Baam-e-Jahan

ہنزہ نگر کے پہاڑ اور صدیوں پرانی کہانت کی دم توڑتی روایت

ڈاکٹر محمد کاشف علی

کہانت یعنی شامنزم قدیم دنیا کا مذہب رہا ہے ابھی بھی کہیں کہیں خاص طور پر قبائلی سماجوں میں رائج ہے، کاہن یا شامن اس کو ایک مذہبی و روحانی رہنما کی حثیت حاصل ہوتی ہے۔
پاکستان میں آج بھی دو قبیلے ایسے ہیں جو ازمنہ قدیم سے شامنزم کی پیروی کرتے آئے ہیں۔ ایک تو ہے چترال کا کالاش قبیلہ اور دوسرا بروشو قبیلہ یعنی ہنزہ کوت یا ہنزہ کے لوگ۔ بروشو زبان ( جس کو غلط العام ہنزائی زبان بھی کہا جاتا ہے) میں شامن کو دینل کہتے ہیں، چترال سے قدیم روابط کیوجہ سے چترالی زبان (کھوار) کا لفظ بیٹان دینل یا شامن یا کاہن کے لئےاستعمال ہوتا ہے۔ ہنزہ میں شامنزم کے زوال کے پیچھے وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہنزہ ریاست کی تحلیل ہے کیونکہ ہنزہ کے راجہ (میر) سیاسی، جنگی، موسمی، زرعی قسم کی پیشگوئیوں کے لئے دینل کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ ہنزہ والوں کا ماننا ہے کہ دینل ہنزہ کے صرف ان دیہاتوں میں پیدا ہوتا ہے جہاں سے دومانی ( جس کا عام نام راکا پوشی ہے) پہاڑ نظر آتا ہے۔ تصویر میں جو برفپوش اہرام کے جیسا ابرق میں ملفوف پہاڑ ہے یہ ہی ہنزہ نگر والو کا دومانی اور میرا آپ کا راکا پوشی ہے جس کو دیکھ دیکھ کر دینل وجود میں آتے رہے۔ جب آپ شمال کے پہاڑوں میں جائیں تو نگر کے چھلت اور چھپروٹ گاؤں کا چکر بھی لگائیں کیا پتا کوئی دینل آپ کو مل ہی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں