تحریر: اسرار الدین اسرار
غیرت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد کے واقعات تشویش ناک ہیں۔ گلگت بلتستان میں گذشتہ ایک ہفتے میں ایسے دو دردناک واقعات پیش آئے ہیں۔ بوبر میں ایک بھائی نے کلہاڑی کے وار سے شادی شدہ بہن کو بےدردی اور سفاکیت سے قتل کر دیا جبکہ دوسرے واقع میں جگلوٹ کے مقام پر ایک شخص نے اپنی بیوی اور دو بچوں پر گرم پانی پھینک دیا جس سے وہ شدید زخمی ہوئے اور اس واقعہ کی ایف آر میں متاثرہ خاتون کے بھائی نے موقف اپنایا ہے کہ ان کی بہن اور دوبچوں کو گرم پانی میں ڈال کر قتل کرنے کوشش کی گئی تھی۔
مذکورہ دونوں واقعات میں ملوث ملزمان کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ تشدد اور قتل کی وجوہات جو بھی ہوں یہ ایک قبیح عمل ہے۔ کسی بھی قسم کی وجوہات تشدد اور قتل کو جائز نہیں بنا سکتی ہیں ۔ تشدد اور قتل یقینا غیر انسانی اور درندگی کی خصلتیں ہیں جن کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔
زندگی کا حق بنیادی انسانی حقوق میں سب سے پہلا اور اہم حق ہے ۔ باقی تمام انسانی حقوق اس کے بعد آتے ہیں۔ اس لئے انسانی حقوق کے عالمی منشور میں انسانی زندگی کی حرمت کو سب سے افضل قرار دیا گیا ہے۔
مذکورہ فرسودہ روایات سے معاشرے مہذب بننے کی بجائے جنگل کا روپ دھارتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں ہر سال نام نہاد غیرت کے نام پر قتل اور گھریلو تشدد کے درجنوں واقعات رونما ہوتے ہیں اور درجنوں خواتین اور مرد اس کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔ بلکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسے واقعات کا شکار اکثر اور عموما معاشرے کے کمزور اور پسے ہوئے طبقات یعنی خواتین اور بچے ہوتے ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں گھر کے فرد ملوث ہوتے ہیں اور مدعی بھی گھر کا دوسرا فرد ہوتا ہے جو بعد ازاں ملزم کو معاف کر دیتا ہے اس لئے ایسے کیسسز میں سزا نہیں ملتی ہے۔
غیرت کے نام پر قتل کی بظاہر وجہ کردار پر شک ہوتا لیکن اس کے پس پردہ اور بھی کئی وجوہات ہوتی ہیں جن میں جائیداد کا حصول، خاندانی لیں دین ، خاندانی چپقلشیں اور دیگر تنازعات وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح گھریلو تشدد کے پیچھے بھی کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں جن میں فرسودہ سماجی روایات یا اصول ، عدم برداشت اور ذہنی دباؤ کے پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں گھریلو تشدد کا الگ سے قانون موجود نہیں ہے کیونکہ گھریلو تشدد کے خلاف قانون کا مسودہ گزشتہ ایک سال سے التواء کا شکار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گھریلو تشدد کا قانون جلد جی بی اسمبلی سے پاس کر کے نافذ عمل بنایا جائے۔
ان واقعات کے روک تھام کے لئے ملکی سطح پر موجود دیگر قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے اور آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ معاشرے سے اس لعنت کا خاتمہ ممکن ہوسکے ۔
انسانی حقوق کے عالمی معیارات اور ملکی قوانین سمیت کوئی مہذب معاشرہ کی روایات اس امر کی اجازت نہیں دیتی ہیں کہ کسی انسان کو تشددکا نشانہ بنایا جائے یا غیرت کے نام پر قتل کیا جائے۔ اب وقت آیا ہے کہ حکومت اس ضمن میں ٹھوس اقدامات اٹھائے کیونکہ غیرت کے نام پر تشدد یا قتل غیرت نہیں بلکہ جہالت اور دردندگی ہے ۔