اشفاق احمد ایڈوکیٹ
علی شیر خان انچن کا تعلق گلگت بلتستان کی قدیم ریاست گریٹ بلور سے تھا جس کو آجکل گلگت بلتستان کہا جاتا ہے۔ انکی پیدائش موجودہ بلتستان کے صدر مقام سکردو میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام غازی میر تھا جو مقپون خاندان کے ایک اہم حکمران تھے جن کا دور حکومت 1565 سے 1595 صدی عیسوی تک تھا۔ علی شیر خان اپنے والد کی وفات کے بعد تخت حکومت پر بیٹھا اور اپنی فتوحات اور عوام دوست اقدامات کی وجہ سے گلگت بلتستان کی تاریخ میں آج بھی ایک ہیرو کا مقام رکھتے ہیں۔ مختصر تاریخ جموں و کشمیر کے مصنف حشمت اللہ خان لکھنؤی کے بقول : "علی راۓ یا علی شیر خان انچن جو ان کا پورا نام تھا، گلگت بلتستان کے ایک اہم حکمران تھے جنہوں نے 1595 سے 1633 تک ایک وسیع علاقہ پر حکومت کی اور اپنی بہادری اور بہترین قیادت کی وجہ سے علی شیر خان اپنے والد کی حیات میں ہی بہت مقبول ہوۓ تھے۔
ریاست بلور کے ٹوٹنے کے بعد وجود میں آنے والی چھوٹی چھوٹی شاہی ریاستوں کے حکمرانوں میں علی شیر خان واحد حکمران تھے جو تبت لداخ سے چترال تک اور ہنزہ نگر سے چلاس تک کے علاقوں کو اپنی ریاست کے زیر نگیں کرنے میں کامیاب ہوئے۔
بقول حشمت اللہ خان علی شیر خان انچن نے لداخ کے حکمران جمیانگ نمگیل کے زمانے میں لداخ فتح کیا اور لداخی کھرپوں (کھرپا: محلات میں رہنے والے) یعنی حاکم کو جس کا صدر مقام کرتخشہ (کھرمنگ) تھا، وہاں سے بھگا دیا۔ لداخیوں نے پرکوتہ (مہدی آباد) اور کرتخشہ میں اس کا مقابلہ کیا مگر ناکام ہوئے۔ اکثر لداخی فوجی قتل ہوۓ جو بچے وہ فرار ہوۓ تو علی شیر خان نے مرول اور گنوخ تک ان کا تعاقب کیا۔
اس دوران علی شیر خان نے سوت پر حملہ کیا اور بودھ کھربو کا علاقہ اپنی حکومت میں شامل کر دیا اور اپنی کچھ افوج قلعہ بودھ کھربو میں تعینات کیا۔ اس واقعہ کے بعد رگیالپو جمیانگ نمگیل نے علی شیر خان سے بدلہ لینے کا منصوبہ بنایا اور نوروز یعنی لوسر کے دن بودھ کھربو اور سوت پر حملہ کا منصوبہ بنایا لیکن لوسر (نئے سال ) کی آمد کے پیش نظر اراکین سلطنت کے مشورے پر حملہ ملتوی کرنے کی بجائے یہ فیصلہ کیا کہ لوسر کا جشن اس دفعہ یکم نومبر کو منایا جائے۔ (تبت ، لداخ اور بلتستان میں لوسر (نیا سال) عام طور پر 21 دسمبر کو تاریخ کو منایا جاتا ہے۔)بادشاہ نمگیل نے اس طرح بودھ کھربو کے لوگوں کے ساتھ سازش کرکے چالاکی سے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح قلعہ میں تعینات علی شیر خان کے کچھ فوجی قتل ہوۓ اور کچھ فرار ہوکر سکردو پہنچ گئے ۔ بودھ کھربو کی تسخیر کے بعد رگیالپو نے واکھا پر بھی قبضہ کر لیا۔
دوسری جانب علی شیر خان لداخ پر حملہ کی تیاری میں مصروف تھے اور راجگان شگر و خپلو کے ساتھ اتحاد کر کے اس نے لشکر جمع کر لیا تھا۔ چنانچہ جب بودھ کھربو کے فراری علی شیر خان کے پاس پہنچ کر اپنی تباہی کی داستان سنائی تو اس نے فوراً لداخ پر حملہ کیا ۔ جمیانگ نمگیل کے افسران اور فوجیوں نے علی شیر خان کا مقابلہ کیا مگر بلتی افواج کے سامنے وہ کھڑے نہیں ہو سکے اور علی شیر خان نے لداخ کا دارالخلافہ فتح کیا اور لداخ پر بھی قبضہ جمایا۔ اس جنگ کی تفصیلی حالات بودھی تاریخ میں مذکور نہیں مگر اس قدر درج ہے کہ علی شیر خان کی بلتی فوج سارے لداخ میں پھیل گئی ۔
حشمت اللہ خان کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ رگیالپو جمیانگ نمگیل کو جب حملہ علی شیر خان کا علم ہوا تو وہ سوت سے لداخ واپس ہوا لیکن جب وہ لداخ پہنچا تو اس کا تختہ الٹ چکا تھا ۔کسی نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور علی شیر خان نے اسے قید کیا۔
جمیانگ نمگیل نے علی شیر خان سے صلح کی درخواست کی اور اپنی بیٹی مندوق رگیالمو کی شادی علی شیر خان سے کرادی علی شیر خان نے صلح کی درخواست قبول کرنے کے باوجود جمیانگ نمگیل کو آزاد نہیں کیا بلکہ حکومت لداخ کا عارضی انتظام کرنے کے بعد جمیانگ نمگیل کو اپنے ساتھ لےکر اپنی لداخی بیوی رگیالمو کے ساتھ واپس سکردو روانہ ہوا۔
بہرحال اس صلح کی روح سے غوٹھا مت چھو نالہ گرگرا کو لداخ وعلی شیر خان کی ریاست کے درمیان سرحد قرار دیا گیا اور موضع گنوخ و نالہ گرگرا حکومت لداخ سے خارج ہوکر علی شیر خان کی حکومت میں داخل ہوئی- اس مصالحت کی وجہ سے علی شیر خان نے علاقہ کھربو کو بھی لداخ کے ساتھ رہنے دیا مگر اس کے عوض حکومت لداخ سے سالانہ خراج کی ادائیگی کا اقرار لے لیا۔
لداخ کی فتح کے بعد علی شیر خان انچن مغربی ریاستوں کو فتح کرنے کی طرف متوجہ ہوئے اور آنچن نے اس کے بعد مغرب میں اپنی حکومت کو وسعت دی اوراستور،گلگت اورچترال کو فتح کر لیا۔ علی شیر خان تین سال تک مسلسل اپنے دشمنوں کے خلاف حملے کرتا رہا لیکن کشت و خون اور لشکر کشیوں کے باوجود اس نے کسی بھی چھوٹی ریاست کی ہیئت ترکیبی کو تبدیل نہیں کیا البتہ صرف حراموش کو بروشال کے علاقہ گلگت سے کاٹ کر روندو کے ساتھ شامل کیا تھا۔
موضع دیور (دینور ) گلگت میں ایک شغرن / شاوارن ( پولو کا میدان) بھی علی شیر خان انچن نے تعمیر کروایا یہ اس وقت تک موجود ہے اور مقپون کےاشغرن کے نام سے مشہور ہے۔ بروشال گلگت چلاس و استور سے ایک بڑی تعداد میں اسیران جنگ کو اپنے ساتھ سکردو لایا اور دردستان کے ان اسیران جنگ کو سکردو پرکوتہ، تولتی ، کرتخشہ ( پرکووٹا ٹولٹی اور کرٹسکا )میں آباد کیا ۔
ڈاکٹر احمد حسن دانی اپنی کتاب ہسٹری آف ناردرن ایریاز آف پاکستان کے صفحہ 221 میں لکھتے ہیں کہ زمانی اعتبار سے یہ حملہ راجہ گلگت صاحب کران کے دور حکومت 1535-1561 کے دوران واقع ہونا چاہیئے کیونکہ گلگت کے حکمران کا سکردو کے حکمران غازی میر والد انچن کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے اس دوران گلگت کے حکمران نے چترال کے حکمران کی جانب سے جارحیت کا سامنا کیا تھا جس کے نتیجے میں اس نے بلتستان جا کر بادشاہ سے مدد طلب کی تو علی شیر خان انچن ان کی مدد کے لئے آۓ اور چترال کے حکمران کو شکست دے دی اور اسی دوران چترال سے حراموش تک کے علاقے کو اپنے زیر نگیں کیا
واصْح رہے کہ تاریخ گلگت بلتستان میں دردستان نام کا کوئی الگ ملک کبھی نہیں رہا ہے البتہ ڈاکٹر جی ڈیبلو لیٹنر وہ پہلے پورپی مؤرخ تھے جس نے دیامیر میں آباد قبائل کو درد کا نام دیا تھا اور ان علاقوں کو انہوں نے دردستان کا نام دیا ہے اس کا اعتراف انہوں نے اپنی کتاب دردستان میں کیا ہے۔ ڈاکٹر لٹنر کے بعد تمام لکھاریوں نے اس علاقے کو دردستان نام سے اپنی کتابوں میں درج کیا۔
مولوی حشمت اللہ خان اپنی تصنیف مختصر تاریخ جموں و کشمیر میں لکھتے ہیں کہ علی شیر خان کے تین بیٹے تھے جن کے نام آدم خان, عبدال خان اور احمد خان تھے۔ بعد کے مؤرخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ گلگت کی ترقی پسند خاتون حکمران جواہر خاتون آف گلگت کی شادی علی شیر خان انچن کے تیسرے بیٹے احمد خان کے ساتھ ہوئی تھی۔
بقول حشمت اللہ خان سکردو میں منڈوق قلعہ کے نیچے واقع کھرپوچے فورٹ کو علی شیر خان انچن کی لداخی ملکہ مندوق رگیالمو نے تعمیر کروایا تھا اس محل کی طرز تعمیر کھرپوچا سے مختلف اور مغلوں کی طرز تعمیر سے مشابہہ ہے۔وہ مغل طرز کے باغات کی تعمیر کے لئے بھی مشہور ہیں جن کے لئے انہوں نے اپنے محل سے اوپر واقع سدپارہ جھیل سے آبپاشی کی نہر بنوا کر پانی فراہم کیا تھا۔ قدیم طرز کی یہ نہر بے ترتیب شکل اور بڑے حجم کے پتھروں سے تعمیر ہوئی ہے جو اب بھی موجود ہے۔ جبکہ بعض مؤرخین اور راوی سدپارہ جھیل کی تعمیر بھی انچن کا کارنامہ قرار دیتے ہیں۔
علی شیر خان نے اپنے والد کے حیات میں ہی کئی مہمات میں فتوحات حاصل کیں اور شہرت پائی تھی لیکن اپنے والد کے وفات کے بعد 1595 میں وہ تخت نشین ہوئے۔ ان کا دور حکومت 1633 یعنی اس کے وفات تک رہی۔ انہوں نے اپنی دور حکومت میں وسیع فتوحات حاصل کرنے کی میں کامیاب ہوۓ۔ ان کی دور حکومت اور فتوحات کا ذکر حشمت اللہ خان لکھنوی نے اپنی کتاب مختصر تاریخ جموں و کشمیر میں بیان کیا ہے ان کی وسیع فتوحات، ترقی اور ان کی ریاست کی بہترین انتظام و انصرام کی وجہ سے ان کو انچن یعنی اعظم کا لقب دیا گیا ۔ بقول پروفیسر دانی "اپنی سلطنت میں انہوں نے عوامی فلاحی کام, نئی عمارتوں کی تعمیر اور نئی آباد کاری یعنی بندوبست تعمیر کی جوا اس کی ریاست کی تعمیر کے ویژن کو بیان کرتی ہے ۔”
دوسری طرف انہوں نے نہ صرف مغلیہ حکمرانوں کےساتھ ازدواجی اور دوستانہ تعلقات استوار کیا بلکہ گلگت کے حکمران کے ساتھ بھی اچھے مراسم برقرار رکھےجو ان کی سفارتی ذہانت کی دلیل ہے۔ ان کے دور حکومت میں بلتی /بلور ریاست اپنی بلندیوں کو چھونے لگی تھی۔ .
بقول احمد حسن دانی عظیم مغلیہ بادشاہ جہانگیر کے افواج کے سامنے علی شیر خان انچن کا ایک مضبوط موقف کے ساتھ ثابت قدم رہنا ان کی بہترین فوجی حکمت عملی کی ترجمانی کرتی ہے کہ وہ اتنا قابل سپہ سالار تھا جو بڑے مشکلات کا سامنا کرنے کی جرات اور قابلیت کا حامل رہنما تھا، جس کی وجہ سےوہ بہترین تعریف کا حقدار ہے۔ گلگت بلتستان کی تاریخ میں علی شیر خان انچن کا نام عظیم حکمران کے طور پر چمکتا دمکتا رہے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ علی شیر خان انچن کی وفات کے بعد اس کے تینوں بیٹے ایک دوسرے کے ساتھ ہی جنگ میں الجھ کر اپنے عظیم باپ کی ریاست کو متحد اور منظم رکھنے میں ناکام رہے اور آپس کی چپقلش اور اختلافات کی وجہ سے زوال ان کا مقدر بن گیا۔
اشفاق احمد ایڈووکیٹ گلگت بلتستان چیف کورٹ میں وکالت کرتے ہیں۔ وہ ایک مقامی کالج میں بین الاقوامی قوانین پڑھاتے ہیں۔ گلگتأبلتستان کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ہائی ایشیاء ہیرالڈ سمیت دیگر مقامی اخبارات میں کالم لکھتے ہیں۔