Baam-e-Jahan

کتاب: انسانی حقوق کا ارتقاء اور تصور

ناظر احمد

اس کتاب میں انسانی حقوق کے تمام مسائل تو نہیں، مگر بیشتر اہم موضوعات پر تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے طلباء، محافظین اور محققین کے لیے یہ ایک بہترین کتاب ہے۔ کتاب کا آغاز انسانی حقوق کے تعارف سے ہوتا ہے۔ اس باب میں انسانی حقوق کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے اور ان پر عملدرآمد کے دوران پیش آنے والے مسائل کا بھی ذکر موجود ہے۔ اس باب میں صرف ایک کمی محسوس ہوتی ہے، اور وہ ہے انسانی حقوق کی واضح تعریف۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن (جو اب کونسل بن چکا ہے) نے انسانی حقوق کی بہت واضح تعریف کی ہے، جسے اس باب میں شامل ہونا چاہیے تھا

دوسرے باب میں سماج، ریاست اور قانون کی تاریخ تفصیل سے بیان کی گئی ہے۔ تاریخی واقعات کو مارکسی نظریات کی روشنی میں پرکھتے ہوئے سماجی تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

تیسرے باب میں مذاہب کے تناظر میں انسانی حقوق کے تصور پر گفتگو کی گئی ہے۔ انسانی حقوق کا جدید تصور روشن خیالی اور جمہوریت کی طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے، جس کی بنیاد منطق اور سائنسی اصولوں پر رکھی گئی۔ تاہم، جب اسے عالمی سطح پر نافذ کرنے کی بات آئی تو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں یہ بحث چھڑ گئی کہ مختلف ممالک ترقی کے مختلف مراحل میں ہیں، لہٰذا ان پر یکساں قوانین کیسے لاگو ہوں گے؟ اسی بحث میں مذہب اور انسانی حقوق کا معاملہ بھی اٹھا۔ اس موقع پر کیتھولک ویلفیئر آرگنائزیشن نے اپنا ڈرافٹ بھی پیش کیا تھا۔ اسلام اور انسانی حقوق پر بحث تب شروع ہوئی جب جنرل اسمبلی میں ڈرافٹ پیش کیا گیا۔ بیشتر ممالک اس بات پر متفق تھے کہ انسانی حقوق اور مذاہب میں کوئی تضاد نہیں ہے، البتہ سعودی عرب کو آرٹیکل 18 کے ایک حصے پر اعتراض تھا۔ ہر مذہب ایک مخصوص تاریخی دور اور خطے میں آیا ہے، لیکن اس کے عمومی اصول انسانی حقوق سے ہم آہنگ ہیں۔ البتہ، وقت کے ساتھ کئی قوانین میں تبدیلی آ چکی ہے۔ اس باب میں ہندو مت، کنفیوشیزم (جو دراصل ایک فلسفہ ہے)، بدھ مت، جین مت، مسیحیت اور اسلام کو انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ تاہم، یہودیت اور سکھ مت پر بحث نہیں کی گئی، جو کہ ایک کمی محسوس ہوتی ہے۔

چوتھا باب فطری انسانی حقوق پر مرکوز ہے۔ اس میں کسانوں، مزدوروں، خواتین اور غلاموں کی تحریکوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ نشاۃ ثانیہ، لبرل ازم، فطری قوانین اور روشن خیالی کے فلسفیانہ خیالات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ میگنا کارٹا، جو انسانی حقوق کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، پر مکمل مضمون شامل ہے۔ شہری حقوق کی تحریکوں پر بھی الگ سے بحث کی گئی ہے۔ کارل مارکس کے نظریات اور روس کے سوشلسٹ انقلاب پر بھی اس باب میں تحریر موجود ہے۔ عام طور پر انسانی حقوق کی تاریخ کا آغاز میگنا کارٹا سے ہوتا ہے، پھر پیٹیشن آف رائٹس، امریکہ کا اعلانِ آزادی، فرانس کا اعلامیہ حقوقِ انسان و شہری اور آخر میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے پر منتج ہوتا ہے۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ معاشی حقوق کی جدوجہد کی تاریخ بھی بیان کرتی ہے اور اس کا تجزیہ طبقاتی کشمکش کے اصولوں کے تحت کرتی ہے، جس سے مارکسزم اور انسانی حقوق کے درمیان مماثلت نظر آتی ہے۔ تاہم، جان لاک کے فلسفے کو تفصیل سے شامل نہ کرنا ایک کمی ہے، حالانکہ اس کے نظریات نے انسانی حقوق کے نظام پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

