تحریر: شیر علی انجم
دو اگست کو وزیر قانون فروغ نسیم نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ حکومت گلگت بلتستان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عبوری صوبہ کی حیثیت دینا چاہتی ہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر تکنیکی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں مگر اقوام متحدہ کےقراردادوں کے مطابق جو علاقہ جس ملک کے زیر انتظام ہے وہاں اُس ملک کی انتظامی اختیارات چلتے ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے پانچ اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر میں جوکچھ کیا وہ اقوام متحدہ کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ بھارت کو اسے واپس لینا چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا گلگت بلتستان کی اسمبلی اور وہاں کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کامطالبہ کیا ہے۔ اس بنیاد پر حکومت نے کشمیر کے مسئلہ پرکسی قسم کا کوئی سمجھوتہ کئے بغیر گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ گلگت بلتستان کی نمائندگی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی ہوگی۔
ان کی باتوں کو سننے کے بعد سب سے پہلے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ دراصل مسئلہ کشمیر ہے کیا؟ اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سےسلامتی کونسل کے جن قراردادوں کا فروغِ نسیم نے ذکر کیا ہے وہ کیا کہتے ہیں؟ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا وہ قرارداد جس پر ہندوستان اور پاکستان اتفاق کرتے ہیں وہ ہے مسئلہ کشمیر پررائے شماری ۔ لیکن رائے شماری کیلئے دونوں ممالک نے عملی طور پر کیا کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب یقینا دونوں ممالک کے حکمرانوں کے پاس نہیں ہے۔
ہمارا مسئلہ کشمیر کی سولی پر لٹکے گلگت بلتستان ہے جو براہ راست پاکستان کے زیر انتظام ہے اور آزاد کشمیر کی حکومت بھی گلگت بلتستان کے مسئلے پر اپنے آپ کو ایک فریق سمجھتی ہے۔ لیکن عملی طور پر گزشتہ 74سالوں سے مسئلہ گلگت بلتستان کو صرف رنگ برنگی نعروں اور ‘اصلاحاتی پیکیجز’ کے ذریعے ٹرخایا جارہا ہے۔
اگر ہم گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ کا مختصرجائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یکم نومبر 1947 کی آزادی سلب ہونے کے بعد اس خطے کو سلامتی کونسل کے قراردادوں کے مطابق حقوق دینے کی بجائے اور 28 اپریل 1949 کے کراچی معاہدہ کے تحت اسلام آباد نے گلگت بلتستان کا کنٹرول حاصل کرنے سے پہلے ہی پولٹیکل ایجنٹ اور اسسٹنٹ پی اے کے ذریعے انتظامی ڈھانچہ کو ایف سی آر اورایجنسی نظام کے تحت چلایا جاتا رہا۔ معاہدہ کراچی کے بعد بھی اس خطے کو سیاسی جمہوری نظام کے تحت چلانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ البتہ گزرتے وقت کے ساتھ وفاق کی جانب سے تعین ہونے والے ان عہدوں میں تبدیلی کرتے گئے ، اور یہاں ریذیڈنٹ، ایڈمنسٹریٹر، چیف کمشنر اور چیف سیکریٹریز کی حیثیت سے وفاقی نمائندے خطے کے انتظام و انصرام سنبھالتے رہے۔ خطے کی سیاسی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے1961میں پہلی بار بنیادی سیاسی نظام کی بنیاد رکھ کر انتخابات کروائے گئے۔ اسی طرح1979میں پہلی مرتبہ شمالی علاقہ جات ایڈوائزری کونسل تشکیل دی گئی۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو نے خطے میں سیاسی اور انتظامی اصلاحات لاتے ہوئے گلگت بلتستان کو الگ الگ اضلاع کا درجہ دیا اور ایف سی آر اور ایجنسی نظام ختم کر کے لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا۔1972اور1974کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کا خود دورہ کیا اور بھرپور عوامی مطالبات پر ضلع دیا میر، ضلع غذر اور ضلع گانچھے کا قیام عمل میں لایا اور کئی مقامی جماعتوں کو ختم کرکے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔
سن 1977 میں جب پاکستان میں مارشل لاء لگایا گیا تو گلگت بلتستان کو پانچواں زون قرار دے کر یہاں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ حالانکہ دونوں خطوں کی قانونی حیثیت ایک ہونے کے باوجود آزاد کشمیر اس کالے قانون سےمستثنی رہے۔ اسی طرح 1979میں گلگت بلتستان میں ناردرن ایریاز لوکل گورنمنٹ آرڈر نافذ کیا گیا۔ بعد ازان1984میں غلام مہدی (سکردو)، میر غضنفر (ہنزہ) اور وزیر افلاطون (استور) کو پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ میں مبصر نامزد کیے گئے۔1991میں پہلی بار ناردرن ایریاز کونسل میں خواتین کے لیے دو نشستیں مختص کیے جانے کےبعد ارکان کی تعداد سولہ سے بڑھ کراٹھارہ ہوگئی۔1994میں شہید بے نظیر بھٹو نے ایک پیکج دیا جس کے تحت پہلی مرتبہ ناردرن ایریاز کونسل کے انتخابات جماعتی بنیادوں پر کرائے گئے اور ارکان کونسل کی تعداد کو16 سے بڑھا کر 26کر دیا گیا جس کے تحت غذر اور گانچھے کے اضلاع کو تین تین جب کہ دیگر تین اضلاع سکردو، گلگت، دیامیر، کو چھے چھے سیٹیں دی گئیں۔ گلگت بلتستان کے وفاقی وزیر کو چیف ایگزیکٹو بنایا گیا اور ناردرن ایریاز کونسل سے ڈپٹی چیف ایگزیکٹو اور پانچ مشیر منتخب کیے گئے۔ عدالتی اصلاحات میں ایک چیف کورٹ کا اضافہ کیا گیا جو ایک چیئرمین اور دو ممبران پر مشتمل تھی۔
اسی طرح ایک اور پیکج معرکہ کارگل کے دوران28مئی1999کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دیا گیا۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم جاری کیا کہ وہ شمالی علاقہ جات کے عوام کو بنیادی حقوق فوراً فراہم کرے اور حکومت کا اختیار وہاں کے منتخب نمائندوں کے سپرد کیا جائے اور بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے آزاد عدلیہ قائم کی جائے۔ وفاقی حکومت نے اکتوبر1999کو سیاسی، عدالتی اصلاحاتی پیکج کا اعلان کیا۔ جس کے مطابق ناردرن ایریاز کونسل کو قانون ساز کونسل کا درجہ دے دیا گیا۔ کونسل کو49شعبوں میں قانون سازی کا اختیار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ایک اپیلٹ کورٹ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ جب کہ کونسل میں خواتین نشستوں کو2سے بڑھا کر5 کر دیا گیا۔
تیسرا پیکج صدر مشرف کے دور میں مرحلہ وار آیا۔ جس میں پہلے پانچ سال کے دوران1999سے2004تک ترقیاتی فنڈ کو86کروڑ سے بڑھا کر ساڑھے چار ارب کردیا گیا۔ جب کہ اکتوبر2003میں کونسل کے لیے ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ دیا گیا۔2004میں لیگ فریم ورک آرڈر میں ترمیم کے ذریعے قانون ساز کونسل میں سے6خواتین اور پہلی مرتبہ6ٹیکنوکریٹ کی نشستیں دی گئیں جس سے ارکان کونسل کی تعداد26سے بڑھ کر36ہوگئی اور ضلع دیامیر کے سب ڈویژن استور کو ضلع کا درجہ دیا گیا۔ خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی جعرافیائی اہمیت کے پیش نظر2007میں 32 سال بعد ورک آرڈر ختم کرکے ناردرن ایریاز گورننس آرڈر نافذ کیا گیا۔ جس کے تحت قانون ساز کونسل کو اسمبلی کا درجہ دیا گیا۔ سپریم اپیلٹ کورٹ قائم کیا گیا اور وفاقی وزیر کو چیئر مین اور ڈپٹی چیف کو چیف ایگزیکٹو کا عہدہ دیا گیا۔
چوتھی بار ستمبر2009میں گلگت بلتستان (ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈرجاری کیا جس کے تحت گلگت بلتستان کو چاروں صوبوں ملک کا پانچواں بے اختیار وزیر اعلیٰ اور گورنر نصیب ہونے کے ساتھ ساتھ شمالی علاقہ جات کا نام پہلی بار تبدیل کرکے گلگت بلتستان کے نام سے اس خطے کو شناخت ملی جو کہ اس خطے کی عوام کا دیرنیہ مطالبہ تھا۔ اسی طرح اس پیکج میں سیاسی خودمختاری کا نعرہ لگایا لیکن عملی طور پر آج بھی گلگت بلتستان کے حوالے سے اہم فیصلے ایک غیر منتخب ،غیر مقامی وفاقی وزیر اور بیوروکریسی کرتے ہیں۔اس پیکج میں گلگت بلتستان کیلئے گورنر اور وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہوئے اور وزیر اعلیٰ کی معاونت وزیر اعلیٰ کو دو مشیر اور پارلیمانی سیکریٹری مقرر کرنے کا اختیار بھی دیا گیا۔ گورنر کا تقرر وزیر اعظم پاکستان کی مشاورت سے صدر پاکستان کرتے ہیں جبکہ منتخب اسمبلی کو وزیر اعلی منتخب کرنے کا اختیار دیا ۔قانون ساز اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد38ہوگی۔ جس میں سے24براہ راست منتخب ہوں گے جب کہ سات سات نشستیں، خواتین اور ٹیکنو کریٹس کی ہوں گی جس میں ہر ضلع کی نمائندگی شرط ہے اور جن امور پر قانون ساز اسمبلی قانون سازی کر سکتی ہے۔ ان کی تعداد49سے بڑھا کر61کر دی ہے۔کشمیر کونسل کی طرز پر گلگت بلتستان کونسل(جو ایک طرف سے سیاسی کاروباربن چُکی ہے) قائم کیا گیا جس کے چیئرمین وزیر اعظم پاکستان گورنر اس کے وائس چیئرمین ہیں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کو بھی اس کے ممبر ہونے کا اختیار دیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا ان تمام پیکجز سے گلگت بلتستان کا معاشرہ اور عام عوام کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی آئی؟، یقینا ایسا کچھ عملی طور پرکہیں نظر نہیں آتا۔ یہاں ہم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی بات نہیں کریں گے کیونکہ وزیر قانون کے دوٹوک بیان کے مطابق اس بات میں مزید کسی قسم کی ابہام باقی نہیں رہی کہ گلگت بلتستان کی مستقبل کا فیصلہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے رائے شماری سے پہلے ممکن نہیں۔لیکن سلامتی کونسل کے جن قراردادوں کی بات کی جاتی ہیں اس کے مطابق گلگت بلتستان کسی قسم کا صوبہ نہیں بلکہ لوکل اتھارٹی گلگت بلتستان کے سیاسی مسلے کا حل ہے۔ جس میں تمام اختیارات گلگت بلتستان اسمبلی کے پاس ہو اور گلگت بلتستان کا سیاسی ڈھانچہ بلکل آزاد کشمیر کی طرح کا ہو۔ اس حوالے سےعوامی ایکشن کمیٹی گلگت، گلگت بلتستان تھنکرز فورم، عوامی ایکشن کمیٹی بلتستان،قراقرم نیشنل مومنٹ سمیت گلگت بلتستان کے تمام قومی سیاسی جماعتوں، مذہبی اور سیاسی رہنماوں نے گزشتہ دنوں دونکاتی چارٹرڈ آف حکومت کے سامنے پیش کیا ہے جس کے مطابق آئیں ساز اسمبلی اور عبوری صوبہ بنانے کی صورت میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی،تمام ٹیکسوں سے مستشنی،گندم سبسڈی کی بحالی،وسائل پر اختیار سمیت کئی مطالبات شامل ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جمہوری حکومت عوامی رائے کا کس حد تک احترام کرتی ہیں کیونکہ جس پیکج کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اس حوالے سے عوامی اور سیاسی حلقوں کایہی شکوہ ہے کہ عوام لاعلم ہیں اور پیکج کے مندرجات کو بلکل خفیہ رکھا گیا ہے۔
دوسری طرف ایک اور بیانیہ بھی عوامی حلقوں اور سیاسی حلقوں زیر بحث ہے جن کے مطابق گلگت بلتستان اور آذاد کشمیر اسمبلی کو مکمل طور پر با اختیار بنا کر گلگت بلتستان اسمبلی میں لداخ کیلئے نشت مختص کریں،جبکہ آزاد کشمیر اسمبلی میں جموں اور وادی کیلئے نشت مختص کرکے دونوں اسمبلیوں کے اوپر سینٹ کی طرح کا ادارہ قائم کریں جس میں نمائندگی کیلئے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی شہریت لازمی قرار دیکر وزیر اعظم اور صدر پاکستان کو اعزاری طور پر چیرمین مقرر کرکے دونوں اسمبلی کو مسئلہ کشمیر کے ایک فریق تسلیم کریں اس سے پوری ریاست کو نمائندگی ملے گی اور ایک طرح سے ہندوستان پر سیاسی دبائو میں اضافہ ہوگا۔
ایک ایسا میکنزم بنا نے کی ضرورت ہے جس کے تحت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے وسائل دونوں خطوں کے عوام پر خرچ ہو اور وفاق جس طرح چاروں صوبوں سے این ایف سی یوارڈ سے اپنا حصہ لیتا ہے، اسی طرح گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر اسمبلی سے اپنا حصہ لیں۔ اس سے مسئلہ کشمیر میں ایک نئی جان آئے گی۔ ہندوستان کے زیر انتظام لداخ اور جموں و کشمیر کے لوگوں کا حوصلہ بڑھے گا اور سفارتی لحاظ سے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر خوب پذیرائی ہوگی۔
شیر علی انجم ایک بینکر ہیں اور قوم پرست سیاسی و سماجی کارکن ہیں وہ گزشتہ 15 سالوں سے گلگت بلتستان کے سیاسی سماجی مسائل، بالخصوص کشمیر کے مسئلے پر بلاگز اور مقامی اخبارات میں لکھ رہے ہیں. نظریاتی طور پر قوم پرست پہلے نہیں تھا لیکن ہوگیا ہوں