Baam-e-Jahan

کیا ہنزہ میں قیمتی جانوں کے ضیاع کا یہ پہلا واقع ہے؟

attabad lake farman baig

فرمان بیگ


حکمران جماعت کے ذمہ داروں کی بے حسی کا اندازہ سوشل میڈیا کے ان چند سکرین شاٹ سے لگایاجا سکتا ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہنزہ کی سر زمین پر انمول قیمتی جانوں کے ضیاع کا یہ پہلا واقع ہے؟ نہیں۔ ماضی پر نظر ڈالیں تو ہمیں مسگر میں چھ سات، حسینی کے مقام پر نو اور ان معصوم طالب علموں کے علاوہ آئے روزہ حادثات میں انمول جانیں ڈسٹرک ہنزہ میں صرف ہسپتال کے نہ ہونے اوربروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ضائع ہوتے ہیں۔

ہنزہ کے اکابرین اور باآثر افراد کی اجتماعی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیں جب کوئی اس طرح کا درد ناک واقعات رونما ہوتا ہے تو یہ سیاسی سماجی و مزہبی اکابرین دو چار دن تک مگرمچھ کے آنسو بہاتے افسوس کرتے اور مستقبل کے لیے احتیاطی تدابیر اور اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنے کے بارے گفتگو کرتے مگر چند روز گزرنے کے بعد سب کچھ بھول جاتے ہیں جب تک کہ کوئی اور سانحہ پیش نہیں آتا۔

اب ان معصوموں کے جانے کے بعد ایک بار پھر صحت کے شعبے کو لے کر روایتی سیاسی سماجی اور مذہبی حلقوں میں غم وغصہ کا اظہار کیا جارہا ہیں اور مستقبل میں اسطرح کے حادثات سے نمٹ نے کے لیے عہد و پیماں ہونے لگا ہیں ماضی اور موجودہ سیاسی سماجی اور خاص کر حکمران جماعت کے ذمہ داروں کے رویے اور نمائندہ کی ان چند مہینوں کی کارکردگی کو سامنے رکھیں تو یہ سب بے سود۔

مگر کب تک؟

کیا ہمارے سیاسی سماجی و مذہبی اکابرین سوائے افسوس صرف مگرمچھ کے آنسو بہاتے اور خیالی محل تعمیر کرتے رہنگے؟ یا کبھی کوئی عملی اقدامات اٹھانے کی طرف بھی قدم بڑھائیں گے؟

حکمران پارٹی کی بے حسی اور منتخب نمائندہ کی صورت حال ہمارے سامنے ہیں ہنزہ کو معمول کے ترقیاتی فنڈ سے بھی محروم رکھا گیا۔ ان سے توقعات رکھنا خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔

ہنزہ کے نوجوانوں کو اٹھانا ہوگا ان روایتی سیاسی سماجی و مذہبی اکابرین کو ان کے گھونسلوں میں بند کرکے ہنزہ کے گھمبر مسائل کو حل کرنے کے لیے میدان میں آنا ہوگا بصورت دیگر اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں اس طرح اور کتنی قیمتی جانیں ان بے حس اکابرین کے خود ساختہ امن پسندی کی نذر ہوتی رہیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے