عزیز اللہ خان بشکریہ بی بی سی اردو
خیبر پختونخوا میں مقامی حکومتوں کے انتخابات نے قومی سطح پر ایک سیاسی ہلچل پیدا کر دی ہے، حکمران جماعت ان انتخابات سے بظاہر پریشان ہے تو حزب اختلاف انتخابات کے نتائج کو ’امید کی کرن‘ کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف سنہ 2013 میں جو ’سونامی‘ لائی تھی اور سال 2018 میں اسے برقرار رکھا تھا، اب صوبہ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے حکمراں جماعت کے لیے پریشانیاں کھڑی کر دی ہیں۔
پارٹی کے اندر اختلافات، ٹکٹ ہولڈرز کے انتخاب میں کوتاہی، رہنماؤں کی کارکنوں سے کنارہ کشی کے علاوہ مہنگائی، بیروزگاری اور بہت سے عوامل ہیں جو پارٹی رہنماؤں اور اپوزیشن کی جانب سے گنوائے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ یہ سب خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی ناکامی کا باعث بنے ہیں۔
تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خیبرپختونخوا کے 17 اضلاع میں ہونے والے انتخابات کے نتائج سے صوبائی اور مرکزی سطح پر سیاسی صورتحال پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے؟
یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے یہ انتخابات مستقبل قریب میں کیا مشکلات پیدا کر سکتے ہیں؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جمعیت علما اسلام (ف) کی مقامی حکومت کے انتخابات میں کامیابی نے صرف پاکستان تحریک انصاف کو ہی نہیں بلکہ دیگر بڑی سیاسی جماعتوں جیسے پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی کو بھی قدرے پریشان کیا ہے۔
سینیئر صحافی فرزانہ علی کا کہنا ہے کہ ’ان انتخابات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہوا مخالف سمت میں چل چکی ہے اور اس کے اثرات مستقبل میں دیگر صوبوں میں ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں بھی نظر آ سکتے ہیں۔‘
جمعیت کی کامیابی کے چرچے
پہلے ذکر کرتے ہیں کہ جمعیت علما اسلام نے کون سے ایسے علاقوں میں اکثریت حاصل کی ہے جو ماضی میں دیگر سیاسی جماعتوں کے گڑھ سمجھے جاتے تھے۔
جے یو آئی کی ماضی میں زیادہ نشستیں صوبے کے جنوبی اضلاع سے ہی ہوتی تھیں۔ ان اضلاع میں ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، لکی مروت، ٹانک اور کرک کے علاقے شامل تھے، تاہم اس مرتبہ جمیعت نے صوبے کے دارالحکومت پشاور میں اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے۔
پشاور میں عام طور پر عوامی نینشل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان مقابلہ دیکھنے میں آتا تھا اور یہ علاقہ اِن دونوں سیاسی جماعتوں کے گڑھ سمجھے جاتے تھے۔
پشاور میں بلور خاندان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر عباس اور پھر دیگر رہنما یہاں سے کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ تاہم سنہ 2013 میں پاکستان تحریک انصاف نے تمام سیاسی جماعتوں کا صوبائی دارالحکومت سے لگ بھگ صفایا کر دیا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ شدت پسندوں کی اے این پی اور پی پی پی کے خلاف کارروائیاں بھی تھیں جس کے باعث یہ دونوں جماعتیں یہاں زیادہ متحرک نہیں رہی تھیں۔
حالیہ انتخابات میں جمیعت نے پشاور کی چھ تحصیلوں میں سے چار میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ جے یو آئی عوامی نیشنل پارٹی کے گڑھ مردان اور چارسدہ میں بھی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ چارسدہ میں آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی جماعت قومی وطن پارٹی کو بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مردان کی تین تحصیلوں اور چارسدہ کی دو تحصیلوں میں جمیعت نے کامیابی حاصل کی ہے۔
تجزیہ کار اور سینیئر صحافی علی اکبر کا کہنا ہے کہ یہ بیانیہ اب دم توڑ چکا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف اب بھی مقبول جماعت ہے کیونکہ لوگوں کا فیصلہ حکمران جماعت کے خلاف آیا ہے اور اس کی وجوہات یہ ہیں کہ لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوئے اور طرز حکمرانی پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کی ناکامی کی وجوہات
پی ٹی آئی اب تک کے نتائج کے مطابق 12 تحصیلوں میں کامیاب ہوئی ہے اور ان میں بیشتر بونیر کے علاقے سے ہیں جبکہ پشاور جیسے اپنے مضبوط گڑھ میں جماعت صرف ایک تحصیل میں کامیابی حاصل کر سکی ہے اور باقی چار میں جمیعت اور دو میں اے این پی کامیاب ہوئی ہے۔
ان انتخابات سے پہلے بھی آثار یہی نظر آ رہے تھے کہ پی ٹی آئی زیادہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے گی اور سیاسی مبصرین کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ بظاہر مہنگائی اور بیروزگاری ہے۔
اس کے علاوہ جماعت کے اندر اراکین کے اختلافات اور امیدواروں کو کن بنیادوں پر ٹکٹ دیے گئے یہ عوامل بھی انتہائی اہم ہیں۔ بیشتر علاقوں میں منتخب اراکین اسمبلی یا وزرا نے اپنے رشتہ داروں کو ٹکٹ دیے تھے جس پر جماعت کے پرانے کارکنوں نے احتجاج کیا تھا۔
