بی بی سی اردو
پاکستان کے شمالی علاقے ہنزہ میں سطح سمندر سے 3100 میٹر بلندی پر واقع ’شمشال‘ پاکستان کا چین کی سرحد کے قریب آخری گاؤں ہے۔ یہ پاکستان کی بلند ترین آبادیوں میں سے ایک ہے۔ یہاں تک پہنچنے کا واحد راستہ دستیگل سر اور قراکوہ پہاڑوں سے گزرتی بل کھاتی پتھریلی سڑک ہے۔
اس سڑک کو ’شاہراہ وادی شمشال‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ دنیا کے پُرخطر راستوں میں سے ایک ہے۔
اس سڑک کا زیادہ تر حصہ دریائے شمشال کے ساتھ ساتھ گزرتا ہے جہاں گہری کھائیاں اور گھاٹیاں موجود ہیں اور اس سڑک کے کنارے حفاظتی بند بھی نہیں بنے ہوئے ہیں۔ سنہ 2003 میں 18 سال کے طویل عرصے بعد تعمیر ہونے والی یہ سڑک شاہراہ قراقرم پر ایک غیر معروف مقام سے مڑتی ہے جس پر صرف فور بائی فور جیپ یا سائیکل کے ذریعے سفر کیا جا سکتا ہے۔
مئی 2017 میں، میں نے اپنے چھ ساتھیوں کے ہمراہ سائیکلوں پر اس سڑک پر سفر کیا تھا۔ ہم نے 56 کلومیٹر کا یہ سفر پاسو کے قریب سے شمشال کی جانب کیا تھا۔ اس سفر کے راستے کے زیادہ تر حصہ میں، میں نے اپنے سائیکل کے ہینڈل کو اتنی مضبوطی سے تھامے رکھا تھا کہ میرے ہاتھ دکھنے لگے تھے۔
سفر کے دوران سارے راستے میں یہ ہی دعا کرتی رہی کہ میری سائیکل کی بریکس جواب نہ دے جائیں۔ اس مشکل اور پُرخطر راستے پر سائیکل چلاتے وقت مجھے لگا تھا کہ میری المونیم سے بنی سائیکل کا ڈھانچہ میرے نیچے سے نکل کر بکھر جائے گا یا کم از کم سائیکل کا کوئی اہم حصہ ہوا میں اڑتا ہوا چٹان سے نیچے کھائی میں جا گرے گا۔
مگر شکر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ میں اپنے ساتھی سائیکلسٹ کی طرح اس پتھریلے راستے پر سائیکل چلاتے وقت زیادہ تیز یا ان کی طرح پُراعتماد نہیں تھی۔ اس لیے میں ان سے پیچھے رہ گئی اور زیادہ تر سفر میں نے آہستہ آہستہ سائیکل چلاتے ہوئے اکیلے ہی طے کیا۔
میں راستے میں اکثر رُک جاتی، چٹان کے اوپر سے دوسری طرف دیکھتی۔ یہاں کہ مناظر مجھے یہ احساس دلاتے جیسے میں کسی اور سیارے پر سائیکل چلا رہی ہوں۔ کیونکہ یہاں دور دور تک کسی انسان یا آبادی کا نام و نشان تک نہ تھا، اگر کچھ تھا تو پتھر، پہاڑ اور چٹانیں۔
بالآخر ہم سات گھنٹوں کی مسافت کے بعد زندہ سلامت شمشال گاؤں میں پہنچ گئے جہاں سڑک کنارے موجود شرمیلے اور متجسس بچوں نے ہمارا استقبال کیا۔
شمشال گاؤں وادی شمشال کے چار دیہاتوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ساتھ اس وادی میں فرمان آباد، امین آباد اور خضر آباد نامی گاؤں موجود ہیں۔ یہاں کے باسیوں کو ’واکھی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک نسلی گروہ یا برادری ہے جو شمالی پاکستان، افغانستان، چین اور تاجکستان تک پھیلی ہوئی ہے۔ اور ان کا تعلق اسماعیلی فرقے سے ہے۔
جیسے جیسے ہم راستے سے گزر رہے تھے تو وہاں موجود افراد نے ہمیں اپنے کام چھوڑ کر مسکراہٹ کے ساتھ سلام کیا اور انگریزی زبان میں ہمیں اپنے گاؤں آنے پر خوش آمدید کہا۔
ایک چھوٹی سی پہاڑی پر گاؤں کے سکول کے عقب میں واقع گیسٹ ہاؤس میں رات گزارنے کے بعد ہم نے صبح پیدل شمشال پاس جانے کا ارادہ کیا۔ شمشال پاس وہ جگہ ہے جہاں اس گاؤں کے لوگ اپنے مویشیوں کے ریوڑ خصوصاً یاک کو چروانے لے جاتے ہیں۔ یہ ایک سرسبز چراگاہ ہے۔
تقریباً 35 کلومیٹر کی چڑھائی چڑھنے کے بعد ہم ایک جھولتے ہوئے پُل پر پہچنے جسے تاروں، زنجیروں اور لکڑی کے پھٹوں سے تیار کیا گیا تھا۔ یہ پُل ایک دریا کو عبور کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس پل پر موسمیاتی اثرات سے متاثرہ ایک تختی لگی ہوئی تھی جس پر مٹا ہوا لفظ ’چیچان بیگ‘ لکھا ہوا تھا۔
میں نے سوچا کہ ان الفاظ کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ اس پُل کا نام ہے یا راستے کے اس مخصوص حصے کا نام ہے؟ میرے ساتھ موجود ایک مقامی شخص حسین نے بتایا کہ گاؤں میں ایک شخص ہے جو مجھے اس متعلق سب کچھ بتا سکتا ہے۔
اس دن شام کو واپس آ کر گیسٹ ہاؤس کے ڈائنگ روم میں ہم سب ایک میز کے گرد اکٹھے ہو گئے اور حسین نے ہمیں اس شخص سے متعارف کروایا۔ ان کا نام عیسیٰ خان تھا جنھوں نے اپنی تمام عمر اسی گاؤں میں گزاری تھی اور وہ اپنی 12 نسلوں تک کے متعلق بتا سکتے تھے۔
عیسیٰ خان نے ہمیں کہا کہ وہ پہلے اپنے خاندان اور پچھلی نسلوں کی تاریخ کے بارے میں بتائیں گے اور پھر اس پُل کے متعلق بتائیں گے۔ عیسیٰ خان کے دادا ایک بڑھئی تھے۔ ایک دن انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ شمشال گاؤں کے قریب ایک بنجر علاقے کو کھیت میں تبدیل کر دیں گے۔
انھوں نے زمین کو کھودا اور اسے تیار کیا تاکہ وہاں گندم، جو اور باجرے کی کاشت کی جا سکے۔ اس تمام کام کے لیے ان کے پاس کوئی اوزار نہیں تھے اور انھوں نے تمام کھیت اپنے بیلچے اور ہاتھ سے چلنے والے اوزاروں کو استعمال میں لاتے ہوئے تیار کیے۔ داد کا نام چیچان بیگ تھا۔
یہ فصلیں اس وقت اور آج بھی اس برادری میں روٹی بنانے اور اس دوسرے کے ساتھ لین دین میں استعمال ہوتی ہیں۔
سنہ 1995 میں عیسیٰ خان کے والد محمد باشی نے شمشال کی ایک روایت ’نومس‘ کے تحت اپنے والد کے نام پر ایک پُل تعمیر کیا تھا۔
نومس واکھی زبان کا ایک لفظ ہے جس کا مطلب ’انسان دوستی یا خدمت خلق‘ ہے اور یہ اس برادری کا ایک منفرد معاشرتی خدمت خلق کا طریقہ کار ہے۔ اور یہ وادی شمشال کے سماج کا لازمی جزو ہے۔ بنیادی طور پر، یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں برادری کے امیر افراد کسی رشتہ دار کی یاد (چاہے وہ زندہ ہوں یا مردہ) کی تعظیم اور خدا کی رحمت کے حصول کے لیے وسائل، خوراک یا اپنی محنت فراہم کر کے کوئی عمارت، پل، پگڈنڈی یا دیوار کی تعمیر میں مدد کرتے ہیں۔
اس رواج کے تحت اگر کسی شخص نے اپنی دولت سب کے مفاد کے لیے عطیہ کر دی ہے تو اس کے بدلے میں لوگ اس کی پراپرٹی کی دیکھ بھال اور رکھوالی کرتے ہیں۔ شمشال کے باسی ’نومس‘ کی روایات کو اپنی عمر بھر کی ذمہ داری سمجھتے ہیں، حتیٰ کہ ایسے افراد جنھوں نے برادری کے لیے خدمات انجام دیں اُن کی تعریف میں گیت بھی لکھے جاتے ہیں۔
مگر یہ رواج وادی شمشال سے باہر آپ کو کہیں نہیں ملتا اور کوئی اس بارے میں نہیں جانتا کہ اس کا آغاز کب اور کیسے ہوا۔ مگر شمشال میں یہ رواج اس وقت سے ہے جب سے یہاں کے بسنے والوں کو یاد ہے۔
شمشال میں رہنے والے جتنے بھی لوگوں سے میں نے بات کی وہ اپنی کئی نسلوں کی تاریخ اور آباؤ اجداد کے بارے میں جانتے تھے۔ ان کی یادداشت بہت پرانی ہے اور وہ اس وقت کو بھی جانتے ہیں جب ان کی پچھلی نسلوں کی زندگی بہت مشکل تھی اور جب وہ ہنزہ کے میر کے غلام تھے۔ جو ان کی مویشوں کو پالتے اور یہاں کے راجا کے لیے سامان اٹھانے کا کام کرتے تھے۔
ہنزہ کبھی ایک شاہی ریاست ہوا کرتی تھی۔ یہ سنہ 1892 سے سنہ 1947 تک برطانوی ہندوستان کے ساتھ ایک ذیلی اتحاد اور سنہ 1947 سے سنہ 1974 تک پاکستان کی ایک شاہی ریاست کے طور پر قائم تھی۔
جب پاکستانی حکومت نے ہنزہ کی شاہی ریاست کا درجہ ختم کیا تو شمشال کے باسیوں نے اپنے تمام تر توجہ اپنی برادری کی ترقی اور بہتری پر مرکوز کر دی۔ انھیں اپنی خودمختاری پر فخر تھا۔
ان کا ماننا ہے کہ خود انحصاری ہی اپنے معاملات کو حل کرنے اور ان پر اختیار رکھنے کا بہترین طریقے ہے۔ اور وہ اپنے لوگوں اور زمین کا اچھے سے خیال رکھنا جانتے ہیں۔ اور اس کی بنیاد ان کی روایت ’نومس‘ ہے جس کا مقصد اپنی برادری کی فلاح و بہبود ہے اور وہ ہی ان کے اس یقین کا اہم جزو ہے۔
میں نے عیسیٰ خان اور حسین سے پوچھا کہ وہ اس روایت کے متعلق کیا جانتے ہیں۔ ان دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ شمشال بہت عرصے تک دوسری دنیا سے کٹا رہا ہے (جب تک کہ سنہ 2003 میں وادی شمشال شاہراہ کمل نہیں ہوئی) اور شاید اس کے باعث نومس کی روایت نے یہاں جنم لیا۔
شمشال کے باسیوں کو اپنا اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا راستہ تلاش کرنا تھا۔ وہ اس قدر دور دراز اور الگ تھلگ آباد تھے کہ برادری سے باہر کسی سے مدد کی توقع نہیں کر سکتے تھے۔
عیسیٰ خان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ انھیں شک ہے کہ نومس کی روایت سو سال یا اس سے بھی پرانی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘پرانے وقتوں میں جس کے پاس زیادہ بھیڑ بکریاں ہوا کرتی تھیں وہ کچھ جانور برادری میں تقسیم کر دیا کرتا تھا تاکہ سب کا بھلا ہو سکے اور اس کے بدلے میں برادری اس کے مویشیوں کو چروانے میں مدد کرتی تھی۔‘
شمشال میں زیادہ تر انفراسٹرکچر کی ترقی جس میں پُلوں کی تعمیر، گاؤں کے لگ بھگ 250 گھروں پر سولر پینلز کی تنصیب، موبائل اور بجلی کے کھمبوں کی تنصیب، گاؤں کی سڑک کنارے پتھروں کی دیوار کی تعمیر، اور شمشال پاس کے ساتھ ساتھ مٹی اور پتھر سے بنے گھر یہ سب کچھ اسی نومس نامی روایت کا ثمر ہیں۔
یہاں ایک کمیونٹی کے زیر انتظام شمشال نیچرل ٹرسٹ بھی قائم ہے جو علاقے کی دیکھ بھال اور یہاں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وادی شمشال شاہراہ کا قیام بھی صرف اس وقت عمل میں آیا جب یہاں کے مقامی افراد نے رضا کارانہ طور پر پاکستانی حکومت اور آغا خان ٹرسٹ کے ساتھ مل کر سڑک کی تعمیر کے لیے افرادی قوت فراہم کی۔
شمشال کے باسیوں کو اس حقیقت پر فخر ہے کہ انھوں نے اپنے گھروں اور اپنے گاؤں کی تعمیر خود کی ہے۔
عیسیٰ خان کے والد محمد باشی 2000 کی دہائی کے اوائل میں فوت ہو گئے تھے۔ اور اب عیسیٰ خان چیچان بیگ پل کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ انھوں نے سنہ 2004 میں اسے سیلاب میں بہہ جانے کے بعد دوبارہ تعمیر کیا تھا۔
چیچان بیگ کی نسل اس پل کی دیکھ بھال تب تک کرتی رہے گی جب تک یہ یہاں قائم رہتا ہے۔ اور یہاں ہمیشہ چیچان بیگ کا نام لکھا رہے گا اور اسے چیچان بیک پل کے نام سے ہی پکارا جائے گا۔ اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو اس کا مطلب یہ تصور کیا جاتا ہے کہ آپ اپنے آباؤ اجداد کی یاد کی تعظیم نہیں کر رہے اور آپ پر خدا کی رحمت نازل نہیں ہو رہی ہے۔
عیسیٰ خان کہتے ہیں کہ ’اگر میرے بچے میرے لیے کچھ بنانا چاہتے ہیں میں یقیناً میں اس پر خوش ہوں گا۔ لیکن اس کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ کیا وہ جو میرے نام پر تعمیر کریں گے اس کی مستقبل میں دیکھ بھال بھی کر سکتے ہیں یا وہ اس کی دیکھ بھال کریں گے جو میں نے اپنے والد کے لیے تعمیر کیا جنھوں نے اپنے والد کے لیے کچھ بنایا تھا۔ میں اس میں بھی خوش ہوں۔‘