Baam-e-Jahan

آؤٹ سوئنگ

samar minallah

محمد زبیر خان بشکریہ بی بی سی اردو


فلم ساز اور اور سماجی کارکن ثمر من اللہ کی فلم ’آؤٹ سوئنگ‘ اس وقت تک کم از کم 12 بین الاقوامی ایوارڈ جیت چکی ہے۔

’آؤٹ سوئنگ‘ ان طالبات کھلاڑیوں اور کوچ کی کہانی ہے جو اپنے خاندانوں کی کفالت کرنے کے لیے مزدوری بھی کرتی ہیں۔ ثمر من اللہ کہتی ہیں کہ یہ عزم، ہمت اور آگے بڑھنے کی لگن اور جدوجہد کی کہانی ہے۔

آؤٹ سوئنگ خیبر پختونخوا کے اُن خاندانوں کی لڑکیوں کی کہانی ہے جنھوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے مضافات میں بری امام کے قریب رہائش اختیار کر رکھی ہے۔

ان میں سے اکثر لوگ کچے مکانوں اور بستیوں میں رہائش پذیر ہیں۔

ثمر من اللہ سماجی مسائل بالخصوص خواتین کو درپیش مشکلات پر حقیقی کہانیوں پر مبنی فلمیں بناتی ہیں۔ انھوں نے اپنی دیگر فلموں پر بھی کئی ایوارڈ حاصل کر رکھے ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں انھوں نے سوارہ کی رسم پر بھی کئی فلمیں بنائی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جب اُنھوں نے ان طالبات کو کرکٹ کھیلتے دیکھا تو وہ بہت متاثر ہوئیں۔ ’یہ طالبات اپنے رسم و رواج کے مطابق پورے پردے میں ہوتی تھیں۔ یہ بڑی چادر اوڑھ کر کھیل کے میدان میں پورے جوش کے ساتھ موجود ہوتی تھیں۔ ان کے لیے کھیل کی بہت زیادہ اہمیت تھی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اب تو اسلام آباد میں طالبات اور خواتین سائیکل، موٹر سائیکل بھی چلاتی ہیں، بہت سارے کھیل کھیلتی ہیں، مگر ان سب کو کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی سہولت دستیاب ہوتی ہیں جبکہ ’آؤٹ سوئنگ‘ میں موجود طالبات کے پاس تو بنیادی سہولتیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔

’یہ خاندان تو جسم سے روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے روزی روٹی ہی کے چکر میں ہوتے ہیں۔‘

ثمر من اللہ کا کہنا تھا کہ ان طالبات کو اسلام آباد میں بری امام کے علاقے ہی میں مشعل نامی سکول میں تعلیم حاصل کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔ جہاں پر یہ نہ صرف تعلیم حاصل کرتی ہیں بلکہ محنت مزدوری کرنے اور گھر کے کام کاج کرنے کے علاوہ کھلیتی بھی ہیں جو کہ ’بہت بڑی بات‘ ہے۔

’اس ماحول میں تعلیم تو کیا بچوں کو محفوظ رکھنا بھی مشکل ہے‘
مشعل سکول کا قیام 15 برس قبل زیبا حسن نے کیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہ سکول درحقیقت محروم طبقے کے بچوں، بچیوں کے لیے تھا۔ اس سکول میں اکثریت خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے بچوں کی ہے جو اپنے علاقے ترک کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔’بری امام کے اس علاقے میں آئیں تو آپ دیکھیں گے کہ یہاں پر گندگی ہے۔ ایسا ماحول ہے جس میں بچوں کو تعلیم تو کیا ان کو محفوظ کرنا بھی مشکل ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’مشعل سکول کا آغاز تقریباً پچاس طالب علموں کے ساتھ ہوا تھا اور اب اس میں تقریباً آٹھ سو طالب علم ہیں۔ ہر سال میڑک کا امتحان ہوتا ہے۔ گزشتہ سال ہمارے 70 طالب علم کامیاب ہوئے ہیں۔‘

زیبا حسن کا کہنا تھا کہ ہم صرف تعلیم ہی نہیں دیتے بلکہ کردار سازی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں، بات کرتے ہیں، ہفتے میں ایک روز سب مل کر کھانا کھاتے ہیں۔ انھیں سمجھاتے ہیں کہ کردار کیا ہے، اخلاق کیا ہے اور زندگی کیسی گزارنی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ماحول بدل رہا ہے۔

ویسے بھی یہ بچے بہت ذہین ہیں۔ میں برسوں سے تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہوں۔ ملکی اور بین الاقوامی اداروں میں خدمات انجام دی ہیں۔ مگر یہ بچے تھوڑے کو زیادہ سمجھ کر بہت آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ بہت باصلاحیت ہیں۔ تھوڑی سی رہنمائی سے یہ اپنے راستے خود بناتے ہیں۔

ثمر من اللہ کہتی ہیں کہ ’میری یہ فلم تو طالبات کے ارد گرد گھومتی ہے۔ مگر اس فلم کا اصل ہیرو ان کا ایک کوچ ہے جو تمام مشکلات کے باوجود ان کو اکھٹا کر کے ان کی کوچنگ کرتا ہے۔‘

’شکست کو فتح میں بدلا‘
اختر زیب کا آبائی تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے ہے۔ وہ کلب لیول کی کرکٹ کھیلنے کے علاوہ مشعل سکول میں خدمات انجام دیتے ہیں جبکہ شام کے وقت بری امام ہی کے مقام پر مزدوری بھی کرتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ وہ 2013 سے مشعل سکول میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور آبائی علاقے کو چھوڑنے کا مقصد کرکٹ کھیلنا اور ترقی کی راہیں تلاش کرنا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’کرکٹ میرا جنون ہے۔ کرکٹ کھیلنے اور سکھانے کے لیے ہر مشکل برداشت کر رہا ہوں۔‘

اختر زیب بتاتے ہیں کہ اُنھوں نے طالبات کی کرکٹ کوچنگ کا فیصلہ اپنے کرکٹ کے ایک کوچ کی اس نصیحت پر شروع کیا کہ دوسروں کو سکھاؤ گے تو خود زیادہ سیکھو گے اور کھیل تفریح ہی نہیں بلکہ کھلاڑی میں لڑنے کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مشعل سکول کے لڑکوں اور لڑکیوں کی ٹیمیں مختلف کھیلوں میں حصہ لیتی رہی ہیں، اسی طرح کرکٹ کے ٹورنامنٹ میں اُن کے لڑکوں کی ٹیم جیت گئی اور طالبات کی ٹیم ہار گئی، جس پر یہ لڑکیاں بڑی مایوس تھیں۔

اختر زیب بتاتے ہیں کہ ’حقیقی معنوں میں ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ شکست کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ آنکھیں نہیں ملا رہی تھیں۔ میں نے یہ منظر دیکھا تو مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے ان طالبات سے بات کی۔ ان سے کہا کہ کیا ہوا جو ہار گئے، تم لوگ تیار ہو تو ہم محنت کریں گے اور دوبارہ جیتیں گے۔‘

’ایسا ہی ہوا۔ میں نے ان طالبات کے ساتھ مل کر جیت کی بنیاد رکھنی شروع کر دی۔ میری بھی مصروفیات ہوتی تھیں اور وہ بھی مصروف رہتی تھیں۔ مگر اس کے باوجود ہم لوگ وقت نکالتے، اکھٹے ہوتے اور پریکٹس کرتے تھے۔ یہ کوئی عام پریکٹس نہیں ہوتی۔ اس میں جیت کی لگن اور کچھ کرنے کا عزم ہوتا ہے۔‘

انھوں نے اپنی جیت کے سفر کی کہانی سناتے کہا کہ ’دوبارہ ٹورنامنٹ ہوا تو ہم نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور یہ طالبات ٹرافی لے کر لوٹیں جو سب کے لیے نہ صرف خوشگوار حیرت کا باعث تھا بلکہ اس بات کا ثبوت تھا یہ کہ بہت کچھ کر سکتی ہیں، اس کے بعد ہماری طالبات کھلاڑیوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔‘

’کرکٹ کھیلنا اتنا آسان نہیں‘
اختر زیب کہتے ہیں کہ آؤٹ سوئنگ والی طالبات اس سال کے عرصے میں کچھ بڑی ہو چکی ہیں، اب ان کی مصروفیات بڑھ چکی ہیں، کچھ ابھی بھی کھیلتی ہیں اور کچھ نہیں کھیلتیں، مگر ان کی جگہ کچھ اور طالبات نے لے لی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے امید ہے کہ یہ سفر اسی طرح جاری رہے گا۔ شاید کچھ اور وقت لگ جائے مگر آؤٹ سوئنگ کی ٹیم میں سے کچھ ہیرے نکلنے ہیں، وہ اپنی راہ پر گامزن ہیں۔‘

ثمر من اللہ کہتی ہیں کہ آوٹ سوئنگ بنانے میں اُنھیں کم از کم دو سال لگے۔ ’اصل میں ہوتا یہ تھا کہ یہ طالبات بہت مصروف ہوتی تھیں۔ سکول، گھر کے کام کاج تو جب میں ان کے علاقے میں جاتی تو کبھی ایک کھلاڑی ہوتی تو دوسری نہ ہوتی جس وجہ سے اس پر اتنا وقت لگا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ان لڑکیوں کے رہن سہن کا اندازہ اسلام آباد کے امیر اور بالائی متوسط طبقے کو نہیں ہو سکتا۔

’ان گھرانوں میں ایک لڑکی کو گھر کے کام کاج دیکھنے ہوتے ہیں، اپنے والد اور بھائی کو گرم کھانا دینا ہوتا ہے، گھر کی صفائی کرنی ہوتی ہے، جس کے بعد اُن کو مشکل سے تعلیم اور کھیل کے لیے وقت ملتا ہے۔‘

’کھیل کی اہمیت کوئی ان سے جا کر پوچھے جو ساری مصروفیات سے بھی وقت نکال کرجوش سے کھیلتیں۔ اسی کھیل نے اب ان کو زندگی میں آگے بڑھنے کی راہ دکھائی ہے جس پر وہ عمل پیرا ہیں اور کامیابی کے سفر کی طرف گامزن ہیں۔‘

’زندگیاں بدل چکی ہیں‘
ثمر من اللہ کہتی ہیں کہ ’دو سال کا عرصہ بڑا عرصہ ہوتا ہے (اور اس دوران) میری فلم ’آؤٹ سوئنگ‘ کی ٹیم کی کئی لڑکیاں ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔ کرکٹ اور کھیل نے کئی لڑکیوں کی زندگیوں کو بدل دیا ہے۔ انھوں نے اپنے منزلیں اور اہداف طے کر لیے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کچھ نے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ اب باقاعدہ تعلیم حاصل کر رہی ہیں جس کے لیے وہ بہت مشکل سے گزرتی ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ ایک لڑکی کی خواہش ہے کہ وہ لاء کالج میں داخلہ لے کر وکیل بنے جبکہ دو لڑکیاں ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔

’آوٹ سونگ‘ میں موجود سکینہ اپنی ٹیم کی سٹار کھلاڑی تھی۔ اپنی شادی کے بعد وہ اپنے خاوند کے ہمراہ کراچی منتقل ہو چکی ہیں۔ سکینہ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے جبکہ ان کے خاوند نے بی ایس سی کر رکھی ہے۔ دونوں میاں بیوی چند دونوں میں واپس اسلام آباد منتقل ہو رہے ہیں۔

سکینہ کے خاوند مشعل سکول میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں گے جبکہ سکینہ کرکٹ ٹیم کی کوچ بنیں گئیں۔

سکینہ کہتی ہیں کہ کھیل اور تعلیم کے ساتھ مواقع ملنا شروع ہو چکے ہیں۔ ’میں اپنے سکول کرکٹ کی سٹار کھلاڑی تھی۔ اب میں اپنے اسی سکول کی کوچنگ کروں گی۔ میرے خاوند وہاں پر استاد ہوں گے۔ انھوں نے مجھے آگے تعلیم جاری رکھنے کی نہ صرف اجازت دی ہے بلکہ رہنمائی بھی کریں گے۔‘

سکینہ کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اب دوبارہ اپنی تعلیم جاری رکھنے اور کرکٹ کھیلنے کا موقع ملے گا۔ جو یقینا ہماری ترقی کا سبب بنیں گے۔

وجہیہ ناصر خان میٹرک کی طالبہ اور ’آوٹ سونگ‘ کا ایک کردار ہیں۔ یہ سات بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ ان کے بڑے بہن بھائیوں نے تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔ کچھ سال قبل تک یہ بھی طالبہ نہیں تھیں بلکہ بری امام کے اردگرد گھوم پھر کر مختلف کھانے پینے کی معمولی اشیاء فروخت کرتی تھیں۔

وجہیہ ناصر خان بتاتی ہیں کہ ’میرے والد سکیورٹی گارڈ کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہ تو کل ہی کی بات ہے کہ مجھے کوئی شعور نہیں تھا۔ بس صبح گھر سے نکلتی تو ایک ہی خواہش ہوتی تھی کہ چنا چاٹ بک جائے۔ بری امام کے ارد گرد ہمیں کھڑے ہونے کی اجازت بھی نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے پولیس والوں کی نظروں سے بھی چھپتے پھرتے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سکول میں آئی تو پتا چلا کہ دنیا تو کچھ اور ہے۔ بہت چھوٹی عمر میں اپنے بھائیوں کے ساتھ گلی میں کرکٹ کھیلا کرتی تھی۔ سکول میں جب کرکٹ کھیلتے دیکھا تو میں بھی ٹیم میں شامل ہو گئی۔ جب ٹیم میں شامل ہوئی تو مجھے صرف ایک ہی جنون سوار ہوتا تھا کہ جیتنا ہے۔‘

وجہیہ ناصر کہتی ہیں کہ کرکٹ کھلینے سے مجھے سمجھ آئی کہ زندگی میں بھی کیسے لڑنا اور پھر جیتنا ہے۔ اس کے لیے انتھک محنت کی ضرورت ہے۔ محنت کر رہی ہوں۔ پڑھائی کے ساتھ کرکٹ بھی جاری ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ مستقبل میں وکیل بنوں۔ قومی ٹیم میں کرکٹ کھیلوں اور ملک و قوم کا نام روشن کروں۔

’میں نے معلومات حاصل کی ہیں۔ مجھے پتا چلا ہے کہ اس کے لیے یونیورسٹی میں پڑھنا ہو گا۔ جس کے لیے اخراجات بھی ہوں گے۔ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کام کروں گی۔ اس کے ساتھ پڑھائی جاری رکھوں گئیں۔‘

ثمر من اللہ کا کہنا تھا کہ اُنھیں قوی امید ہے کہ یہ لڑکیاں ضرور کامیاب ہوں گی اور ضرور آگے بڑھ کر اپنا اور اپنے خاندانوں کا سہارا بنیں گی، تاہم وہ سمجھتی ہیں کہ اس میں بڑا کردار اختر زیب کا ہے۔

’ہمارے معاشرے، حکومت، فلم سازوں اور میڈیا کو چاہیے کہ وہ اختر زیب اور مشعل سکول کی زیبا حسین جیسے کرداروں پر نہ صرف کہانیاں بنائیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کریں جو ایک بڑی تبدیلی کی بنیاد بن رہے ہیں۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے