہ سے بات ہوئی تھی تو انھوں نے بتایا تھا کہ ’آٹھ ہزار میٹر کی بلندی سے تھوڑا اوپر بوٹل نیک پر ساجد سدپارہ کو آکسیجن کی ضرورت محسوس ہوئی مگر ان کے آکسیجن سلنڈر کا ریگولیٹر خراب ہو گیا تھا۔‘
اس موقع پر محمد علی سدپارہ نے ساجد سدپارہ کو واپس جانے کی ہدایت کی۔ ’ابو نے ساجد کو کہا کہ ریگولیٹر کے بغیر اب وہ مزید اوپر نہیں جا سکتے۔ اس پر ساجد نے اس نازک موقع پر کوئی بحث نہیں کی کیونکہ اس وقت ان کے خیال میں تاریخ ساز کامیابی حاصل کرنے میں اب کچھ ہی فاصلہ باقی تھا۔‘
مظاہر کہتے ہیں کہ ’ساجد نے میرے ماموں کو بتایا کہ جب وہ نیچے آ رہا تھا تو ابو نے اسے انتہائی جذباتی انداز میں زور سے گلے لگایا۔ پھر ہدایت کی کہ احتیاط سے جانا۔ خیال رکھنا، ہم بھی جلد ہی واپس آ جائیں ہیں۔‘
’جب ساجد نیچے اتر رہے تھے تو ابو کافی دیر تک اُن کو نیچے اترتے ہوئے دیکھتے رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’شاید ابو کی چھٹی حس نے انھیں کسی ناگہانی آفت سے وقت سے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا۔ انھوں نے اپنے مزاج کے برخلاف ساجد کو واپس بھیجا تھا۔‘
چند روز قبل سکردو میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ساجد سدپارہ نے بتایا تھا کہ واپس کیمپ تھری پر آ کر انھوں نے ساری رات لائٹس آن کر کے رکھیں کہ ٹیم واپس آئے گئی تو ان کو چائے بنا کر دیں گے۔ انھوں نے نہیں آنا تھا، نہیں آئے۔
ساجد سدپارہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اب ان کے والد کی تلاش کے آپریشن کو ان کی میت کی تلاش کے آپریشن کے طور پر جاری رکھنا چاہیے۔
’25 کلو وزن اٹھانے کےتین ڈالر‘
علی محمد، محمد علی سدپارہ کے قریبی دوست اور ساتھی ہیں۔ دونوں نے کوہ پیمائی کا ایک ساتھ آغاز کیا تھا تاہم اب علی محمد نے کوہ پیمائی کی دنیا کو الوادع کہہ دیا ہے اور وہ اپنی ٹوور آپریٹنگ ایجنسی چلاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’محمد علی سدپارہ کے معاشی حالات ابتدا میں کچھ اتنے اچھے نہیں تھے۔ اس مقام تک پہچنے کے لیے انھوں نے انتھک محنت اور جدوجہد کی تھی۔‘
’انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ہائی ایلٹیٹیوڈ پورٹر کی حیثیت سے کیا۔ وہ ایسے پورٹر بنے جو کوہ پیماؤں کے ساتھ بلندی پر جاتے اور پہاڑ سر کرنے میں اُن کی مدد کرتے اور ان کا سامان اٹھاتے۔‘
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’بحثیت پورٹر سدپارہ اپنا کام انتہائی محنت اور ایمانداری سے کرتے اور پورٹر ہونے کے ساتھ انھوں نے کوہ پیمائی سیکھنا شروع کی۔‘
’تھوڑے عرصے میں کوہ پیمائی میں مہارت حاصل کرنے کے بعد انھوں نے خود ناصرف نجی حیثیت میں کوہ پیمائی شروع کر دی تھی بلکہ وہ کوہ پیماؤں کے لیے فکسر کی خدمات بھی انجام دیتے تھے۔‘
علی محمد کے مطابق دنیا کے کئی بڑے کوہ پیماؤں کی تاریخ ساز کامیاب مہموں میں علی سدپارہ کی محنت کارفرما تھی۔ علی سدپارہ ان کوہ پیماؤں کے لیے دشوار گزار پہاڑی راستوں پر رسیاں باندھتے جن کی مدد سے کوہ پیما چوٹیاں سر کرنے میں کامیاب ہوتے۔
راولپنڈی میں مقیم علی سدپارہ کے ایک دوست رفیق عزیز سدپارہ کہتے ہیں کہ ’علی نے اپنی دنیا خود پیدا کی تھی۔‘
وہ کہتے ہیں ’بچپن میں وہ کھیتی باڑی بھی کرتے رہے اور مال مویشی کو سنبھالتے۔ شادی کے بعد انھوں نے جب پورٹر کا کام شروع کیا تو اس وقت غیر ملکی کوہ پیماؤں کا 25 کلو سامان اٹھانے کے یومیہ تین ڈالر ملا کرتے تھے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’کوہ پیماؤں کے ساتھ مزدوری کرنا بھی ایک فن ہے۔۔۔ یہ فن تقریباً کوہ پیمائی جیسا ہی ہے۔ محمد علی سدپارہ نے یہ کام بہت جلد ہی سیکھ لیا تھا۔‘
’صدی کا بہترین پاکستانی کوہ پیما‘
محمد علی سد پارہ کی زندگی میں پہلی بڑی تبدیلی پاکستان فوج کے لیے سیاچن تک ساز و سامان پہنچانے کے لیے بحیثیت پورٹر خدمات فراہم کرنا تھا۔
اُن کے بیٹے مظاہر حسین نے بتایا ’ابو ہمیشہ ہمیں کہا کرتے تھے کہ جو کام بھی کرو پوری محنت، جوش اور جذبے سے کرو پھر یہ ممکن نہیں کہ ناکامی ہو۔‘
’وہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ کوہ پیمائی کے وسائل نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے کئی سال تک پورٹر کی حیثیت سے کام کیا تھا۔‘
علی محمد کا کہنا تھا کہ محمد علی سد پارہ ’پہاڑوں کا بیٹا‘ تھا۔ ’پہاڑ اور کوہ پیمائی ان کے خون میں شامل تھے۔ اس لیے کوئی خاص مدد حاصل نہ ہونے کے باوجود بھی وہ جلد کامیابیاں حاصل کرتے چلے گئے۔‘
’میرے خیال میں علی گذشتہ صدی کے بہترین کوہ پیما تھے۔ شاید پاکستان میں دوبارہ کوئی اور محمد علی سد پارہ پیدا نہیں ہو سکے گا۔ اگر محمد علی سد پارہ کے پاس وسائل ہوتے تو اس کے کارناموں اور ریکارڈز کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہوتی جو اب ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ ’کوہ پیمائی کے ساتھ کوہ پیماؤں کے لیے فکسر کا کام شوق میں نہیں کرتے تھے بلکہ مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے کرتے تھے۔‘
’دنیا کی کئی خطرناک چوٹیوں میں وہ بہت سے کوہ پیماؤں کے لیے فکسر رہے۔ اگر ان کے پاس وسائل ہوتے تو وہ یہ چوٹیاں خود سر کرتے۔ ان کے ریکارڈ پر شاید اتنی فتوحات ہوتیں جن کے قریب بھی پہنچنا کسی کے بس میں نہ ہوتا۔‘
علی محمد کا دعویٰ ہے کہ محمد علی سدپارہ تاریخ کا شاید وہ واحد کوہ پیما تھے جنھوں نے اپنی ہر مہم کو بغیر آکسیجن کے سر کیا۔ ’ایسا کرنا کسی دوسرے کوہ پیما کے بس کی بات نہیں۔ یہ صرف علی ہی کر سکتے تھے۔‘
’میرا خیال ہے کہ مستقبل میں لوگ محمد علی سد پارہ پر تحقیق کیا کریں گے۔‘
’موت کے منھ میں بھی دوسروں کی مدد‘
سدپارہ کے دوست علی محمد نے بی بی سی کے زبیر خان کو بتایا کہ علی سدپارہ سادہ مزاج اور مخلص شخصیت کے مالک تھے۔
’ان میں انکساری تھی۔ کئی مہمات کے دوران ہم نے دیکھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے لیے قربانی دیا کرتے تھے۔ مہمات کے دوران ہر ایک کو اپنا کام خود کرنا پڑتا ہے۔ مگر اکثر اوقات محمد علی سد پارہ اپنا کام بھی کرتے اور دوسروں کی بھی مدد کرتے تھے۔‘
’مجھ سمیت دنیا بھر میں کئی ایسے کوہ پیما ہوں گے جنھیں اپنی ساری زندگی محمد علی سدپارہ کے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے اور کافی کا ذائقہ اور مزہ کبھی نہیں بھولے گا۔ وہ موت کہ منھ میں بیٹھ کر بھی دوسروں کی مدد کرتے تھے۔‘
’بہت سی مہمات میں ہم نے دیکھا کہ اگر علی ٹیم کا لیڈر نہیں بھی ہوتا تو اس کا کردار ایک لیڈر کا سا ہی ہوتا۔ اُن کا کردار ہمیشہ ہی مرکزی رہتا۔ وہ دوسروں کے لیے راستے بناتے، رسیاں باندھتے اور دیگر طریقوں سے مدد کرتے۔‘
’علی سدپارہ خطرناک رکاوٹیں دور کرنے میں مدد فراہم کرتے تھے۔ کئی ایسے کوہ پیما ہیں جن کو خطرناک حادثے کا شکار ہونے سے انھوں نے ہی بچایا۔ مگر جب ان پر مشکل وقت آیا تو چاہتے ہوئے بھی کوئی بھی ان کی مدد نہیں کر سکا۔‘
عزیز بتاتے ہیں کہ بحیثیت پورٹر علی سدپارہ کے پہلے استاد ان کے چچا حسن سدپارہ تھے۔ ایک مرتبہ وہ ان کے ہمراہ کوہ پیماؤں کی مدد کر رہے تھے کہ ان کا خصوصی چشمہ گر گیا تھا۔ محمد علی سدپارہ نوجوان تھے انھیں پتا نہیں چلا مگر ان کے چچا نے وہ شیشہ اپنی جیب میں ڈال لیا تھا۔
"جب یہ سب گلیشیئر پر پہنچے۔ دھوپ اور گلیشیئر کی چمک نے ان کی آنکھیں دھندلا گئیں تو اس وقت حسن سدپارہ نے وہ چشمہ اپنے نوجوان بھتیجے کو دیتے ہوئے کہا کہ پہاڑوں میں چھوٹی سی غلطی بھی بڑی بن جاتی ہے۔ اس لیے احتیاط کیا کرو۔‘
علی کا کہنا تھا کہ سدپارہ بہادر مگر انتہائی محتاط کوہ پیما تھے۔
’سال 2015 میں جب سردیوں کی مہم کے دوران نانگا پربت پر انتہائی نامناسب حالات میں غیرملکی کوہ پیما ساتھیوں کے ہمراہ چوٹی سر کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو وہ انتہائی مایوس تھے۔ مگر اس کے ساتھ وہ عزم کیے ہوئے تھے کہ اس کام کو اب دوبارہ اور جلد کرنا ہے۔‘
اگلے سال انھوں نے اپنی ناکامی سے سیکھا اور نانگا پربت کو سردیوں میں فتح کر کے تاریخ رقم کر دی۔
مظاہر کہتے ہیں کہ ’ابو کئی مرتبہ خطرات سے دوچار ہوئے۔ وہ اکثر اپنے واقعات بتایا کرتے تھے۔ ایسے واقعات جو خطرناک مہمات کے دوران دوسروں کی مدد کرنے کے واقعات ہوتے تھے۔‘
’جب ان کے ساتھی کافی پیچھے رہ گئے تو اس موقع پر انھوں نے سوچا کہ اپنے ساتھیوں کا انتظار کرتے ہیں کہ کہیں وہ ان کے بغیر کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائیں۔‘
کوہ پیمائی میں ایسا نہیں کیا جاتا کیونکہ چلتے چلتے رُکنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ سخت سردی ہوتی ہے، جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور اس کے انتہائی خطرناک نتائج ہوتے ہیں، جو ابو سے پوشیدہ نہیں تھے۔‘
مظاہر کا کہنا تھا کہ ان کے والد اس کے باوجود ساتھی کو پیماؤں کا انتظار کرتے تھے۔ ’ابو ان کو دوبارہ ٹھیک راستے پر لائے اور اس دوران انھوں نے یہ ممکن بنایا کہ شام سے پہلے پہلے کیمپ پہنچ جائیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ اپنے ساتھیوں کی مدد کرنے پر ان کے والد پر انتہائی خطرناک اثرات مرتب ہوئے۔ ’اس کے براہ راست اثرات ان کے دماغ پر پڑے۔ وہ سارے راستے اپنے ہوش و حواس گم کیے ہوئے تھے۔‘
’انھوں نے ہمیں خود بتایا تھا کہ جب صبح ہوئی اور سورج کی پہلی کرن پڑی تو کچھ کچھ ہوش آیا اور اس موقع پر انھوں نے اپنے آپ کو متحرک کیا، اپنی حوصلہ افزائی کی کہ اب خود کو سنبھالنا ہے۔‘
’انھوں نے تھوڑی دیر واک کی۔۔۔ اور پھر حالت بہتر ہونے پر اپنی تاریخ کی مشکل ترین مہم کو سر کر کے تاریخ رقم کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’علی سدپارہ کے لیے مہم جوئی صرف شوق ہی نہیں بلکہ جنون اور عشق ہے۔ موسم سرما میں کے ٹو سر کرنا ان کا خواب تھا۔ شاید یہی جنون اور عشق ان کی جان لے گیا۔‘
سوشل میڈیا صارفین کے تاثرات اور افواہیں