کوہاٹ کی مثال لی جائے تو دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور دونوں کے ووٹ جیتنے والے امیدوار سے کہیں زیادہ ہیں۔ لکی مروت میں رکن صوبائی اسمبلی ہشام انعام اللہ اور وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور کے اختلافات کی وجہ سے پی ٹی آئی کو شکست کا سامنا ہوا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے تحصیلوں میں میانخیل خاندان کے افراد نے کامیابیاں حاصل کی ہیں جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان تحصیل میئر کے انتخابات ملتوی کر دیے گئے تھے۔ علی امین گنڈا پور نے اس نشست کے لیے اپنے بھائی عمر امین کا انتخاب کیا تھا جبکہ اس سے پہلے ایک بھائی کو وہ صوبائی وزارت کا عہدہ دلوا چکے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے قومی سیاست پر اثرات
عام طور پر مقامی حکومتوں کے انتخابات کو برادری کی بنیاد پر لڑے گئے انتخابات قرار دیا جاتا ہے اور مبصرین کے مطابق اس کے اثرات قومی سطح کی سیاست پر کم ہی مرتب ہوتے ہیں۔
اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات پروفیسر شاہ نواز خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ماضی کے جتنے بھی مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوئے تھے وہ غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے۔
شاہ نواز خان کا کہنا ہے کہ ’حالیہ انتخابات عدالتی حکم پر ہوئے اور عدالت کے کہنے پر ہی جماعتی بنیادوں پر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے اس مرتبہ سیاسی جماعتیں مقامی سطح کے انتخابات میں بھی متحرک ہو گئی تھیں اور سیاسی جماعتوں کے انتحابی نشان اہمیت اختیار کر گئے تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ان انتخابات کے نتائج کا اثر قومی سطح یا صوبائی سطح کے عام انتخابات پر ضرور پڑے گا۔
صحافی اور تجزیہ کار فرزانہ علی کہتی ہیں کہ ’ان انتخابات کے اثرات قومی سطح کی سیاست پر پڑ سکتے ہیں کیونکہ اس وقت ہوا مخالف سمت میں چل چکی ہے لیکن ابھی دیکھنا ہو گا کے مقامی سطح کے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں کیا ہوتا ہے، صورتحال اس وقت زیادہ واضح ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا انحصار پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی پر ہے اور اگر یہی حالات رہے اور پی ٹی آئی کی اندرونی لڑائیاں جاری رہیں تو دوسرے مرحلے میں ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں حکمراں جماعت کے لیے حالات اس سے بھی بدتر ہو سکتے ہیں۔‘
سینیئر صحافی علی اکبر کا کہنا ہے کہ موجود انتخابات کے بعد صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ عوام میں جائیں اور ان کے روزمرہ کے مسائل حل کریں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان انتخابات کے اثرات صرف پی ٹی آئی پر ہی نہیں بلکہ دیگر جماعتوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہیں کیونکہ اپوزیشن میں صرف جمیعت کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے باقی جماعتوں میں عوامی نینشل پارٹی نے بھی قدرے بہتر کارکردگی دکھائی ہے لیکن پی پی پی اور پی ایم ایل این کا خیبر پختونخوا میں بظاہر صفایا ہوتا نظر آیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جو ریلیاں، لانگ مارچ اور احتجاجی مظاہرے جمیعت نے پی ٹی آئی کے دور میں کیے ہیں اس مستقل مزاجی سے کوئی بھی دوسری جماعت اپنے کارکنوں کو فعال نہیں کر پائی۔ اور بظاہر یہ کارکنوں کو فعال رکھنے کا نتیجہ ہے کہ ان انتخابات میں جمعیت نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
اب تک پندرہ تحصیلوں میں جمیعت جیت چکی ہے جن میں پشاور کی چار تحصیلیں شامل ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت پی ٹی آئی کے پاس ہو اور صوبائی دارالحکومت پشاور میں جمیعت کی حکومت ہو تو ایسے میں جمیعت کے نمائندے لوگوں کے مسائل کیسے حل کر سکیں گے۔
شاہ نواز خان کا کہنا ہے کہ ’مقامی حکومتوں کے پاس اختیارات ضرور ہیں لیکن موجودہ نظام میں ایک گڑ بڑ بھی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جیسے مرکز سے اختیارات صوبے کو ملتے ہیں اور پھر صوبے سے ضلعے کو اور ضلعے سے تحصیل اور تحصیل سے یونین اور ویلج کونسل تک جاتے ہیں نئے بلدیاتی نظام میں ضلع کونسل غائب ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’موجودہ حکومت نے صوبائی حکومت اور ضلع کا اختیار اپنے پاس رکھا ہے اور ضلع کا سربراہ ڈپٹی کمشنر ہی ہو گا۔ اس کے علاوہ مقامی حکومتوں کو فنڈز کی فراہمی کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔‘
علی اکبر کا کہنا تھا کہ قانون کے تحت صوبائی حکومت مقامی حکومتوں کو اپنا حصہ دے گی اور ان فنڈز کو روک نہیں سکتی۔