ایڈوکیٹ اشفاق احمد
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ 1842 کے بعد پہلی بار یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان سے برطانوی نوآبادیات یہ اور ڈوگرہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔
بقول مارٹن سوکفلٹ، یہ درست ہے کہ 1840 کے وسط کے بعد کئی دہائیوں تک کشمیر کے حکمرانوں نے گلگت میں اپنا کنٹرول قایم کرنے کے لئے مقامی حریف حکمرانوں، بلخصوص یاسین کے حکمرانوں کے خلاف جارحیت کیں اور گلگت بلتستان پر قبضہ کیا- راجہ گوہر امان کے ساتھ لڑی گئی جنگیں اور ریاست ہنزہ و نگر کے خلاف لڑی گئی نلت کی جنگ اس کی اہم مثالیں ہیں۔
اس خطے کو جس طرح آج کل دفاعی اہمیت حاصل ہے اس طرح ان دنوں میں بھی حاصل تھی چنانچہ برظانوی حکمرانوں نے اسی غرض سے اس کا انتظام براہ راست سنبھال لیا تھا اور گلگت بلتستان کو بھی اپنی نو آبادی بنا یہاں اپنا نوآبادیاتی نظام مسلط کیا جس کے باقیات آج تک موجود ہیں۔
گلگت ایجنسی کے قیام سے لے کر1935کے معاہدہ تک اس علاقہ کا انتظام ایک انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کی ذمہ داری تھی جس کا مقصد اس خطے سے متصل دو بڑی طاقتوں چین اور روس پر نظر رکھنا تھا. پولیٹیکل ایجنٹ کو گلگت سکاوٹس کے کمانڈنٹ کی اعانت حاصل تھی. تقسیم ہند کے منصوبہ کے تحت برٹش انڈیا نے گلگت لیز ایگریمنٹ کو منسوخ کیا اور گلگت ایجنسی کومہاراجہ کشمیر کے حوالے کیا اس طرح جب انگریز پولیٹیکل ایجنٹ رخصت ہوا تو مہاراجہ نے پہلے کرنل بلدیو سنگھ پٹھانیہ اور بعد میں بریگیڈیئر گنسارا سنگھ کو گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کردیا۔
احمد شجاع پاشا مسلہ کشمیر نامی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جنگ آزادی گلگت بلتستان سے قبل گلگت اسکاوٹس کے کیپٹن حسن خان دوسری جنگ عظیم میں ملٹری کراس حاصل کرنے کے بعد وطن پہنچے تو انہیں ان کے مسلمان سپاہیوں کے ساتھ سرینگر سے گلگت جانے کا حکم ملا. انہوں نے واپس کشمیر پہنچنے سے قبل ہی بغاوت کا منصوبہ بنایا اور جب مہاراجہ نے 27 اکتوبر 1947 کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے کا اعلان کیا تو گلگت سکاوٹس کے مقامی فوجیوں کے ساتھ مل کر کرنل حسن خان نے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
گلگت سکاوٹس نے مقامی افراد کی مدد سے گورنر کے محل کو گھیرے میں لے لیا گورنر گنسارا سنگھ نے اپنے دو ملازمین کے ساتھ بڑی دلیری اور جرات کے ساتھ مقابلہ کیا بالآخر انہوں نے ہتھیار ڈال دیا اسے حراست میں لیا گیا اور یکم نومبر 1947 کو ڈوگرہ حکومت سے آزادی کا اعلان کیا گیا- شاہ ریئس خان کو آزاد جمہوریہ گلگت بلتستان کا صدر قرار دیا گیا۔
اور بعدازاں گورنر گنسارا سنگھ کو قیدیوں کے تبادلے میں ہندوستان کے حوالہ کیا گیا "۔
اسی پس منظر میں جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نتیجے میں قائم ہونے والی آزاد حکومت صرف 16 دن تک برقرار رہی۔ بعد ازاں اس علاقہ کو معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے تحت پاکستان نے براہ راست اپنے زیر انتظام لایا جو آج تک جاری ہے۔
جنگ آزادی گلگت بلتستان کے وقت گلگت میں تعینات برٹش میجر ولیم براون کمانڈنٹ گلگت اسکاوٹس کے وفات کے 14 سال بعد اس کی یادداشتوں کو کتاب کی شکل دے کر گلگت ریبیلئین (بغاوتِ گلگت) کے نام سے میجر بروان کی بیوہ مارگریٹ نے شائع کروایا اس طرح بروان سے منسوب کرکے جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت کا نام دیا گیا جو کہ ایک نوآبادیاتی نقط نظر ہے۔
مثال کے طور پر جنگ آزادی ہند 1857 کو بھی انگریزوں نے غدر یا بغاوت کا نام دیا تھا چونکہ ہندوستانیوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ کے زریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کی جبری قبضہ اور تسلط کو چیلنچ کیا تھا اس لئےتقریبا تمام برطانوی اور یورپی لکھاریوں نے اسے بغاوت ہند کا نام دیا مگر مشہور فلاسفر کارل مارکس نے اسے جنگ آزادی ہند کا نام دیا تھا۔ ہندوستان کےمقامی تاریخ دانوں اور دانشوروں نے بھی اس بغاوت کو جنگ آزادی ہند کا نام دیا ہے۔ حالانکہ اس میں حصہ لینے والوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بری طرح شکست دیے کر بہادر شاہ ظفر کی حکومت کا خاتمہ کردیا تھا اور جنگ کے بعد اگست 1858 میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو تاج برطانیہ کے براہ راست سپرد کردیا تھا۔
ہندوستان میں تعینات 1857 کے انگریز سیکریٹری آف سٹیٹ فار انڈیا ارل اسٹینلے نے برطانوی پارلیمنٹ کو اس واقعے کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے سب سے پہلے اسے بغاوت کا نام دیا پھر اس کے بعد برطانوی لکھاریوں نے اسی اصطلاح کا استعمال کیا۔
بلکل اسی طرح بغاوت گلگت نامی کتاب کو بنیاد بنا کر جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بھی اکثر لوگ بغاوت گلگت اور نام نہاد اپریش دتہ خیل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ جوکہ خلاف حقیقت اور ایک نوآبادیاتی بیانیہ کا تسلسل ہونے کی وجہ سے قابل چیلنج ہے. جبکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ جس وقت انقلاب گلگت رونما ہورہا تھا اس وقت ولیم براؤن کی عمر صرف 24 سال تھی انہوں نے اپنا پچسواں جنم دن گلگت میں منایا تھا اور انقلاب گلگت کے وقت وہ گلگت سکاؤٹس کے کمانڈنٹ تھے۔ انقلاب گلگت کے بعد گلگت سے واپسی پر جولائی 1948 کو ولیم براؤن کو حکومت پاکستان نے فرنٹیر کانسٹبلیری میں ملازمت دی جو صوبہ سرحد میں نارتھ وزیرستان پولیس فورس کہلاتی تھی اور اگلے دو سالوں تک اس نے وہاں مختلف عہدوں پر کام کیا۔
فرنٹیر کانسٹبلری چھوڑنے کے بعد ولیم بروان نے کامرس کے شعبے میں عہدہ حاصل کیا اور اسی دوران 1957 میں ولیم براؤن کی ملاقات مارگریٹ روزمیری سے ہوئی تھی جو اس وقت کراچی میں برطانوی ہائی کمشنر تھی اور 1958 میں انہوں نے شادی کی اور اسی دوران ولیم بروان کو ہمالین سوسائٹی میں حکومت پاکستان کا سیکریڑی بنایا گیا۔
براؤن اور اس کے خاندان 1959 میں واپس برطانیہ چلی گئی اور 1960 میں اس نے اپنے گاؤں میں ایک لیویری یارڈ اور سکول بھی کھولا اور وہاں اگلے 24 سالوں تک اسے گھوڑوں کے سائس کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔
1948 سے لیکر 1958 تک ولیم بروان پاکستان میں مختلف نوکریاں حاصل کرتا رہا اور پھر 1959 میں برطانیہ واپس جانے سے لے کر اپنی وفات تک اس نے انقلاب گلگت کے بارے میں کوئی کتاب شائع نہیں کروائی بلکہ اس کی وفات کے چودہ سال بعد تک بھی جنگ ازادی گلگت بلتستان کے بارے میں اس کا کردار دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا پھر اس کی بیوی مارگریٹ نے اس کے کردار کو دنیا کے سامنے لایا۔
میجر بروان کی یادداشت گلگت ریبیلیئن ( بغاوت گلگت) کے دیباچہ میں واشگاف الفاظ میں یہ لکھا گیا ہے کہ "اشاعت کے لئے اس یادداشت کی تیاری میں بہت لوگوں نے مدد کی چونکہ میجر بروان کی اصلی ڈائری کھو گئی تھی بلکہ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ بظاہر وہ ڈائری چوری ہوگئی تھی۔
میجر بروان کی بیوی مارگریٹ ایک سفارت کار تھی اور 1957 کے اولین ایام میں کراچی میں برطانیہ کی ہائی کمشنر تھی جس نے اپنے مرحوم شوہر ولیم براؤن کے کردار کو کمال ہوشیاری سے ان کی وفات کے چودہ سال بعد ان کے دوستوں کے وسیع حلقے کے ساتھ مل کر اس کی یادداشت ترتیب دیا اور ازسر نو ایک نئے بیانیہ کے ساتھ بغاوت گلگت نامی اس کتاب کے ذریعے اس کے کردار کو گلگت سکاؤٹس کے کمانڈنٹ سے بڑھا کر جنگ آزادی گلگت بلتستان کے ایک ایسے ہیرو کے طور پر پیش کیا جس نے تاریخ کا دھارا تبدیل کیا اور بدلے میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ پاکستان سے نوازا۔
میجر براون کی یادداشت کی تدوین اور تصدیق کے متعلق یہ کہا جاۓ تو غلط نہیں ہوگا کہ ہر وہ سچائی جو ظاہر نہیں کی جاتی ہے وہ زہریلی ہو جاتی ہے- نوآبادکاروں کے بیانیے پر لکھی گئی یہ کتاب اس کی ایک عمدہ مثال ہے اور نوآبادیاتی بیانیہ کا تسلسل ہونے کی وجہ سے قابل چیلنچ ہے۔
دوسری طرف بیرونی جارحیت اور تسلط کے خلاف اس خطے کے عوام نے راجہ گوہر امان کے دور سے ہی اپنی قومی بقاء اور شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے ایک طویل جدوجہد کی اور بالآخر یکم نومبر 1947 کو جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نتیجے میں اس خطہ سے ڈوگرہ حکومت کا خاتمہ تو ممکن ہوا مگر یہ خطہ نہ تو ایک آزاد ملک بن سکا نہ ہی آج تک پاکستان کا آئینی حصہ بن سکا البتہ تنازعہ کشمیر کا حصہ قرار پایا اور گذشتہ 74 سالوں سے یہاں ڈوگرہ حکومت کا کوئی وجود نہیں ہے اس لئے جنگ آزادی گلگت بلتسان کو بغاوت گلگت کا نام دینا دراصل اس سرزمین کے ساتھ غداری کے مترادف ہے۔
آخر میں جشن آزادی گلگت بلتستان کے اس پرمسرت دن کے موقع پر اپنے ان تمام شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے جنگ آزادی گلگت بلتستان میں اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرکے تاریخ گلگت بلتستان میں ایک نیا باب رقم کیا۔
اشفاق احمد ایڈووکیٹ گلگت بلتستان چیف کورٹ میں وکالت کرتے ہیں اور ایک مقامی کالج میں بین الاقوامی قوانین پڑھاتے ہیں۔ وہ بام جہاں سمیت مقامی اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔
One thought on “جنگِ آزادیِ گلگت بلتستان کی حقیقت کیا ہے؟”
ہمارے بچوں کے سیلیبس میں تاریخ کا مضمون بھی شامل کرنا چاہیے۔ اور قراقرم یونیورسٹی کے اندر بھی ہسٹری اینڈ کلچر کا ڈپارٹمنٹ ہونا چاہیے جہاں گلگت۔بلتستان اور اس کے آس پاس بسنے والے اقوام کی تاریخ، اور کلچر کے علاؤہ دنیا کے مختلف اقوال کی تاریخ اور کلچر پر تحقیق ہونی چاہیے۔