’تم چلے آؤ پہاڑوں کی قسم‘ سے لے کر ’پہاڑوں کا بیٹا پہاڑوں میں دفن ہو گیا‘ تک سوشل میڈیا صارفین گذشتہ دو ہفتوں سے مختلف انداز میں لاپتہ محمد علی سدپارہ کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
اس حوالے سے بی بی سی کے رپورٹر زبیر خان اور منیزہ انوار نے سماجی رابطہ کے صارفین کے تاثرات پر مبنی رپورٹس میں لکھا ہے کہ لاپتہ کوہ پیما کی موت کی تصدیق کے بعد محمد علی سدپارہ کا نام پاکستان میں ٹوئٹر ٹرینڈز میں سرفہرست ہے اور لوگ انھیں خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ "گذشتہ 13 دنوں کے دوران ہم سوشل میڈیا پر اس حوالے سے مختلف موضوعات پر بحث دیکھتے رہے ہیں۔ آغاز میں محمد علی سدپارہ کے کے ٹو سر کرنے کی خبر کی تردید اور پھر جعلی خبروں کی مذمت سامنے آئی، اس کے بعد سے ان کے ریسکیو آپریشن اور کسی معجزے کے بارے میں دعائیں بھی کی جاتی رہیں اور کوہ پیمائی اور کوہ پیماؤں کے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر زندہ رہنے سے متعلق سوالات سامنے آتے رہے۔”
پھر مشہور کوہ پیماٰ نذیر صابر کے ایک انٹریو میں کیے جانے والے انکشافات کے بعد علی سدپارہ کا بطور ہائی ایلٹیٹیوڈ پورٹر اس مہم کا حصہ ہونے اور پورٹرز کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کے بارے میں سوالات اٹھ گئے۔
تاہم آج اکثر صارفین یہی سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ ’ہم اپنے ہیروز کی قدر اس وقت ہی کیوں کرتے ہیں جب یا تو وہ مرنے کے قریب ہوتے ہیں یا مر چکے ہوتے ہیں‘۔
نزہت صدیقی نامی صارف نے علی سدپارہ کی ہلاکت کی تصدیق کے بعد اس حوالے سے ٹوئٹر پرکہا کہ علی سدپارہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ’ہم ان کے بیٹے کو کبھی نظرانداز نہ کریں اور اس کی تمام مہمات کو فنڈ کریں اور اس کے لیے سپانسر ڈھونڈیں اور ان کے علاقے کے لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے کام کریں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’برائے مہربانی اپنے ہیروز کو ان کی موت کے قریب یا موت کے بعد نہ سراہا کریں۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد سے آگے بھی زندگی موجود ہے اور سوشل میڈیا کے علاوہ بھی۔‘
وہ کہتی ہیں ’ہمیں مقامی ایڈوینچررز، لکھاریوں، شعرا، سماجی کارکنان، ماحولیاتی کارکنان اور فنکاروں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ انھیں اس وقت عزت دیں جب وہ زندہ ہیں اور انھیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ انھوں سپانسرشپ دیں، انھیں پیسے دیں اور تحفظ کے ساتھ اپنے ہنر پر عمل کرنے کا چانس دیں۔‘
ایک صارف حافظ حسن نے لکھا کہ ’میں امید کرتا ہوں کہ اپنے علاقے کی ترقی کا جو خواب انھوں نے دیکھا تھا وہ ان کی خدمات کے صلے کے طور پر حکومت ضرور پورا کرے گی۔
ایک صارف نے لکھا ہے ’ہمارا سامنا ایسے لوگوں سے بہت کم ہوتا ہے جو مشکلات کا مقابلہ اتنی ہمت سے کرتے ہیں۔ علی سدپارہ نے مشکل وقت میں بھی اپنے خوابوں کی تعبیر کو ترجیح دی اور مہم جوئی کی پہچان بنائی۔‘
اکثر صارفین نے علی سدپارہ کو قومی ہیرو قرار دیا اور کہا کہ وہ ایک لیجنڈ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جبکہ کچھ صارفین اب بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کی وہ اب ہم میں نہیں ہیں اور وہ کسی معجزے کے بارے میں سوچ رہے تھے. بی بی سی کی اضافی رپورٹینگ کے ساتھ