Baam-e-Jahan

امریکہ اور چین کی بازی بزرگ اور ہماری ترجیحات

ٗافغان بحران

تحریر: علی احمد جان

میں 2004ء میں کابل گیا تھا امریکی اور اس کے اتحادیوں کی فوجیں موجود تھیں۔ جب فوجی بڑی کانوائے کی شکل میں بازار سے گزرتے تھے تو لوگ بڑی امیدوں سے ان کی طرف دیکھتے تھے۔ لوگوں کو امید تھی کہ ترقی معکوس کا سفر جو روسیوں کی رخصتی کے ساتھ شروع ہوا تھا وہ نہ صرف رک سکے گا بلکہ آگے کی جانب بھی بڑھ جائے گا۔

دنیا بھر سے افغانی وطن واپس لوٹ رہے تھے۔ ہمارے ساتھ اسلام آباد سے کابل جاتے ہوئے ایک ہمسفر خاندان سعودی عرب سے وطن واپس آ رہا تھا۔ پورے خاندان نے کابل پہنچتے ہی پہلے اپنی زمین کو چوم کو سجدہ شکر بجا لایا۔

کابل میں بازاروں، ہوٹلوں، گھروں کی تعمیر نو ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کے دور تک کوئی گولی نہیں چلی تھی مگر اس کے بعد امن اور سلامتی کے نام پر کابل پر قبضہ کرنے والوں نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ جب میں نے دیکھا تھا تو تب شہر کی کافی حد تک تعمیر نو ہو گئی تھی۔ مگر جہاں جہاں پرانی دیواریں موجود تھیں گولیوں اور گولوں کے نشانات واضح دکھائی دیتے تھے جو اس شہر پناہ میں ہونے والی تباہی اور بربادی کی گواہی دے رہے تھے۔

باغ بابری، کابل یونیورسٹی اور چند جگہیں دیکھنے کا موقع ملا۔ کابل میں ہر طرف چہل قدمی تھی رونق تھی اور گاڑیوں سے ہندی گانے سنائی دے رہے تھے۔ کا بل کے مکینوں کی پاکستانیوں سے کوئی زیادہ ہمدردی نہیں رہی تھی۔ اس لئے ہمارے میزبانوں نے ہمیں لوگوں میں جانے اور اپنی شناخت بتانے سے منع کیا ہوا تھا جس پر عمل کرنا ہمارے لئے شرط سفر تھا۔ کابل کو ہنستا بستا آباد ہوتا دیکھ کر خوشی ہو رہی تھی مگر آمریکہ کا ماضی اور اس کی انسانی ہمدردی کی تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے دل نہیں مان رہا تھا کہ کابل کی ترقی کا سفر مستقل ہوگا۔ آمریکہ ایک ایسا ملک ہے جس کی معاشیات جنگ اور بربادی سے جڑی ہوئی ہے تو وہ امن اور ترقی کو فروغ دے کر خود کو کمزور کیوں کرے گا؟

گزشتہ 20 سالوں میں افغانستان میں جو کچھ ہوا اس کا خمیازہ براہ راست پاکستان کو اٹھانا پڑا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ستر ہزار سے زیادہ پاکستانی جو کسی بھی اعلانیہ جنگ میں مرنے والوں سے زیادہ ہیں، ایک ایسی جنگ میں مارے جا چکے جو کبھی لڑی ہی نہیں گئی۔ کوئی شہر، قصبہ ایسا نہیں جو دہشت گردی سے محفوظ رہا ہو اور کوئی گاؤں دیہات ایسا نہیں جہاں کوئی نہ مرا ہو۔ انسانی جانوں کے علاوہ معاشی نقصان کا تخمینہ کھربوں ڈالروں میں لگایا جاتا ہے۔

افغانستان میں بدامنی کا خمیازہ صرف انسانی جانوں اور معاشی نقصان تک ہی محدود نہیں بلکہ سماجی نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے جو ناقابل تلافی ہے۔ پاکستانی سماج 2001ء سے پہلے اور اس کے بعد واضح طور پر تقسیم ہو چکا ہے۔ عدم برداشت، مذہبی منافرت، فرقہ پرستی، تکفیریت اور انتہا پسندی کو اس قدر فروغ ملا ہے کہ اب پاکستان نے شاید سب کو کئی محاذوں پر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ مدرسے تو ایک طرف جامعات اور کالجوں میں طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات دوہرانے کی ضرورت نہیں جن کی کہیں اور مثال کم ملتی ہے۔

گزشتہ کچھ دنوں سے امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے اعلان کے بعد رونماء ہونے والے واقعات عام شہریوں کے لئے تو ناقابل فہم ہیں ہی مگر ہماری حکومت کے لئے بھی شاید ناقابل یقین ہیں۔ ایک رات میں امریکی افواج کا افغان حکام کو اطلاع دیے بغیر بگرام کا ہوائی اڈہ خالی کرنا اور اپنے چھوڑے ساز و سامان کی کھلی لوٹ مار کی اجازت دینا، جگہ جگہ اسلحہ اور گولہ بارود طالبان کے حوالے کرنا، جہاں جہاں امریکی فوج کے اڈے موجود تھے وہاں افغان سیکیورٹی فورسز کی طرف سے بغیر مزاحمت کے طالبان کو قبضہ کرنے دینا اور مقامی لوگوں کی طرف سے بلا چون و چرا طالبان کو خوش آمدید کہنا، یہ سب باتیں ماضی سے مختلف ہیں۔

واقعات و شواہد اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ غیر متوقع ہے۔ مگر اچانک نہیں ہوا ہے اس کے پیچھے بھی کوئی سوچ کارفرما ہے۔ اگر امریکی فوج نے غلطی سے اسلحہ اور گولہ بارود طالبان کے حوالے کیا ہے تو یہ نہ صرف اس کی فاش غلطی ہے بلکہ اس کی شرمناک شکست کا ثبوت بھی ہے کیونکہ یہ غلطی تاریخ میں اسلحہ چھوڑ کر میدان جنگ سے بھاگ جانے سے تعبیر کی جائے گی اس لئے یہ بات ہمارے پالیسی سازوں کے لئے ناقابل یقین ہے۔

اگر امریکہ نے کسی اعلانیہ یا خفیہ معاہدے کے تحت طالبان کو پہنچے نقصان کی تلافی، تاوان یا ازالے کے طور اسلحہ اور ساز و سامان حوالہ کیا ہے تو یہ افغانستان میں ایک مستقل خانہ جنگی کی بنیاد ہے جو اگلی کئی دہائیوں تک جاری رہے گی اور اس سے کوئی بچ نہیں پائے گا حتٰی کہ امریکہ خود بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ بات امریکہ کے افغانستان میں داخل ہونے اور 20 سالوں تک کثیر سرمایہ خرچ کرنے کو بے مقصد اور بے نتیجہ بنا دیتی ہے اس لئے امریکی پالیسی سازوں کے لئے ناقابل یقین ہے۔

چین کا گھیراو؟

ایک تیسرا امکان جو تجزیے سے زیادہ سازشی تھیوری کے زمرے میں آتا ہے وہ یہ کہ امریکہ کی طالبان کے ساتھ کوئی ڈیل ہو چکی ہے کہ وہ روس کے بعد چین کے علاقے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ افغانستان کی تاریخ کے اس نازک موڑ پر ملک کے وزیر دفاع کے بغرض علاج امریکہ میں مقیم ہونے کو بھی افغان حکومت کی اس امر پر یکسو نہ ہونے سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس سازشی تھیوری کو طالبان کے چین اور وسطی ایشائی ممالک کی سرحدوں سے ملحق بدخشان اور دیگر صوبوں میں بغیر مزاحمت کے کنٹرول حاصل کرنے سے بھی تقویت ملتی ہے۔

اگر اس سازشی تھیوری کے پیچھے کوئی صداقت ہے تو پھر مستقبل میں پاکستان کی مشکلات میں زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے لئے چین سے دوستی کا دم بھرنے اور امریکہ سے منہ موڑنے میں کسی ایک کا انتخاب مشکل مرحلہ ہوگا۔ دونوں کو ساتھ ساتھ چلانا بھی اتنا آسان نہیں ہوگا، جب امریکہ کے بعد چین ’ڈو مور‘ کے منتر کے ساتھ سامنے آئے گا۔ اگر اس سازشی تھیوری کے پیچھے صداقت کا تھوڑا بہت بھی شائبہ ہے تو سب سے زیادہ مشکل میں چترال اور گلگت بلتستان خاص طور پر بالائی غذر اور ہنزہ میں گوجال کے لوگ ہوں گے جن کے ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کی طرح روندے جانے کے امکانات زیادہ ہیں جس کے اشارے بھی پچھلے ایک عرصے سے مل رہے ہیں۔

طالبان کے افغانستان میں دیگر ممالک خاص طور پر چین کی سرحدوں سے ملحقہ علاقوں میں پیش قدمی کے ساتھ ہی گلگت بلتستان خاص طور پر شاہراہ قراقرم پر مسلح جھتوں کی رونمائی اور ریاستی اداروں کی خاموشی سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہو گیا ہے کہ شاید ایک بار پھر بین الاقوامی طاقتیں اس خطے میں اپنا جال بچھانے کی تیاری کر رہے ہیں۔

افغانستان کے معاملے میں تاریخ کے اسباق بھی کافی تلخ ہیں۔ امریکہ کی مختصر سی تاریخ ہی بے وفائی، بے رخی اور خود غرضی سے بھری ہوئی نہیں بلکہ افغانوں نے بھی خانہ خدا میں حلف لے کر بھی پاسداری نہیں کی اور پاکستان نے بار بار دھوکہ کھانے کے بعد بھی ہمیشہ امریکہ پر اعتبار کیا ہے۔

گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے جاری گریٹ گیم جو وسطی ایشیا میں روس اور برطانیہ کے بیچ مقابلہ، تناؤ اور کشیدگی کا کھیل تھا۔ سویت یونین کے تحلیل ہونے اور برطانیہ کے سمٹ جانے کے بعد اس گیم کے کردار بدل گئے ہیں۔ برطانیہ کی جگہ امریکہ نے اور روس کی جگہ چین نے لے لی ہے۔ مگر مقصد وہی ہے پہلے روس کو گرم پانیوں تک آنے سے روکنا تھا اب چین کو۔ وسطی ایشیاء کا وہ علاقہ جو چین کو براستہ گلگت بلتستان مشرقی وسطی اور مغرب سے ملاتا ہے اس سے کٹ جائے تو چین کے وہ تمام خواب چکنا چور ہوسکتے ہیں جو اس نے ”بیلٹ اینڈ روڑ“ یعنی ’ایک خطہ ایک سڑک‘ کی شکل میں دیکھے ہیں۔ اور یہی امریکہ کی خواہش ہے۔ کیا ہم نے طے کیا ہے کہ ہماری ترجیح کیا ہے؟

یہ مضمون پہلے ہم سب میں شایٗع ہوا تھا۔


علی احمد جان کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ وہ سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں۔ انہیں کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے۔


اپنا تبصرہ بھیجیں