ماجد علی
چترال میں سردی ہمیشہ کڑاکے کی پڑتی ہے۔ محبوب کی ترچھی نگاہوں اور ان کے نوکیلے پن پر عالمی ادب میں جتنی شاعری وجود میں آئی ہے وہ تمام اشعار چترال کی سرد ہواؤں پر بھی کماحقہ صادق آتے ہیں۔
کہتے ہیں کسی زمانے میں جاڑے کی انہی یخ بستہ ہواؤں سے زچ کسی بڑھیا نے مشتعل آگ دیکھ کر یکایک بارگاہ خداوندی میں دست دعا دراز کی تھی کہ، تو اگر واقعی عظمت والا رب ہے تو مجھے آخرت میں بھی آگ ہی نصیب کرنا”۔
یہ فقرہ اب چترال میں زبان زد خاص و عام ہے۔ جہاں بھی کسی سردی کے مارے کو آگ کےایک آدھ بھڑکتے شعلے دکھے اور اس کے منہ سے بھاپ کی دم پکڑے، پٹاخ سے یہ فقرہ بھی نکل گیا۔
دسمبر کی بےکیف راتوں میں درجہ حرارت جب حد درجہ ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے نقطہ انجماد کے اوپر سے جھانکنے کو بھی راضی نہ ہو اور بدن جنیریٹر کی طرح مسلسل تھرتھرانے لگے تو کانپتے ہاتھوں، بجتے دانتوں اور بہتی ناک کا واحد مطالبہ ” آگ” ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں بفرض محال کہیں سے انھیں آگ نصیب ہو جائے تو پھر وہی بڈھی کی ضرب المثل بہ آواز بلند دہرا دی جاتی ہے اور مکمل ہوش و حواس میں خود کو بہشت کی تمام تر آسائشوں سے یک قلم محروم کردیا جاتا ہے۔
جنوری کی خون منجمد کرنے والی سردی میں جب جنت کی یخ بستہ ہواؤں کا خیال آئے تو بےساختہ جی چاہتا ہے کہ کوئی کبیرہ گناہ کرکے خود کو جہنم واصل کرلیا جائے یا پھر جنت میں بہتی شراب کی بےکراں نہروں میں جھلستا ہوا انگارہ پھینک دیا جائے۔
ماہ فروری میں آہستہ آہستہ کیڑے مکوڑوں کے ساتھ امید بھی "ہاہیبرنیشن” سے نکل کر انگڑائی لینے لگے اور سرما کے خلاف جنگ میں فتح کی ہلکی سی امید جاگنے لگے تو ہر چہرہ نکھر جاتا ہے۔ گزشتہ ماہ و سال کی سرد ہواؤں کا ذکر بھی بدشگونی کی علامت گردان کر ان کی یاد مشترکہ یاداشت سے یکسر مٹا دی جاتی ہے۔ ان حالات میں خدانخواستہ کوئی منچلا ڈرائیور اپنی گاڑی کے پیچھے "ماں کی دعا، جنت کی ہوا” ایسے فقرے لکھنے کی جسارت کرئے تو اسے قبیلے کا باغی جان کر اجتماعی دعائیں مانگی جاتیں ہیں کہ خدا ایسے سرکش کو جھنم کی آگ سے دور رکھے اور ساری عمر جنت میں نامراد ٹھٹھرنے کو چھوڑ دے۔
ابراہیمی مذاہب میں جنت کا جو تصور ہے وہ چترالیوں کے اطمینان کیلئے یقیناً ناکافی ہے۔ چترالیوں کی جنت میں نمکین چائے کا ہونا اولین شرط ہے اور آگ کے بغیر چترالی جنت کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔
ستر حوروں کی جگہ موسیقی کے آلات کا انبار ہو، اور غلمان کی جگہ گھوڑے اور اچھی نسل کے پالتو کتے ہوں۔ باقی جہاں تک شراب کی بہتی نہروں کا تعلق ہے تو انھیں ہرگز نہ چھیڑا جائے کہ دریاؤں کا رخ آج تک کون بدل سکا ہے بس دریاء کے کناروں پر سبز باغات کے پودے اگر دھواں اڑانے کے قابل ہوں تو کیا کہنے۔
ہمارے ہاں جنت کا جو عمومی تصور پایا جاتا ہے وہ کسی عربی شیخ کی تسکین کیلئے کافی ہو تو کچھ باعث حیرت نہیں مگر سرد اور زرخیز علاقوں کے مکینوں کیلئے اس تصور میں کوئی خاص دلچسپی کا سامان نہیں رکھا۔ رہا سوال ہم ایسے رنج سے خوگر انسانوں کا، تو ہمارا دل توڑنے کیلئے یہی بات کافی ہے کہ جنت میں کوئی غم نہیں ہوگا۔ خوشی کے بغیر تو ہم ایک عمر جی لیے مگر غم اور اذیت کے بغیر جینا شاید ہم سے نہ ہو پائے۔
افکار علوی کا شعر ہے؛
عجب ہے دین کے احکام عربی میں بھیجے
کہ جیسے دین فقط عربی لوگوں کیلئے ہو
اب خیال آتا ہے دین کیا جنت بھی صرف عربی لوگوں کیلئے بنائی گئی ہے، شاید ہمیں اپنی جنت آپ بنانا ہوگی۔