تحریر : یاور عباس
نگر قدرتی حسن اور وسایل سے مالامال ضلع ہے۔ یہاں کے خوبصورت مقامات، پہاڑ، گلیشرز اور وادیاں دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں صحت اور تعلیم جیسے بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہے۔
ان دنوں نگر کے نوجوان اکیسویں صدی میں بھی تعلیم اور صحت جیسے بنیادی انسانی حقوق سے محرومی کے خلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔
آج ہم صحت کے مسائل پر بات کریں گے کہ آخر نگر میں صحت کے اتنے گھمبیر صورتحال کیسے پیدا ہوئے اور ان کا حل کیسے ممکن ہے۔ سب سے پہلے نگر میں موجود ہسپتالوں اور صحت کے مراکز کا جائزہ لیں گے اور سرکاری اعداد شمار پر ہی بات کریں گے۔
ضلع نگر میں اس وقت 30 بستروں پر مشتمل دو ہسپتال ہیں۔ ایک حلقہ پانچ نگر خاص اور ایک حلقہ چار سکندر آباد میں ہے۔ نگر خاص کے ہسپتال میں کل 149 آسامیاں ہیں، جن میں ڈاکٹروں، پیرامیڈیکل اسٹاف سمیت گریڈ 1 تک کے ملازمین شامل ہیں۔ لیکن سرکاری کاغذات اور زمینی حقائق میں بہت بڑا تضاد ہے۔ 30بستروں کے ہسپتال کے لئے 149 ملازمین کی ضرورت ہے۔ جب کہ سرکار نے اب تک صرف 53 اسامیوں پر ملازمین بھرتی کی ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اگر 53 ملازمین سے دن رات کام لیا جاےٗ تب 96 ملازمین کی کمی کو پوری کر سکتے ہیں۔ اس سے بھی سنگین صورتحال 30 بستروں کے ہسپتال سکندر آباد کی ہیے۔ جہاں کل آسامیاں 149 ہیں اور بھرتی ملازمین کی تعداد صرف 27 ہے۔ جب کہ اس ہسپتال میں ہنزہ نگر سمیت شاہراہ قراقرم پر ہونے والے تمام حادثات اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں زخمی اور مریضوں کو یہاں منتقل کیا جاتا ہے۔ ایسے میں کیسے 27 ملازمین 122 ملازمین کی کمی کو پورا کر سکتے ہیں، افسوس کا مقام یہ ہے کہ ضلع نگر کے عوامی نمائندے غفلت کی نیند سو رے ہیں۔
لوگوں کے مصایب کی داستان یہاں پر ختم نہیں ہوتا ہے۔ اسقرداس میں 10بستروں کے ہسپتال کے لئے 39 ملازمین بھرتی ہونے تھے لیکن ابھی تک کسی ایک کو بھی بھرتی نہیں کیا گیا ہے۔ میاچھر میں موجود ضلع نگر کی واحد زچہ و بچہ ہسپتال جس کو چلانے کے لئے سرکاری کاغذ میں سات اسامیوں کی منظوری دی گیی ہے۔ لیکن ابھی تک ایک کو بھی پر نہیں کیا جاسکا۔
اس کے علاوہ ڈاڈیمل اور سونی کوٹ چھلت کے فرسٹ ایڈ سنٹرز کی عمارتیں تو تعمیر ہوئے لیکن سات میں سے کسی ایک ملازم کو بھرتی نہیں کیا گیاہے۔ یہ صرف چند علاقوں کے تفصیلات ہیں۔ باقی علاقوں میں اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔
نگر کے مصائب بہت زیادہ ہیں جن کو ایک کالم میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے یہاں کے عوام اکیسویں صدی میں بھی صحت جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔
سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے گزشتہ 30 سالوں سے عوام کے درمیان اتنی نفرتیں پیدا کی ہے جس کے بدولت یہاں بھائی بھائی کا دشمن بنا ہے۔ عوام تقسیم در تقسیم ہیں۔ سیاسی و مذہبی لوگ اپنے ذاتی مفادات میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ان کو عوام کے مشترکہ مسایل کا خیال ہی نہیں۔
اس صورتحال سے تنگ اکر نگر کے نوجوانوں نے مشترکہ جدوجہد شروع کی ہے۔ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی، مذہبی، طلبہ تنظیم یا علاقے سے ہو اس وقت نگر کے حقوق کے لئے ایک ہونے کی بھرپور کوشش کر رہیں اور کسی حد تک اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوچکے ہیں۔ جن میں محکمہ تعلیم، محکمہ صحت کے ملازمین کی نوٹیفکیشن سمیت باب نگر کے مسایل کو بہت ہی احسن طریقے سے حل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہیں۔
نگر کی ضلعی انتظامیہ خصوصآ ڈپٹی کمشنر نگر جناب ذوالقرنین حیدر خان اور ڈی ایچ او نگر، ایس پی نگر کی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور تعاون بھی قابل ذکر اور خوش آئند بات ہیں۔ گلگت بلتستان خصوصآ نگر میں ایسا پہلی بار ہو رہا کہ نوجوان اور ضلعی انتظامیہ مل کر مسائل کو حل کرنے میں مصروف ہیں۔
ہماری دعا ہیں اللہ تعالٰی ان تمام لوگوں کی توقعات میں اضافہ فرمائیں جو خلق خدا کے لئے آسانیاں پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ آمین۔
یاور عباس ایک متحریک نوجوان سیاسی، سماجی اور سوشل میڈیا کارکن ہیں۔ وہ عوامی مساٗیل پر تواتر کے ساتھ لکھتے ہیں۔