عزیز علی داد
یہ ۲۰۱۵ کی بات ہے۔ میں برلن فری یونیورسٹی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں ریسرچ فیلو کے طور پرشریک تھا۔ اس کانفرنس میں زیادہ تر سیاسی، جغرافیائی اور معاشی طور پر حاشیئیوں پر رہنے والے معاشروں کا احاطہ کیا جارہا تھا۔ کانفرنس کے اختتام کے بعد ریفریشمنٹ کے دوران ایک پروفیسر سے بات چیت ہوئی۔ ان کا پاکستان اور گلگت بلتستان کے بارے میں کافی گہرا مطالعہ تھا۔ مجھ سے پوچھنے لگے کہ ہمیں پاکستان اور خاص کر گلگت بلتستان میں لکھنے میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کچھ توقف کے بعد کہا ” ہمیں مشکل یہ درپیش ہے کہ کوئی ایسا بندہ ہمیں میسر نہیں ہے جو ہمیں یہ بتا سکے کہ ہم کیا غلط لکھ رہا ہیں۔ نتیجتا ہم ایک مصنفین و مفکروں کی پود پیدا کر رہیں ہیں جن کے پاس علم کم اور علم کاگمان زیادہ ہے”۔
فلسفے کا طالب علم کی حیثیت سے میری علمیات اور علم کے عمران کے ساتھ گہری دلچسپی رہی ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر مجھے فرانسیسی فلسفی لیوتار یاد آئے۔ لیوٹارڈ نے 1984 میں مابعدجدیدت کے دور میں علم کی صورتحال پر "پوسٹ ماڈرن کنڈیشن” کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں انھوں نے جدید برقی و کمپیوٹرٹیکنالوجی کے زیر اثر علم کے بنیادی نوعیت میں گہری تبدیلیوں پر روشنی ڈالی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ برقی ایجادات اور برقی سوچ کے زیر اثر دنیا میڈیا سوسائٹی میں تبدیل ہو گئی ہے اور علم اب شخصیت کا پرتو نہیں بلکہ مار کیٹ میں دستیاب مال ہے۔ ۲۰۰۰ کی پہلی دھائی میں لندن میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ وہاں کےمعاشرے اور معیشیت کو دیکھ کر لیوٹارڈ کی کچھ معروضات سمجھ میں آنی شروع ہوئی۔ میں ابھی اس کو سمجھنے کی سعی میں مصروف تھا کہ اسی دوران میں دنیا میں مابعدسچائی کے عہد کا اعلان ہوا۔ پتہ چلا اب علم آپ کے تحقیق سے زیادہ آپ کے ذرائع پر زیادہ منحصر ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ آپ نے جو بولا ہے وہ تحقیق کی بنیاد پر مبنی ہو۔ بلکہ ضروری یہ ہے کہ آپ ان میڈیمز کے ساتھ منسلک ہیں۔ علم کے گمان کو پھیلانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے پہلے دور کی دنیا حقیقت سے مکمل آشنا دنیا تھی۔ اس سے پچھلے ادوار میں لوگوں نے سفید جھوٹ تراشے تھے مگر کسی معاشرے یا ریاست کے پاس اتنے عمدہ ہتھیار نہیں تھے کہ وہ جھوٹ، دھوکہ، شازش اور سیاسی دھوکہ دہی کو اس پیمانے پر پیدا اور پھیلا سکیں جیسا کہ آج کہ دور میں ممکن ہے۔ یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ ہم انفارمیشن کے بہتات کے دور میں ڈس انفارمیشن کا زیادہ شکار ہیں۔
دنیا کے دیگر حصوں کی طرح حالیہ کچھ برسوں میں گلگت بلتستان میں شوشل اور ورچوئل میڈیا کافی پھیلا ہے۔ اس نے جہاں پرنٹ میڈیا پر لکھنے والوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے وہاں پر نئے لوگوں کو بے انتہا مواقعے فراہم کئے ہیں۔ چونکہ لکھنا ایک پڑھی لکھی اشرافیہ کا ذریعہ اظہار ہے اس لئے یہ جمہوری یا عوامی میڈیا نہیں تھا۔ اب ویڈیو کے میڈیم نے آواز اور ویڈیو کو ملا کر اس رکاوٹ کو ختم کردیا ہے۔ اس کے جہاں بہت سارے فائدے ہیں وہاں بہت سارے نقصانات بھی ہیں خاص کر گلگت بلتستان جیسی معاشرو ں میں جو پہلے سے ہی فکری غربت کا شکار ہے اور جدید علمیات کی بنیاد پر اب تک کوئی قابل ذکر علم پیدا نہیں کر سکا ہے۔ اس میں مسئلہ یہ نہیں کہ سچائی تلاش نہی کی جاسکتی۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ تلاش کے لیے وقت اور صبر نہیں ہے۔ اس لیے ہم انفارمیشن مارکیٹ سے جواب اٹھا لیتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے معاشرے میں جو نئے بیانئے نمودار ہورہے ہیں وہ جدیدیت سے کم اور مابعدسچائی کے پرتو زیادہ ہیں۔ اس برقی حقیقت میں یہ لازمی ہے کہ آپ کا پیغام بصری یا سمعی طور پر زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے۔اس میں تحقیق یا علم کے عنصر کا ہونا لازمی نہیں بلکہ لازمی شرط یہ ہے کہ آپ کچھ نہ کچھ لازمی بولیں یا حرکت کریں کیونکہ اس میں جو دکھتا ہےبوہ بکتا ہے۔ جدید علمی اصولوں میں ایک اصول یہ تھا کہ جب ہم کسی چیز سے لاعلم ہوتا تھا تو خاموش رہنا پڑتا تھا۔ اب اصول یہ ہے کہ آپ نے بولنا ہے چاہے آپ کے پاس علم ہو نہ ہو۔ اس کے نتیجے میں جو نظریات ہمارے معاشرے میں نمودار ہو رہے ہیں وہ مابعد سچائی کے دور کے زیادہ نمائندہ ہیں نہ کے کسی تحقیق کے۔
اس کو سمجھنے کے لیۓ کچھ مثالیں ہم گلگت بلتستان سے لیتے ہیں۔کچھ سال پہلے ایک تقریب میں ایک صاحب علم لفظ گوجال کے مصدر کے متعلق اپنا نظریے کی وضاحت کررہے تھے۔ ان کی سائنسی تحقیق صرف الفاظ کی مشابہت پر مبنی تھی جو محض ایک اتفاق ہی ہوسکتا ہے. اسی طرح شینوں کے متعلق ان کے چیدہ نمائندے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ابو جہل کی نسل سے ہیں۔ کوئی ان کو یہ بتاۓ کہ یہ دعوی نسلوں سے متعلق علم بشریات کی بنیادی سائنس کو ہی مسترد کرتی ہے کیونکہ سامی نسل اور انڈو آرین نسل دو الگ چیزیں ہیں۔ اس گمانی شناخت کی وجہ سے شین لوگ جان بوجھ کر اپنے اوپر ایک جہالت کا بھوت سوار کردیتے ہیں۔ اس منطق کی روشنی میں شین بننے کے لیے جہالت لازم و ملزوم ہے۔آج اس بنیاد پر ایک ایسا بیانیہ تیار کیا جارہا ہے جس کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ کچھ عشروں بعد آنے والی نسل اس کو حقیقت سمبھے گی۔
اس طرح اس مہینے کراچی میں بروششکی زبان کے کچھ متحرک کارکنوں نے بروششکی کابفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ یہ ایک قابل تحسین اقدام تھا جس کی ملکی پیمانے پر بڑی تشہیر ہوئی۔ اس کانفرنس میں اس غیر تحقیقی بیانیۓ کو دھرایا گیا جس کی رو سے بروششکی زبان ۱۸۰۰۰سال قدیم زبان ہے۔ ہمارے اس تخیلی تحقیق پہ دنیا کے تاریخ دان اور ماہر لسانیات اپنا سر ہی پیٹ سکتے ہیں کیونکہ دنیا کی پہلے بولی جانے والی زبان ۵۰۰۰ قبل مسیح کی تامل زبان ہے۔ انسان نے ۱۰۰۰۰ سال قبل مسیح میں پودوں کو سدھایا تھا۔ زبان تو اس وقت وجود نہیں رکھتی تھی۔ لیکن ہم میں ایسے محقق وارد ہوۓ ہیں جو علم بشریات اور لسانیات کے بنیادی اصولوں سے بھی ماورا ہیں۔اس طرح سے ایک نئی پود سامنے آرہی ہے جو اپنی زبان سے بے پناہ محبت کرتی ہے اور ترویج کرنا چاہتی ہے۔مگر یہ محبت لسانیات کی تربیت سے خالی ہے۔
اب چونکہ شوشل میڈیا کا دور ہے جہاں پر آن لائن ٹی وی چینلز اور فورمز کا دور دورہ ہے۔ ایسے میں مشکل یہ پیش آتی ہے کہ ان سب کو مسلسل تحقیق پر مبنی متن کیسے مہیا کیا جاۓ؟ نتیجے میں علم کی بجاۓ معاشرے میں موجود عمومی تخیلات اور افسانوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک شو میں ایک صاحب فرما رہے تھے کہ دنیا کی قدہم ترین کتاب لاسہ تبت میں لکھی گئی ہے۔ جبکہ علم تاریخ اور آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ دنیا کی پہلے کتاب داستان گلگمش ہے جو ۳۰۰۰ قبل مسح لکھی گئی ہے۔داستان گلگامش میں نپور اور سارگن ہے. اسی طرح مصر کے بادشاہ کا لقب راع رہا ہے۔تو یہ لازم ٹھرتا ہے کہ اس کا سیدھا تعلق گلگت سے بنتا ہے کیونکہ شینا میں لفظ سارگن، راع ہے اور نپور گلگت کے ایک علاقے کا نام ہے۔۔۔ جبکہ تبت کی زبان میں لکھائی ساتویں صدی تھون ما سم نے ایجاد کی۔
کچھ لوگ تو اس حد تک دعوی کرتے ہیں کہ ملک ہنگری کا نام بروششکی لفظ ہن گری (ایک چراغ) سے مستعار ہے۔عمومی مثالیں تو ایک طرف ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کا یہ حال ہے کہ ایک نظر میں سر بستہ تاریخ کو عیاں و بیاں کردیتے ہیں۔ پچھلے سال بلتستان کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ٹریکنگ کے دوران ایک صلیب نما پتھر ملا۔ موصوف دعوی کر بیٹھے کہ بلتستان میں بہت پہلے نسطوری عسائیت رائج تھی۔
نتیجے میں ہم اپنی زبان، ثقافت اور تاریخ کے متعلق علم و فہم کم اور غلط فہمی اور گمان زیادہ حاصل کررہے ہیں۔ یوں ہم اپنی حقیقت سے بیگانہ مابعد سچائی کے دور میں رہ رہے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ ہم عصر حاضر کے فکر میں ہمارا حصہ نہیں ہیں۔اب یہ مجھے پتہ نہیں کہ ہماری ان علمی افکار پر مستقبل میں کتنی ریسرچ ہوگی، مگر محقیقن کو تحقیق کا ایک اہم موضوع ضرور ملے گا۔اس موضوع کے تحقیق کے ذریعے یہ بتایا جاۓ گا کہ ایک قوم نے کس طرح علم کم اور علم کا گمان زیادہ پیدا کیا۔