پانچویں باب میں انسانی حقوق کے جدید عالمی نظام کے آغاز اور ارتقاء پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ باب لیگ آف نیشنز سے شروع ہوتا ہے اور انسانی حقوق کے اعلامیے اور کنونشنز پر ختم ہوتا ہے۔ اس میں اقوام متحدہ کے قیام اور انسانی حقوق کے اعلامیے کی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے۔ جدید انسانی حقوق کا نظام دراصل انسانی حقوق کے نیوکلیئر کمیشن سے شروع ہوتا ہے، لیکن اس کی بنیادیں 1941 میں اٹلانٹک چارٹر اور امریکی صدر روزویلٹ کی "چار آزادیوں” کی تقریر میں ملتی ہیں۔ بعد میں انٹر امریکن کانفرنس میں بھی یہ مطالبہ دہرایا گیا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں انسانی حقوق کے تحفظ کا ذکر ہونا چاہیے۔ چارٹر میں سات مقامات پر انسانی حقوق کا تذکرہ موجود ہے۔ نیوکلیئر کمیشن اور بعد ازاں انسانی حقوق کے کمیشن کو اعلامیے پر متفق ہونے میں تین سال لگے، جس دوران 200 سے زائد میٹنگز ہوئیں۔ یہ مباحثے اعلامیے، کنونشنز اور ان پر عملدرآمد کے طریقہ کار پر مرکوز تھے۔ تاہم، اس باب میں ان تمام دستاویزات کو شامل نہیں کیا گیا، جو ایک کمی ہے، کیونکہ ان کے بغیر جدید انسانی حقوق کے نظام کو سمجھنا مشکل ہے۔ اسی باب کے صفحہ 148 پر یہ لکھا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے پر ووٹنگ کے دوران سوویت یونین، سعودی عرب اور جنوبی افریقہ نے شرکت نہیں کی، جبکہ درحقیقت پانچ دیگر سوشلسٹ ممالک نے بھی ووٹ نہیں ڈالا تھا۔ اس کی وجوہات پر بھی کوئی بحث نہیں کی گئی۔ امید ہے کہ اگلے ایڈیشن میں اس کی تصحیح کی جائے گی۔

چھٹے باب میں پاکستان میں انسانی حقوق کی تاریخ بیان کی گئی ہے، جس میں سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کے کردار اور انسانی حقوق سے متعلق بننے والے قوانین کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ساتویں باب میں انسانی حقوق کے سوشلسٹ اور لبرل نظریات کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کے اثرات پر بحث کی گئی ہے۔

آٹھویں باب میں سہیل سانگی کا مضمون "انسانی حقوق کا متبادل نقطہ نظر” شامل کیا گیا ہے، جو زیادہ تر مارکسزم پر مرکوز ہے اور انسانی حقوق پر کم۔

نویں باب میں جسٹس فہیم احمد صدیقی کا مضمون "انسانی حقوق اور ہمارا ماحول” شامل ہے۔ ممکن ہے کہ یہ مضمون پرانا ہو، کیونکہ اس میں ماحولیات کو آئین کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جبکہ اب یہ آئین میں شامل ہو چکا ہے۔

آخر میں پاکستان میں انسانی حقوق کی موجودہ صورتحال پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ تمام وہ افراد جو انسانی حقوق کے تحفظ میں سرگرم ہیں، انہیں یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ نیز، اس موضوع پر مزید کتابیں لکھی جانا چاہئیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے