Baam-e-Jahan

جب چترال میں بھنگ سرکاری سرپرستی میں اُگائی جاتی تھی

سید اولاد الدین شاہ بشکریہ انڈیپنڈنٹ اردو


ریاستِ چترال میں 1969 سے پہلے بھنگ کی کاشت پر کسانوں سے ٹیکس لیا جاتا تھا اور اس مقصد کے لیے جگہ جگہ چیک پوائنٹس بنائے گئے تھے۔

قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی بھنگ کی کاشت چترال کے لوگوں کا ذریعہ آمدن ہوا کرتی تھی۔ تاہم 1969 میں حکومت پاکستان نے بھنگ کی کاشت پر پابندی تو لگا دی لیکن متبادل ذریعہ آمدن کچھ نہیں دیا۔

وکیل اور تاریخ دان شہزادہ تنویر الملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی چترال کے لوگ بھنگ کی پیداوار سے اچھا خاصا زرمبادلہ کمایا کرتے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ 1937 میں گورنر چترال اپنے وفد کے ہمراہ سرکاری دورے پر کابل گئے اور اس وقت کے مہتر چترال ناصر الملک کے حکم پر چترال میں بھنگ کی کاشت کا باقاعدہ آغاز ہوا، جس کے بیج کابل سے منگوائے گئے تھے۔

’اس سے پہلے بھی بھنگ اگر کاشت ہوتی تھی تو وہ قانونی نہیں تھی۔ بھنگ کی کاشت کے سلسلے میں علما سے رائے لی گئی اور ریاست کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے اس وقت چترال کے علما کرام نے بھنگ کی کاشت کو جائز قرار دیا تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کاشت چونکہ سرکاری مدعیت میں تھی اس لیے ان سے باقاعدہ ٹیکس لیا جاتا تھا۔ ’اس ٹیکس کو چنگی کہتے تھے اور چنگی وصولی کے لیے باقاعدہ عملہ کام کرتا تھا۔ جگہ جگہ چیک پوائنٹ ہوا کرتے تھے، اس سے سرکار اور عوام دونوں کو فائدہ ہوتا تھا۔‘

شہزادہ تنویر الملک نے کہا کہ ’1969 میں جب بھنگ کی پیداوار پر پابندی لگی تو اس وقت اس پیداوار کو ختم کرنے کے بدلے گھر گھر بیلچے، کدال اور سلائی مشینیں تقسیم کی گئیں، جبکہ بعد میں وہ بھی نہیں ملیں۔‘

حکومت پاکستان کی طرف سے ستمبر 2020 میں بھنگ کی پیداوار کی سرکاری طور پر اجازت دی گئی ہے اور سرکاری نگرانی میں بھنگ کی کاشت کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔ تاہم پاکستان کی وفاقی حکومت نے صرف ادویات میں استعمال کے لیے ایک محدود پیمانے پر ہی بھنگ کی کاشت کی اجازت دے رکھی ہے۔

چترال کا علاقہ پترنگاز بھنگ کی کاشت کے لحاظ سے ضلع بھر میں مشہور ہے۔ پترنگاز سے پیدا شدہ بھنگ کو ’پترنگازیاں‘ کہتے ہیں۔

اس حوالے سے پترنگاز چترال سے تعلق رکھنے والے میر بیض سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’1902 میں پترنگاز میں بھنگ کی کاشت کا آغاز ہوا۔ ہمارے آبا و اجداد یہاں آکر آباد ہوئے۔ اس سے پہلے یہاں کوئی آبادی نہیں تھی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس کی پیداوار سے اچھی خاصی آمدن حاصل ہوتی تھی اور محنت بھی کم لگتی تھی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’مئی میں ہم مکئی کے ساتھ اس کی بوائی کرتے تھے اور اکتوبر یا نومبر میں کٹائی کرتے تھے۔ دسمبر میں بھنگ کے پتوں اور بیج وغیرہ کو چرس میں تبدیل کر دیتے تھے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ مرحلہ تھوڑا مشکل ہے۔ ایلومینیم کے برتن پر کپڑے کو مضبوطی سے باندھا جاتا ہے جیسا کہ کوئی طبلہ۔ پھر بھنگ کے پتوں اور بیج کو درخت سے نکال کر اس برتن کے اوپر ڈالا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہاتھ سے کپڑے کے ساتھ مل دیا جاتا ہے۔‘

’اسی طرح بھنگ کے چھوٹے چھوٹے ذرے کپڑے سے ہوکر برتن کی سطح میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کو کھوار زبان میں ’گاردہ‘ کہتے ہیں۔ یہ عمل تین بار دہرایا جاتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس سب کے بعد اس کو گرم کر کے اچھی طرح گوندھ کر چرس تیار کی جاتی ہے۔ ہمارے گاؤں کی چرس پورے چترال میں مشہور ہے۔ جو اس وقت بھی چترال میں کم اور چترال سے باہر زیادہ فروخت ہوتی ہے۔‘

بھنگ کی کاشت کے معاملے پر یونیورسٹی آف چترال کے ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ بھنگ کی کاشت اگر ادویات کی تیاری کے لیے ہو تو پھر ٹھیک ہے، لیکن یہ حکومت کو اپنی نگرانی میں کاشت کرنی ہو گی۔

انہوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ’ہماری نوجوان نسل کو اس نشے کی لت لگ جائے گی۔‘

1947 سے قبل چترال ریاست تھی جہاں کا نواب مہتر کہلاتا تھا۔ اس ریاست کا آغاز کتور خاندان کے بانی شاہ کتور نے 16 ویں صدی میں کیا تھا اور 1969 تک اسی خاندان کی حکومت قائم رہی۔
جب انگریزوں نے ہندوستان پر غلبہ حاصل کیا تو چترال کے نوابوں نے ابتدائی مزاحمت کے بعد ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں عافیت جانی، چنانچہ انگریزوں کا ریزیڈنٹ ریاست کے اندر موجود رہتا تھا۔

آزادی کے وقت چترال کے مہتر مظفر الملک نے، جو قائداعظم کے دوست بھی تھے، پاکستان کے الحاق کا فیصلہ کیا تاہم چترال کا بطور ریاست علیحدہ تشخص قائم رہا۔ اس کے بعد 1969 میں پاکستان نے جہاں دوسری ریاستوں کو ملک کے اندر ضم کیا، وہیں چترال بھی پاکستان کا حصہ بن گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے