یاسمین افغان بشکریہ جدوجہد
افغان خواتین نے کابل اور مزار کی سڑکوں پر ایک مرتبہ پھر اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔ کابل میں مظاہرین نے ’روٹی، کام، آزادی‘ کے نعرے لگائے اور آخر کار کابل میں اقوام متحدہ کے سامنے جمع ہوئیں۔
ایک ویڈیو میں مظاہرین میں سے ایک نے کہا کہ ’ہم مذہبی رہنماؤں، ملاؤں کا احترام کرتے ہیں کیونکہ اسلام نے ایسا کہا ہے اور خدا نے ان کیلئے مساجد کی مقدس جگہ کا انتخاب کیا ہے۔ ہم ان (طالبان) کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ مساجد کے منبر پر جائیں اور لوگوں کی رہنمائی کریں اور معیشت، سیاست، کرنسی کنٹرول اور بین الاقوامی تعلقات جیسے موضوعات ماہرین کیلئے چھوڑ دیں تاکہ وہ اس پر گفتگو کر سکیں۔‘
یہ پہلا موقع ہے جب افغانستان میں کسی گروپ نے براہ راست سیکولر ازم کا مشورہ دیا ہے کیونکہ احتجاج کرنے والی خواتین نے مطالبہ کیا تھا کہ ملاؤں کو مساجد میں واپس جانا چاہیے اور دوسرے شعبوں کے ماہرین کو اپنے شعبوں کی قیادت کرنے دیں۔
احتجاج کرنیو الے گروپ نے عالمی برادری اور افغانستان کی خواتین سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ طالبان گروپ کیلئے افغان خواتین کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے، طالبان قیادت خواتین کو قبول کرنے کی جعلسازی کر سکتی ہے اور وہ اپنی نامکمل حکومت میں خواتین کو تھوڑا سا حصہ بھی دے سکتے ہیں لیکن ان کے نچلے درجوں کے لوگ یہ کبھی قبول نہیں کرینگے کیونکہ وہ گزشتہ 20 سال سے اسی مقصد کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
افغانستان کی صورتحال کافی گھمبیر ہے اور خواتین اپنے تقریباً تمام حقوق کھو چکی ہیں، غربت اور بھوک نے لوگوں کو اپنے بچے اورگھریلو سامان بیچنے پر مجبور کر دیا ہے لیکن اس اذیت اور تکلیف کے باوجود افغان خواتین مزاحمت کیلئے اٹھ رہی ہیں اور طالبان کی سختیوں اور سخت قوانین سے انکار کر رہی ہیں۔