Baam-e-Jahan

سینیٹ انتخابات – چند دلچسپ حقائق

غلام الدین [جی ڈی]

جدید جمہوریتوں میں ایوان بالا ریاستی اکائیوں کی نمائندگی کو برابری کی بنیاد پر یقینی بناتا ہے۔ جبکہ ایوان زیریں میں نمائندگی آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے۔ برطانیہ میں دو ایوانی مقننہ کی تاریخ گیارویں صدی میں "ویٹانز” یعنی "کونسل” ، جس میں بادشاہ کے وزرا اور مذہبی پیشواوں پر مبنی ہوا کرتی تھی ، 13 ویں اور 14 ویں صدی میں دو ایونی مقننہ کا تصور ہاوس آف کامن یعنی ایوان نمائندگان اور ہاوس آف لارڈز یعنی ایوان بالا کے طور پر سامنے آئے۔ سیاسی افق پر نشیب و فراز کا تسلسل جاری رہا یوں بادشاہ اور مذہبی پیشواوں کے اختیارات بتدریج کم ہوتے ہوئے عوام کو منتقل ہوتے رہے اس وقت ہاوس آف لارڈز کے ممبران کی تعداد 800 ہے ان میں سے بیشتر ممبران کی تقرری لائف پئیریج ایکٹ 1958 کے تحت کی جاتی ہے ناموں کی فہرست وزیراعظم، اپوزیشن لیڈر اور دیگر جماعتوں کے سربراہ کی طرف سے ملکہ برطانیہ کو بھیجی جاتی ہے یوں ہاوس کے ممبران کی تقرری مکمل ہوجاتی ہے ۔ ہاوس آف لارڈز کو منی بل کے علاوہ ہاوس آف کامن میں قانون سازی کے لیے پیش ہونے والے تمام بل بھیجے جاتے ہیں جن پر ممبران بحث کرتے ہیں تاہم پالیسی سازی اور حکومت سے جواب طلبی کے حوالے سے ہاوس آف لارڈزکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
امریکا میں بھی دو ایوانی مقننہ کا نظام رائج ہے امریکی کانگریس سینیٹ اورایوان نمایندگان پر مشتمل ہے. برطانوں ایوان بالا ‘ہاوس آف لارڈز’ یا دارلامراء کے برعکس امریکی سینیٹ قانون سازی کا ایک طاقت ور ترین ادارہ سمجھا جاتا ہے. امریکی سینیٹ کے اہم اختیارات میں مواخذے کی کارروائی، وزراء، سفارت کار اور ججز کی تعیناتی، معاہدوں میں مشاورت، صدر، کابینہ اور، اراکین اسمبلی سے جواب طلبی کے علاوہ بے پناہ اختیارات شامل ہیں۔ 1913 تک ریاستی اسمبلیاں بالواسطہ انتخابات کے ذریعے سینیٹرز کا چناو کرتی تھیں، کرپشن اور رشوت ستانی کو روکنے کے لیے 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے براہ راست انتخابات کا قانون پاس کیا گیا. امریکی سینیٹ کی ایک تہائی نشستوں پر ہر دو سال بعد انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور 50 ریاستوں میں ہر ریاست سے دو سینیٹر منتخب ہوکر ایوان میں پہنچ جاتے ہیں۔

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ

پاکستان میں بننے والے دساتیر کا جائزہ لیں تو ملک کے قیام کے نوبرس بعد دوسری دستور ساز اسمبلی نے 29 فروری 1956 میں پہلا آئین کی منظوری دی اور 23 مارچ کو اس کا نفاذ ہوا۔ آئین کے تحت ملک میں یک ایوانی مقننہ پر مبنی پارلیمانی نظام قائم کیا گیا۔ تاہم 14 اگست 1947 سے یکم مارچ 1956 تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کے تحت ریاستی امور چلائے جاتے رہے۔

پہلے آئین کے نفاذ کو بمشکل ڈھائی سال اور پندرہ دن ہوئے تھے کہ جنرل ایوب نے آئین توڑا اور مارشل لاء نافذ کیا ۔ فوجی آمر نےفروری 1960 میں دستور ساز کمیشن قائم کیا اور 1962 میں دوسرا آئین بنایا گیا۔ آئین کے تحت ملک میں صدارتی نظام نافذ کیا گیا اور اس بار بھی یک ایوانی مقننہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔25 مارچ 1969 کو ایک بار پھر ملک کا آئین توڑا گیا. 1970 کے انتخابات کے نتیجے میں 1972 میں ایک عبوری آئین نافذ کردیا گیا۔ 16 دستمبر 1971 کو پاکستان دو لخت ہوا ، مغربی پاکستان کے اراکین اسمبلی نے 12 اپریل 1973 کو متفقہ طور پر آئین منظور کیا، یوں 14 اگست 1973 کو تیسرا آئین نافذ کیا گیا. جس کے تحت پاکستان میں پہلی بار دو ایوانی مقننہ متعارف کرایا گیا اور یہ ایوان قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہے۔

دو ایوانی مقننہ کے تشکیل کا بنیادی وجہ یہ تھی کہ مشرقی پاکستان کی علاحدگی کے بعد چھوٹے صوبوں کی محرومیوں کےخاتمے کے لیے ایوان بالا یعنی سینیٹ کے قیام کے ذریعے تمام اکائیوں کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے۔ ابتدا میں سینیٹ 45 اراکین پر مشتمل تھا، جس میں چاروں صوبوں، وفاق اور فاٹا کو نمائندگی دی گئی۔ 1977 میں اراکین کی تعداد 45 سے بڑھا کر 63، 1985 میں 87، اور 2000 میں ایوان بالا کے ممبران کی تعداد 100 کر دی گئی۔

سینیٹ کے اراکین کی مدت 6 سال ہوتی ہے اور ہر 3 سال بعد نصف اراکین ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے ذریعے چاروں صوبوں سے اقلیتوں کے لیے ایک ایک مخصوص نشست کی منظوری دی گئی. یوں سینیٹ کے اراکین کی تعداد 100 سے بڑھ کر 104 ہوگئی. مذکورہ نشستوں پر مارچ 2012 کے سینیٹ انتخابات میں پہلی بار اقلیتی اراکین سینیٹ کا حصہ بنے ۔مئی 2018 میں جب 25 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا کا خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام ہوا تو فاٹا سے سینیٹ کی 8 نشستوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں سابقہ فاٹا کے 4 ریٹائر ہونے والے ممبران کی نشستوں پر انتخاب نہیں ہوگا یوں مارچ 2024 تک سابقہ فاٹا کے تمام سینیٹر ریٹائر ہونگے اور سینیٹ کے اراکین کی تعداد کم ہوکر 96 رہ جائے گی۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سینیٹ انتخابات کے حوالے سےسابقہ فاٹا سے 12 اراکین قومی اسمبلی پر مشتمل سب سے چھوٹا الیکٹورل کالج ہوا کرتا تھا اور 1985 سے 2018 تک سابقہ فاٹا سے بااثر اور مال دار افراد سینیٹ تک پہنچتے رہے۔

سینیٹ کو ہاوس آف فیڈریشن بھی کہا جاتا ہے جو کبھی بھی تحلیل نہیں ہوتا، ہر تین سال بعد نصف ممبران ریٹائر ہوجاتے ہیں، منی بل کے علاوہ قانون سازی، پالیسی سازی ،مختلف امور پر کابینہ اور انتظامیہ کی جوابدہی بھی ہوتی ہے۔

تین مارچ کا معرکہ

3 مارچ 2021 کو ہونے والے سینیٹ کے انتخابات تاریخ میں پہلی مرتبہ ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں۔ ایک طرف اپوزیشن اپنے امیدواروں کی جیت کے لیے سرگرم ہے تو دوسری جانب حکمران جماعت اور اس کے اتحادی بھی ایوان بالا میں عددی اکثریت حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں. لیکن اس ساری صورت حال میں اسلام آباد کی جنرل نشست پر پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور حکمران جماعت کے امیدوار عبدالحفیظ شیخ کے درمیان سخت مقابلے کا امکان ہے۔ یوسف رضا گیلانی1983 میں آمر جنرل ضیاالحق کے دور میں ہونے والے مقامی حکومتوں کےا نتخابات میں ضلع کونسل ملتان کے چیرمین منتخب ہوئے. بعد آزاں 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں کامیاب ہوئے اور محمد خان جونیجو کی کابینہ میں وفاقی وزیر اور پھر شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں وفاقی وزیر، پیپلز پارٹی کے دوسرے دور میں اسپیکر قومی اسمبلی اور 2008 سے 2012 تک وزیراعظم رہے۔
سابق صدر آصف زرداری کے خلاف مقدمات کھولنے کے حوالے سے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے پر سپریم کورٹ نے انہیں 5 سال کے لیے نااہل قرار دیا. 2017 میں ان کی نااہلی کی مدت ختم ہوئی۔
سیاست کے علاوہ یوسف رضا گیلانی ملتان کی درگاہ حضرت موسی پاک کے گدی نشین ہونے کے باعث مریدین اور پیروکاروں کا حلقہ خاصا وسیع ہے۔
عبدالحفیظ شیخ نے بھی اپنے سیاسی سفر کا آغاز سابق آمر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار سے بطور صوبائی وزیر خزانہ، مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر 2003 ، 2006 اور 2012 میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر تین مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے. وہ آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف، پیپلز پارٹی کے دور میں وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت میں معاون خصوصی برائے خزانہ ہیں، عالمی بینک اور مختلف ممالک میں بطور ماہر معاشیات کے خدمات انجام دینے کا شہرت رکھتے ہیں۔ حفیظ شیخ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ عالمی مالیاتی اداروں اور پاکستان کے سرمایہ دار طبقے میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ سینیٹ انتخابات کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم نے وزراء اور اراکین اسمبلی کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ انتخابات کو ہلکا نہ لیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی جیت کی صورت میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ آسکتا ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت خطرے میں پڑ سکتی ہے. دوسری جانب حکومت اور اتحادی نہیں چاہتے کہ نئے انتخابات ہوں. وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے. کیونکہ انتخابات کی صورت خراب کارکردگی کے باعث انہیں حلقہ مسترد کیا جاسکتا ہے۔ اس خوف کے عالم میں حکومت اور اتحادی ہر ممکن کوشش میں ہیں کی یوسف رضا گیلانی کو شکست ملے اور ساتھ ہی مطلوبہ اہداف حاصل ہوں۔ حالات کی سنگینی بھانپتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے تمام مصروفیات ترک کرکے ووٹرز پر پہرہ دینا شروع کیا ہے ایسے میں گیلانی نے وزیراعظم سمیت اراکین اسمبلی کو خطوط لکھ کر ووٹ مانگا ہے۔ پاکستان کے سیاسی رموز کے ماہر سابق صدر آصف علی زرداری بھی اسلام آباد میں پس پردہ جوڑ توڑ کے عمل میں سرگرم ہوچکے ہیں۔
3 مارچ کو سینیٹ کی 48 نشستوں پر انتخابات ہونا تھے جن میں سے پنجاب کی تمام 11 امیدواروں کو بلا مقابلہ کامیابی ملی ہے اب سندھ کی 11، بلوچستان کی 12، خیبر پختونخوا کی 12 جبکہ اسلام آباد کی 2 نشستوں پر میدان سجھنا ہے۔
بات کی جائے بلوچستان کی تو چیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اپوزیشن جماعتوں کو 12 میں سے چار نشستوں کی پیش کش کی ہے لیکن اپوزیشن کا ڈیمانڈ ہے کہ انہیں 5 سے 6 سیٹیں ملنی چاہیے، تب ڈیل کامیاب ہوسکتی ہے۔
سندھ میں بھی صورت حال کافی دلچسپ ہے،سندھ سے سینیٹ کی 11 نشستوں میں سے 7 پر پیپلز پارٹی جب کہ 4 پر حکومتی اتحاد ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور تحریک انصاف کی کامیابی کے امکانات ہیں۔ خیبر پختونخواہ کی 12 نشستوں میں سے 10 نشستوں پر تحریک انصاف جبکہ 2 نشستیں اپوزیشن کے حصے میں آسکتیں ہیں۔
ہائبریڈ جمہوریتوں میں سیاسی مخالفین پارٹی یا ذاتی مفادات کو مفاد عامہ پر قربان کرنے میں کوئی دیر نہیں لگاتے ایسا ہی ڈرامہ گزشتہ ہفتے پنجاب اسمبلی کے الیکٹورل کالج میں پیش آیا جب 11 نشستوں پر مسلم لیگ ن، پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے مابین مک مکا ہوا، 5 تحریک انصاف، 5 مسلم لیگ ن اور سینیٹ کی ایک سیٹ 10 نشستوں والی مسلم لیگ ق لے اڑی۔ پوری قوم حیریت میں مبتلا ہے کہ ایک دوسروں کو چور ، ڈاکو اور کالم گلوج کرنے والی جماعتیں مشکل ترین الیکٹورل کالج سے سیٹیں اپنے نام کرکے سیاسی جوڑ توڑ کا نیا ریکارڈ قائم کیا، اس سارے کھیل سے عوام میں یہ تاثر ابھرا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا مقصد ایوانوں تک پہنچنا ہے نہ کہ جمہوری عمل کو صاف و شفاف انداز سے آگے بڑھانا۔ اس ساری صورت حال میں دو کرداروں کا رول اہم نظر آتا ہے ایک تحریک انصاف کے مین آف کرائسس جہانگیر خان ترین اور دوسرا کھلاڑی چوہدری پرویز الہی ہیں جہنوں نے سیاسی شطرنج پر ناممکن کو ممکن بنا کر متجسس عوام کو حیرت میں ڈالا ہے۔
ہرگزرتے لمحے کے ساتھ 3 مارچ کو ہونے والا سینیٹ کا انتخاب دلچسپ ہوتا جارہا ہے۔ حکومت عددی اکثریت کا ہدف حاصل کرکے قانون سازی کے مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے تاکہ اپوزیشن کے خلاف جاری نیب کارروائیاں جاری رہے سکیں۔ حکومت پر اپوزیشن اور سیاسی حلقوں کی جانب سے دباو ہے کہ وہ آرڈیننسز پر اکتفا کیے ہوئے ہے۔

رقم کی لین دین

پیسوں کی لین دین کے باعث سینیٹ انتخابات ہر دور میں متازعہ رہے ہیں، حکومت اوپن بیلٹ کے ذریعے سینیٹ میں کرپشن کو روکنا اور عددی تناسب سے سینیٹر منتخب کرانا چاہتی تھی جس کے لیے صدر پاکستان نے آرٹیکل 186 کے تحت صدراتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ سے ایڈوائس لیا کہ "سینیٹ کے انتخابات آئینی کے آرٹیکل 226 کے تحت ہوتے ہیں یا نہیں؟” عدالت نے طویل سماعت کے بعد گزشتہ روز اپنے رائے میں کہا کہ سینیٹ کے انتخابات آئین اور قانون دونوں کے تحت ہوتے ہیں” الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ صاف شفاف اور کرپٹ پریکٹسز سے پاک انتخابات کا انعقاد کرائے اور آئین کے آرٹیکل 226 میں ترمیم کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے” سپریم کورٹ کے پانچ میں سے چار ججز نے کہا کہ بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں” جبکہ بیچ کے ممبر جسٹس یحیی آفریدی نے اختلاف کیا۔ سپریم کورٹ نے اپنی رائے میں کہا ہے کہ بیلٹ پیپر کا خفیہ رہنا ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتا الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 218 کے تحت اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سینیٹ انتخابات کا شفاف انداز میں انعقاد کرا سکتا ہے”۔ تاہم الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق الیکشن پرانے طریقہ کار کے تحت ہی ہونگے۔
چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں اجلاس ہوا جس میں چاروں ممبران نے شرکت کی، اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی رائے پر عملدر آمد کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کردی گئی ہے جو چار ہفتے میں رپورٹ پیش کرے گی۔ الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری سے ہی ہونگے اور انتخابات میں بیلٹ پیپر ماضی کی طرح ہونگے۔ اب دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے آئینی و قانونی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے شفافیت کو یقینی بناتا ہے یا ماضی کی طرح لین دین کا بازار گرم رہتا ہے۔

غلام الدین [جی ڈی]، گزشتہ 18 برسوں سے نشریاتی اداروں سے بطور صحافی وابستہ ہیں. وہ سیاست، معیشت اور زبانوں پر قومی و بین الاقوامی اخبارات میں مضامین لکھتے ہیں. انہیں دستاویزی فلمیں بنانے اور اسکرپٹنگ پر مہارت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر بطور تجزیہ کارتبصرہ کرتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں