Baam-e-Jahan

محکوم معاشرے کی نفسیات

محکوم معاشرے کی نفسیات

تحریر. عزیز علی داد


جبر میں جکڑے معاشرے کی نفسیات ایک آزاد معاشرے سے مختلف ہوتی ہیں. ایسا معاشرہ اپنے ہر عمل کو طاقت کی روشنی میں دیکھتا ہے۔ جس کے نتیجے  میں فرد کے اندر اتنی تاریکی چھا جاتی ہے کہ وہ ظلمت کو ضیا سمجھنے لگتا ہے. ایسے تاریک معاشرے کے افراد افلاطون کی غار کی تمثیلی کہانی کے کردار لگتے ہیں جو زنجیروں میں اس طرح قید ہیں کہ وہ اپنے پیٹھ کے پیچھے لگی آگ کے الاو کو دیکھ نہیں سکتے. اس لئے وہ دیوار پر موجود اپنے سائیوں کو حقیقت سمجھتے ہیں۔

 آج جن لوگوں کو ہم طاقت کا سرچثمہ سمجھتے ہیں وہ درحقیقت اس جابرانہ نظام کے مہیب سائے ہیں جو ہم میں ڈراوٗنے خواب پیدا کرتے ہیں اور ہم ساری زندگی خوف کے سائے میں گزارتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی سوچ سوچنے سے ڈرتے ہیں, اپنا خواب نہیں دیکھ پاتے ہیں اور آزادی کی سوچ آزادی فکر سے ڈر لگتا ہے. اس لئے ہمارے سارے خواب, سوچ اور افکار این سی پی ہوگئے ہیں. یہی وجہ ہے کہ ہم  اپنی خوفناک وجودی حقیقت کا سامنا کرنے کی بجائے کسی اور کی بنائی ہوئی حقیقت میں پناہ لیتے ہیں۔

اس طرح کا ذہن کس طرح کی سوچ کو جنم دیتا ہے, اس کو ہم تاریخی مثالوں سے سمجھیں گے اور پھر موجودہ زمانے کی مثالوں سے واضح کریں گے کہ کس طرح ہم صرف جبر کے آلے اور سائے بن گئے ہیں.

ہنزہ کے میری یا راجگی نظام میں لوگ مل کر راجے کے لئے بیگار کرتے تھے. ان میں سے بعض لوگ بوجھ اٹھانے کا کام کرتے تھے جن کو شینا میں بلدہ سارو, بروشسکی میں بلدہ کیو اور وخی میں بوروارکہتے تھے. انگریزوں کی آمد اور میر کے نئے گھر کی تعمیر کے دوران بلدہ ساروں کی مانگ میں اضافہ ہوا. یوں ہنزہ میں زیادہ لوگ ڈھونے والے جانور بن گئے. انگریزوں نے ہنزہ کے بلدہ ساروں کے سخت جان  ہونے کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ لوگ بغیر کھائے پیئے ستر کلومیٹر تک بوجھ اٹھا کر چلتے ہیں

ایک ایسے ہی واقعے میں ایک انگریز آفیسر اپنے ساتھ بہت سارے بوجھ اٹھانے والوں کے ساتھ چین کی طرف عازم سفر ہوتا ہے. چونکہ اس کام کے لئے لوگوں کو ہنزہ کے میر نے مہیا کیا تھا اس لئےاجرت ہنزہ کے میر کو ہی دی گئی تھی. اس مشن پر مامور بلدہ ساروں کو کچھ معاوضہ نہیں ملا تھا۔ کیونکہ وہ میر کے حکم کی تکمیل کر رہے تھے. مشن کے دوران ایک مقام پر آکر ایک بلدہ سارو چلنے سے انکار کردیتا ہے. اس کو سزا کی دھمکی دی جاتی ہے۔ مگر وہ کپڑے پھاڑ کر مٹی پہ لیٹ جاتا ہے اور کہتا ہے میں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا ہے اور میرے جسم میں جان نہیں رہی. ویسے بھی مرنا ہے تو بہتر ہے کچھ کھا کے مروں. اس واقعے کو انگریزوں نے ریکارڈ کیا ہے. جسے پروفیسر ہرمین کروزمین نے اپنی حالیہ کتاب ہنزہ میٹرز میں حوالے کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

یہ تو تھا بلدہ ساروں کے ساتھ کام کے دوران سلوک کا ذکر۔اب ذرا ہنزہ کے معاشرے کا ان لوگوں کے متعلق رویۓ کو دیکھئےجو بوجھ نہیں اٹھاتے تھے یا بوجھ اٹھانے سے مستثنی ہوتے تھے. ایسے لوگ اپنے آپ کو عام لوگوں سے اعلٰی سمجھتے تھے. حالانکہ یہی لوگ میر کے روزانہ کے چھوٹے موٹے اور سارے گندے کام کرتے تھے. یہ سارے لوگ حقیقت میں میر کے بلدہ سارو تھے مگر بوجھ اٹھانے سے بچنے پر اپنے آپ کو اپنے ہی بھائیوں سے الگ سمجھتے تھے. یہ ہے جبر کی پیدا کردہ نفسیات کی ایک تاریخی مثال جس میں رد انسانیت کی حمایت کی جاتی ہے۔ تاکہ طاقت کی جبلت کی تسکین ہوسکے۔

ویسے بھی روایتی عمرانی نظام میں جس کا دماغ نہیں ہوتا تھا اور کام نہیں کرتا تھا وہ اتنا ہی معاشرتی طبقاتی درجہ بندی میں سب سے اوپر ہوتا تھا. یہی وجہ ہے کہ بنیادی انجینئرنگ اور موسیقی پیدا کرنے والوں کو ڈوم کہہ کر سب سے نچلا طبقہ قرار دیا گیا اور جو کچھ نہیں کرتا اسے بادشاہ بنا دیا۔

ایک اور تاریخی مثال ہنزہ شناکی سے۔

انیس سو تیس کے عشرے میں بہادر شاہ کی سرکردگی میں شناکی میں میر کے خلاف بغاوت ہوئی. میر کی تمام دھونس دھمکیوں اور ظلم کے باوجود بہادر باز نہ آیا. میر نے شناکی علاقے میں پیغام بھیجا کہ کون میرے لئے بہادر کی جاسوسی کرے گا. باقی لوگ تو چھوڑیں بہادر کے اپنے خاندان اور قبیلے والوں نے میر کے دربار میں اپنے آپ کو اچھا جاسوس ثابت کرنے کے لئے لڑ پڑے کہ میں اچھی جاسوسی کرسکتا ہوں. یہ لوگ بعد میں رات کو بہادر کے گھر میں لگے روشن دان اور دروازے پر کان لگا کر باتیں سنتے اور میر تک پہنچاتے۔

یہ ہیں طاقت کے وہ اثرات جس میں آپ اپنوں کے نہیں رہتے ہیں بلکہ طاقت کی اندھی آنکھیں اور بہرے کان بن جاتے ہیں۔

اگرچہ بہادر ان عام لوگوں کو بیگار سے آزادی دلانے کی جدوجہد کر رہا تھا مگر لوگ اس آزادی کو بیماری سمجھ رہے تھے. لوگ آزادی سے فرار ہوکر طاقت کی غلامی میں پناہ لے رہے تھے.یہ وہی بہادر ہے جس کو بعد میں گوجال جلاوطن کیا گیا اور اس جگہ کو بعد میں بہادر باغ کہا گیا۔

اب آئیں اور اپنے آپ کو موجودہ دور میں دیکھتے ہیں. جس طرح سے  پرانے نظام میں ہمیں آزادی سے ڈر لگتا تھا اس سے کہیں زیادہ آج ہمیں اپنی آزادی سے ڈر لگتا ہے. ہم طاقت کے قریب ہوکر اپنے ہی لوگوں پر طاقت کا بھرم جھاڑ کر یا دبا کے اپنی طاقت کی جبلت کی تسکین  کرتے ہے. حالانکہ ہمیں خود پتہ ہوتا ہے ہم اندر سے بالکل طاقت سے خالی ہیں. جہاں لوگ جتنے زیادہ طاقت سے محروم ہونگے وہ اتنا ہی زیادہ اس کا دکھاوا کریں گے.

جیسا کہ آپ جانتے ہیں حکومت کی نوکری کرنے والے افسروں کو پبلک سرونٹ یا سرکار کا نوکر کہا جاتا ہے. مگر گلگت بلتستان کا معاشرہ عجیب و غریب نفسیات کا حامل ہے. یہاں لوگ نوکر بننے کے لئے مرے جا رہے ہیں. وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں نوکر کی عزت کی جاتی ہے، افکار اور کردار کی نہیں.

اب صورتحال یہ ہے کہ چیلاس والوں نے اپنی ساری زمینیں بیچ دیں ہیں۔ اب احتجاج کر رہے ہیں کی ان زمینوں کے عوض نوکری دے دو. اب تو نیشنل پارکس بھی بننے جا رہے ہیں اور ہماری ناعاقبت اندیش حکومت کہہ رہی ہے کہ اس سے نوکریاں پیدا ہوں گی. اس سے نوکریاں نہیں نوکر پیدا ہونگے. ہمارے لوگ بھی عجیب ہیں. اپنی زمین کا مالک بننے پر فخر نہیں, زمین بیچ کر زمین کی چوکیداری والی نوکری کرنے کا بڑا شوق ہے۔  اب تو سارے گلگت بلتستان میں پارک بنائے جائیں گے. اس کا مطلب ہے لوگوں سے زمینیں سلب ہو جائیں گی اور لوگ پارک کے باہر چوکیدار بن کر نوکری کرینگے. یہ ہے طاقت اور جبر کے اثرات۔ ویسے اس وجہ سے ایک فائدہ ہوگا۔ وہ یہ کہ ہماری قومیت کی تعریف ممکن ہوگی اور نا اتفاقی کا مسئلہ بھی حل ہوگا۔ کیونکہ ہم سارے نوکر ہونگے اور نوکری ہماری اصلی پہچان ہوگی تو مسلک اور زبان کا جھگڑا بھی نہیں رہے گا۔ کیونکہ ہم جبر کو مذہب مانیں گے اور نوکر کی زبان بولیں گے. یہ ہیں نقصانات کے فائدے۔

عزیز علی داد گلگت-بلتستان کے ایک نوجوان سماجی مفکر، محقق،اور کالم نگار ہیں۔ ان کی تحریریں اور تحقیقی مقالے بیں اللقوامی جریدوں، ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں سمیت پاکستانی کے انگریزی اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔


جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے