تحریر: گل نیاب شاہ کیسر
قوم پرست رہنما نواز خان ناجی جب بھی اپنے مخصوص تلخ لہجے میں بات کرتے ہیں تو ہمارے اردگرد نقابوں میں چھپے بہت سے چہرے بے نقاب کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سماج میں مدلل گفتگو اور تعمیری تنقید کی گنجائش نہیں ہے ۔ نتیجتاً، ہم تعصب اور تنگ نظری کی دلدل میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔اس کا اظہار ،حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے سبھی احباب نے دیکھا۔ گلگت بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اُسی منفی پالیسی کا آغاز کیا جس کی وجہ سے وفاق میں وزیر اعظم عمران خان کو تنقید کا سامنا ہے۔ یعنی اپنی ناکامیوں کا ملبہ اپوزیشن پہ ڈالنا اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص ٹولہ مقرر کرنا جس کا واحد مقصد ’اپوزیشن چور ہے‘ کا راگ الاپنا ہے ۔ یہ عمل اسمبلی سے لے کر سرکاری تقریبات تک، پارٹی اجلاسوں سے لے کر بیرون ملک دوروں تک، ہر جگہ بلا کم و کاست دہرایا جارہا ہے۔
پچھلے چند دنوں سے ہم یہی روایت گلگت بلتستان میں دیکھ رہے ہیں۔ یہاں وزیر اعلی سے لے کر وزیر و مشیر سب کی زبان پہ جعلی قوم پرستی کا الزام ہے۔ گو ان الزامات سے کسی کو فرق نہیں پڑتا ، مگر جن لوگوں کو عوام نے منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجا ہے وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے کھوکھلے نعروں تک محدود رہیں تو سوال اُٹھیں گے۔ اقتدار سنبھالتے ہی وزیر اعلی خالد خورشید اور ان کے ترجمان علی تاج نے اعلان کیا تھا کہ جعلی قوم پرستوں کو سبق سکھایا جائے گا جو گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔ اس بیان سے ٹھیک اُسی غیر سنجیدہ اور متکبرانہ رویے کا اظہار ہوا جو تحریک انصاف نے وفاق میں روا رکھا ہوا ہے ۔ تحریک انصاف کو آگاہ رہنا چاہیے کہ یہ سنہ 2000 یا اس سے پہلے کا زمانہ نہیں ہے کہ نوجوان کہی سُنی باتو ں سے گمراہ ہوں، یہ 2021 ہے اور آج کا نوجوان ہر لحاظ سے باشعور ہے۔
یہ بات تفصیل طلب ہے کہ جعلی قوم پرستوں سے حکومت کی مراد کون ہے؟ عبدالحمید د خان اور حیدر شاہ رضوی شہید کے بیٹے کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ، جبکہ دوسری طرف نواز خان ناجی ہیں۔ اس پر گفتگو آئندہ کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ فی الحال ہمارا موضوع حکومت کا اپوزیشن کے خلاف جعلی قوم پرستی کا بیانیہ ہے۔
اس بحث کا آغاز تب ہوا جب گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان کے دورۂ گلگت کے موقع پر غذر کے منتخب نمائندوں نے حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ترقیاتی منصوبوں میں غذر کو نظر انداز کیے جانے پر گاہکوچ میں ایک احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا۔ اس جلسے میں اپوزیشن رہنما نواز خا ن ناجی نے اپنے مخصوص تلخ اور کھرے انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ ان کے ساتھ مسلم لیگ نون کے غلام محمد اور فدا خان صاحب بھی موجود تھے۔۔ اس کے جواب میں وزیر اعلیٰ کے ترجمان علی تاج میدان میں آگئے ۔ انھوں نے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے حکومتی موقف بتانے کی بجائے نواز خان ناجی پر جعلی قوم پرستی کا الزام لگایا اور اشتعال انگیز زبان استعمال کی۔ اس اشتعال انگیزی کا حکومت کو یہ فائدہ ہوا کہ بحث کا رُخ ترقیاتی منصوبوں سے ہٹ کر قوم پرستی اور بوٹ پالشی کی طرف چلا گیا۔ جناب ترجمان کے تاثر کے حوالے سے میرا تبصرہ سوشل میڈیا پر موجود ہے۔
یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں تھا کہ کل سکردو روڈپر صوبائی وزیر صحت، گلبر خان اور سکردو روڈ کی تعمیر میں مصروف عسکری ادارے ، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے اہلکاروں کے مابین ایک نا خوشگوار واقعہ پیش آیا۔ صوبائی وزیر نے تشدد ، قومی پرچم کی توہین اور اُن کے عہدے کا استحقاق مجروح کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے ایف ڈبلیو او کے افسران اور اہلکاروں کے خلاف پرچہ کٹوا دیا۔بظاہر اس واقعے کا قوم پرستوں یا قوم پرستی سے کوئی تعلق نہیں ، بلکہ یہ ایک عوامی نمائندے کی عزت اور حکومت کی ساکھ کا معاملہ ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ صوبائی وزیر اطلاعات فتح اللہ خان نے اس سارے واقعہ پر حکومت کا موقف بیان کرنے کی بجائے ، مبینہ جعلی قوم پرستوں کو رگڑ دیا۔
مجھے حیرت ہے کہ آخر اس حکومت کو سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ہر معاملے سے نمٹنے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے ۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے حساس واقعات پر پالیسی بیان جاری کرے اور یہ وزیر اطلاعات یا حکومتی ترجمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو حقائق سے آگاہ کریں ۔ وفاق کی طرح گلگت بلتستان میں بھی حکومت ہر معاملے میں بے تکے الزامات کا سہارا کیوں لے لیتی ہے؟ آخر اس نظام کی خامیوں کے ہمارے اوپر کھل کر عیاں ہونے کے باوجود ہم کیوں خود کو زبردستی اسی کیچڑ میں دھکیل دیتے ہیں؟ آخر کب ہم ایک سنجیدہ سیاسی ماحول میں زندگی گزارنا شروع کریں گے جہاں بات دلیل کی بنیاد پر ہو اور لہجے میں بدنیتی نہ ہو؟
یاد رہے اگر گلگت بلتستان حکومت نے وہی طرز عمل اپنایا جو وفاقی حکومت نے اپوزیشں کے خلاف اپنا رکھا ہے، تو سوائے اپنی مشکلات میں اضافہ کرنے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ جو بڑے منصوبے وفاق کی طرف سے گلگت بلتستان کو ملے ہیں ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کی حکومت قوم پرستوں کے خلاف محاز آرائی ترک کرے اور ان کو اعتماد میں لے کر اور تمام مسائل افہام و تفہیم سے حل کرے۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو گلگت بلتستان میں پہلی مرتبہ حکومت ملی ہے ۔ اس کے پاس ایک سنہرا موقع ہے کہ وہ ایک منظم سیاسی جماعت کی حیثیت سے یہاں اپنی جڑیں مضبوط کرے۔ اس مقصد کے لئے عوام کا بھروسہ جیتنا لازم ہے اور ترقیاتی منصوبوں کو احسن انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچا کے ہی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ، صوبائی حکومت کو اپنی تمام توانائیاں اور وسائل عوامی مشکلات کے حل اور منصوبوں کی بروقت تکمیل پر صرف کرنے چاہئیں۔ بلا ضرورت محاذ آرائی اور سیاسی گرمی سے شاید کچھ بونوں کا قد بڑا ہو مگر حکومت اور عوام کو کچھ حاصل نہ ہوگا۔
علاوہ ازیں، حکومت کی ترجمانی انتہائی ذمہ دارانہ اور سنجیدہ رویے کی متقاضی ہے۔ گلگت بلتستان میں سماجی گونا گونی کی بدلت بہت سے معاملات انتہائی حساسیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے میں حکومتی مشیروں اور ترجمانوں کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو اور الزام تراشی نئی مشکلات پیدا کرے گی۔ ترجمان کا کام اپنی حکومت کا مثبت تاثر اُجاگر کرنا ہوتا ہے ، نہ کہ دوسروں پر کیچڑ اُچھال کر اپنا بھی دامن داغ دار کرنا۔ لہٰذا ، احتیاط ہی صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے
One thought on “جعلی قوم پرستی کا بیانیہ ۔۔۔ حکومتی پالیسی یا بوکھلاہٹ ؟”
نواز خان ناجی کا تصویر اس لڑکے کے ساتھ لگانے کےلئے بہتر تھا کہ اس لڑکے کے جگے عمران خان اور خالد خورشید کا تصویر لگاتے۔