تحریر صفی اللہ بیگ
گذشتہ دنوں وزیر اعلی خالد خورشید نے اپنے ایک بیان دعوٰی کیا تھا کہ گلگت بلتستان متنازعہ خطہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے آباو اجداد نے اس کا فیصلہ 1948 میں پاکستان کے ساتھ الحاق کرکے کیا تھا۔ اگر یہ خطہ پاکستان کا حصہ ہے تو پھر اسے صدارتی آرڈر کے ذریعے کیوں چلایا جاتا؟
پاکستان کے انتظامی حکم 2018 جس کو پاکستان کی آئین میں تحفظ حاصل نہیں ہے، کے تحت PTI کا منتخب بے اختیار وزیراعلی کہتا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد نےفیصلہ کر دیا ہے یعنی پاکستان کے ساتھ الحاق کیا ہے لہذا ہمGB کو متنازعہ نہیں سمجھتے ہیں۔
مگر وزیر اعلی الحاق، غیر متنازع GB اور سری نگر میں G20 کانفرس جیسے موضوعات کو چھیڑ کر دراصل گلگت بلتستان لینڈ ریفارمرز بل اور گلگت میں بیرونی نجی سرمایہ کاری کے لئے راستہ ہموار کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ گلگت بلتستان کے سیاسی کارکنوں اور پارٹیوں کو چاہئے کہ الحاق سے متعلق پراپیگنڈہ اور جھوٹے بیانات کو مسترد کریں
حالانکہ الحاق کا زریں موقع 1949 میں ریاست پاکستان اور اس وقت پاکستان کے لیڈروں نے سوچ سمجھ کر اور کشمیری لیڈروں سردار ابراہیم اور غلام عباس کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کرکے ہمیشہ کے لیے دفن کیا اور اہم بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا اب کویٰ ثبوت GB اور پاکستان کے پاس موجود ہی نہیں ہے سپریم کورٹ اف پاکستان GB کو متنازعہ قرار دے چکی ہے وزارت خارجہ GB کو متنازعہ سمجھتا ہے۔
مگر وزیر اعلی الحاق، غیر متنازع GB اور سری نگر میں G20 کانفرس جیسے موضوعات کو چھیڑ کر دراصل گلگت بلتستان لینڈ ریفارمرز بل اور گلگت میں بیرونی نجی سرمایہ کاری کے لئے راستہ ہموار کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ گلگت بلتستان کے سیاسی کارکنوں اور پارٹیوں کو چاہئے کہ الحاق سے متعلق پراپیگنڈہ اور جھوٹے بیانات کو مسترد کریں اور گلگت بلتستان کے لیے اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق "مقامی خود مختار اتھارٹی” یعنی ایک آئین ساز اسمبلی، آزاد عدلیہ اور خود مختار مقامی حکومتوں کے قیام کا مطالبہ کیا جائے۔