وقاص صارم
آج سے تقریباً تین ہزار سال قبل قدیم ویدک / آریائی زمانے میں خیبر پختونخواہ دو حصوں پہ مشتمل تھا۔ شمالی حصہ جو کہ آج کے مالاکنڈ ڈویژن، چترال، کُنڑ، ننگر ہار پر مشتمل تھا اس علاقے کو اسواکا نوئی کہتے تھے۔ سنسکرت میں آسوا بمعنی گھوڑے کے ہیں اور قدیم فارسی میں آسپہ جدید فارسی میں اسپ مستعمل ہے۔ یہاں کے لوگ جنگی گھوڑے پالنے انھیں تربیت دینے میں مشہور تھے وہ گھوڑوں کی تربیت کرکے انھیں دوسرے علاقوں میں بیچ دیتے تھے۔ یہ لوگ ماہر جنگجو بھی تھے۔ غالباً اس زمانے میں یہاں موجودہ دارد نسل کے لوگوں کے آباؤ اجداد آباد تھے۔ پشتون قبائل کے بتدریج جنوب مغرب سے اس علاقے میں پھیلتے چلے جانے کی وجہ سے یہ لوگ آہستہ آہستہ شمالی پہاڑوں کی طرف سرکتے چلے گئے۔
دارد لوگوں میں آج کے گلگت کے شینا اور کوہستانی لوگ شامل ہیں۔ 326 ق م میں سکندر کے ہندوستان پر حملے کے دوران ان لوگوں نے یونانی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا اور یونانی فوج کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔ موجودہ چترال کے کھو، کیلاشی اور ملحقہ افغانستان کے نورستانی (جنھیں کافرستانی بھی کہتے ہیں) بھی انھی اسواکا نوئی کی نسل سے ہیں۔ سکندر اعظم پنجاب میں راجہ پورس کے ہاتھوں شکست کھانےکے بعد ہندوستان سے چلا گیا تو ہندوستان کے ساتھ پورے گندھارا پر بھی چندر گپت موریا کی نئی قائم کردہ موریا سلطنت کا تسلط قائم ہوگیا۔ اسواکا کے جنوب یعنی موجودہ وسطی پختونخواہ اور جنوب مشرقی افغانستان میں خانہ دوش پاکتا قبائل آباد تھے۔ ویدوں میں جسے ہندوستان کی شمال مغربی سرحد پر ہندوکش کے پہاڑوں میں واقع بتایا گیا ہے۔
یونانی مورخین جیسے کہ ارئین اور سترابو نے انھیں پیکٹیہ لکھا ہے۔ اور اس علاقے کو انھوں نے آراکوسیہ کا نام دیا ہے۔ افغان صوبوں/ شہروں پکتیا اور پکتیکا کی وجہ تسمیہ بھی یہی پاکتا/پکتھا لفظ ہے۔ چونکہ ایرانی زبانوں میں جمع کا صیغہ بنانے کے لیے اسم کے ساتھ "آن” کا اضافہ کیا جاتا ہے تو اسی مناسبت سے پاکتا قبائل کا مجموعہ پاکتان کہلایا بعد ازاں یہ لفظ بگڑ کر پختون بنا۔ قدیم ہندو کتب رِگ وِید، اَتھر وید میں اخیری آریائی دور کی ہندوستانی ریاستوں کا ذکر ملتا ہے۔ جنھیں جناپدم کہا جاتا تھا ایک سے زیادہ جناپد مل کر بڑا اور قدرے خودمختار صوبہ مہاجناپد بناتے تھے۔ ان بہت سی جنا پد میں سے اَسواکا جَناپَدم اور پُشکلا وتی جناپدم بھی تھے ویدی زمانے میں پختونخوا کا سارا علاقہ اور ملحقہ جنوبی افغانستان وسیع مہاجناپد گندھارا کا حصہ تھا۔ گندھارا کا مرکز پُشکلا وتی تھا۔ (سنسکرت/ پراکرت میں مطلب ہے کثیر لوگوں کا علاقہ) جس کے آثار موجودہ چارسدہ کے مقام پر ملے ہیں۔ اَسوَاکا اور پُشکلا وَتی دونوں علاقوں میں جب ویدی گندھارا تہذیب کمزور پڑ گئی تو چھٹی صدی قبل مسیح میں یہ علاقہ ایرانی ہخامنشی سلطنت کے زیر تسلط آگیا۔ سکندر اعظم کے ہاتھوں اس پہلی عظیم فارسی سلطنت کے خاتمے سے قبل ہی یہ خطہ خودمختار ریاست کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ تیسری صدی ق م میں یہاں شمال سے خانہ بدوش ساقائی/ساکا وارد ہوئے ان کا تسلط دو صدیوں تک قائم رہا۔ اس کے بعد پہلی صدی عیسوی میں یہاں کُشان سلطنت قائم ہوئی۔ کشانوں کے دور میں یہاں بدھ مت کو فروغ ملا۔
ابتدا میں بگرام اور پروشا پورا (پشاور) کشان شاہوں کے دارلحکومت تھے۔ بعد میں پُشکلا وتی اور ٹیکسلا بھی دارالسلطنت رہے۔ یہ علاقہ ہندوستان اور وسطی ایشیا کے درمیان سٹریٹیجک پوائنٹ پر واقع ہونے کے باعث اہم تجارتی مرکز بن گیا۔ قدیم شاہرہ ریشم بھی اسی علاقے سے گزرتی تھی۔ پھر چوتھی صدی عیسوی میں یہ علاقہ گُپتا سلطنت کے ماتحت آگیا۔ گپتا سلطنت کے خاتمے کے بعد پورے ہندوستان میں چھوٹی چھوٹی علاقائی ریاستیں قائم ہوئیں۔ کوئی مضبوط مرکزی حکومت نہ ہونے کی وجہ سے گندھارا کے یہ مغربی علاقے پہلے عربوں اور پھر وسطی ایشیا سے آنے والے ترک قبائل کی لوٹ مار اور حملوں کی زد میں رہے۔گیارویں صدی عیسوی کی شروعات میں غزنوی سلطنت قائم ہوئی تو غزنی کے ترک حکمرانوں نے اس علاقے پر پہ در پہ حملے کیے۔ اور مقامی ہندو شاہی سلطنت کو تباہ کردیا۔ نو مسلم غزنویوں نے پاکتا اور دارد قبایل کو مسلمان کیا اور اطاعت قبول نہ کرنے والے مقامی قبائل کو علاقے سے نکال دیا جو پہاڑوں کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ جیسے کہ آج کے نورستانی اور کیلاشا قبائل وغیرہ۔